حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ

حضرت عَمْرو بن سعید  رضی اللہ عنہ


 ایک صحابی  رضی اللہ عنہ  انگوٹھی پہنے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو دریافت فرمایا: تمہارے ہاتھ میں یہ انگوٹھی کیسی ہے؟ عرض کی: یا رسول اللہ! یہ انگوٹھی میں نے خود بنائی ہے۔ پوچھا: اس پر کیا نقش ہے؟عرض کی : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ۔ رحمت عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:تم یہ انگوٹھی مجھے دے دو پھر رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ انگوٹھی (بطور مہر) استعمال فرمائی اور اس جیسا نقش کندہ کروانے سے سب کو منع فرما دیا، یہ انگوٹھی رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے وصال تک آپ کے دستِ مبارک میں رہی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر فاروق اور پھر حضرت عثمان  رضی اللہ عنہم  کے پاس رہی۔ ([1]) پیارے اسلامی بھائیو! پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جن صحابی کی انگوٹھی کو اپنی انگلی کی زینت بنایا تھا وہ عظیم صحابی حضرت عَمْرو بن سَعید بن عاص  رضی اللہ عنہ تھے۔

قبولِ اسلام اور ہجرت :

حضرت عَمْرو بن سَعید بڑے عقلمند اور سمجھدار تھےآپ سمیت 8 بھائیوں میں سے 5 بھائی اسلام لائے تھےسب سے پہلے حضرت خالد  رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے پھر کچھ عرصہ بعد آپ بھی جہالت کی اندھیر ی وادیوں سے نکل کر ایمان کی روشن شاہراہ پر گامزن ہوگئے۔([2])پہلے حضرت خالد ہجرت کرکے حبشہ پہنچےپھر حضرت عَمْرو  رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلے آئے اور ایک لمبے عرصے تک حبشہ ہی میں قِیام کیا۔([3])

نیکی کی دعوت:

 آپ کے بھائی حضرت اَبان ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے لہٰذا انہوں نے اپنے دونوں مسلمان بھائیوں کی مذمّت کرتے ہوئے کچھ اشعار کہے،جواب میں حضرت عَمرو بن سَعید  رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ اشعار کہے: میرا بھائی جیسا بھی ہےمیرا بھائی ہے میں اس کی عزّت پر حرف لانے والا نہیں اور وہ بُری بات کہنے میں کمی کرنے والا نہیں ہے، جب اس پر معاملات مشکوک ہو جاتے ہیں تو کہتا ہے: سن لو! کاش کہ مقامِ ظَرِیبہ کا مُردہ زندہ ہو جاتا، (اے بھائی! ) تُو اس مُردے (کی فکر ) کو چھوڑدے کہ وہ اپنی راہ جا چکا، اور اس زندہ کی طرف توجّہ کر جو زیادہ محتاج ہے(یعنی اپنے بارے میں غور و فکر کر)۔ ([4])3 ہجری غزوۂ بَدر کے بعد دونوں بھائیوں نے حضرت اَبان کو ایک خط لکھا:ہم تمہیں اللہ کی یاد دلاتے ہیں کہ تم اسی باطل دین پر مرجاؤگے جس پر تمہارا باپ مَرا ہے اور تمہارے دونوں بھائی قتل ہوئے ہیں، لیکن حضرت اَبان اب بھی مسلمان نہ ہوئے۔([5]) آخِر کاردونوں بھائی ایک سفینے میں بیٹھ کر حبشہ سے روانہ ہوئے یَمَن کے ساحلِ سمندر کے قریب دونوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے بھائی ابان کی جانب ایک قاصد کے ہاتھ مکتوب روانہ کیا اور دعوتِ اسلام پیش کی، مکتوب ملنے کے بعد حضرت ابان  رضی اللہ عنہ  نے اسلام قبول کرلیا اور مدینے میں اپنے بھائیوں سے جاملے، پھر تینوں بھائی 7 ہجری خیبر کےمقام پر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے۔([6])

خدماتِ دِینیہ:

حضرت عَمرو بن سَعید  رضی اللہ عنہ نے فتحِ مکہ، غزوۂ حنین، معرکہ ٔ طائف اور جنگِ تبوک میں نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ شرکت کی سعادت پائی۔([7])غزوۂ طائف کے کچھ قیدیوں کو نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مختلف صحابہ کے سِپُرد کیا اور حکم دیا تھا کہ ان کو قراٰن پڑھاؤ اور سنّتیں سکھاؤ حضرت عَمرو بن سَعید  رضی اللہ عنہ بھی قراٰن پڑھانے والوں اور سنتیں سکھانے والوں میں شامل تھے۔([8])تینوں بھائیوں کو نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےمختلف مقامات پر عامل بنادیا حضرت عمرو  رضی اللہ عنہ تبوک، خیبر اور باغِ فَدَک  (کے معاملات دیکھنے) کے لیے مقرّر ہوئے۔ ([9])

عہدہ قبول نہ کیا:

تینوں بھائی رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری وفات کی خبر ملتے ہی مدینے پہنچے، بعد میں حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسولُ اللہ کے عاملین سے بڑھ کر کوئی بھی عامل بننے کاحقدارنہیں ہے آپ تینوں اپنے عہدوں پر برقرار ہیں دوبارہ لوٹ جائیے،یہ پیشکش یقیناً تینوں بھائیوں کےلیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا لیکن تینوں نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور عرض کی: ہم رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد کسی کے لیے عامل نہیں بنیں گے۔([10])

جوشِ ایمانی:

حضرت عمرو بن سعید  رضی اللہ عنہ کے دل میں شہادت کا شوق اور جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جنگِ اَجنادَین میں حضرت عمرو بن سعید کے ساتھ سات یاآٹھ مسلمان دشمنوں کی جانب اپنے ہاتھ پھیلائے کھڑےتھے اور حضرت عمرو  رضی اللہ عنہ  یہ آیت پڑھ رہے تھے: ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! جب کافروں کے لشکر سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرو ([11])پھر کہنے لگے: جنّت کتنا اچّھا ٹھکانا ہے اور یہ کس کےلئے ہے؟ اللہ کی قسم ! یہ اس کے لیے ہے جواللہ کی رضا پانے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ کریم کی راہ میں لڑتا ہے۔([12])

آخِری لمحات:

صحابیِ رسول حضرت عبدُ اللہ بن قُرْط  رضی اللہ عنہ (سال وفات:56 ہجری)کہتے ہیں:جنگِ اَجنادَین میں رومی فوج نے بڑا سخت حملہ کیا شدّت اتنی تھی کہ میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر حضرت عَمرو  رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا کچھ دشمنوں نے حضرت عمرو  رضی اللہ عنہ کو گھیر رکھا تھا میں نے ایک دشمن پر حملہ کر کے اسے نیچے گرادیا، پھر حضرت عَمرو  رضی اللہ عنہ کے قریب ہوکر اپنا نام بتایا تو انہوں نے فرمایا: خوش آمدید! تم میرے مسلمان بھائی ہو اور نسب میں زیادہ قریب ہو۔ اللہ کی قسم! اگر میں شہید ہو گیا تو ضرور تمہاری شفاعت کروں گا، اس وقت حضرت عَمرو  رضی اللہ عنہ  کی ایک اَبرو کے اوپر تلوار کا گہرا زخم تھا اور آنکھیں خون سے بھر چکی تھیں آپ اس وقت نہ تو پلک جھپک سکتے تھے اور نہ ہی خون کی وجہ سے اپنی آنکھیں پوری طرح کھول پارہے تھے۔ پھر کہنےلگے: اللہ کریم اس زخم کو میرے لیے شہادت کا سبب بنا دے اوراس جیسا ایک اور زخم تحفے میں عطا کردے۔ اللہ کی قسم! اگر میرا شہید ہوجانا آس پاس کے مسلمانوں کے حوصلے پست نہ کرتا تو میں ان دشمنوں پر آگے بڑھ بڑھ کر حملے کرتا کیونکہ شہادت کاثواب بہت زیادہ ہے اور دنیا تو ایسا گھر ہے جس میں کوئی سلامت نہیں رہ پاتا۔([13]) کچھ دیر نہ گزری تھی کہ دشمنوں کے ایک جتھے نے ہم پر حملہ کیا (تو غبار چھاگیا لیکن) حضرت عمرو اپنی تلوار لے کر اس جتھے میں گھس گئے اور دیر تک لڑتے رہے۔ غبار کچھ چھٹا تو ہم نے ان دشمنوں پر حملہ کیا اور ان کے تین ساتھی مار گرائےلیکن اس وقت تک حضرت عمرو نیچے گر کر شہید ہوچکے تھے ان کے جسم پر 30 سے زیادہ زخم تھے،([14]) آپ کے دونوں بھائی حضرت خالد اور حضرت ابان  رضی اللہ عنہما  بھی اسی جنگ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔([15])ایک قول کے مطابق اس جنگ میں مسلمانوں نے بروز پیر 18 جُمادَی الاُولیٰ سن 13 ہجری کو فتح حاصل کی تھی۔([16])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])الاستیعاب، 3/261- طبقات ابن سعد، 1/367

([2])تاریخ ابن عساکر، 16/68

([3])الاستیعاب، 3/261- مستدرک،4/261،حدیث:5097

([4])تاریخ ابن عساکر، 46/22

([5])طبقات الکبیرلابن سعد، 5/9

([6])طبقات ابن سعد، 5/9

([7])الاستیعاب، 3/261

([8])مغازی للواقدی، ص 932 ماخوذاً

([9])الاستیعاب، 3/261

([10])مستدرک، 4/275، حدیث: 5134

([11])پ9، الانفال:15

([12])تاریخ ابن عساکر، 46/25ملخصاً

([13])تاریخ ابن عساکر،46/26

([14])تاریخ ابن عساکر، 46/26- الاصابہ، 4/528

([15])تاریخ ابن عساکر، 16/84

([16])تاریخ ابن عساکر، 28/139


Share