پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو

پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو

(Consider five as spoils before five)


عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ : اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغُلِكَ وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ

حضرت عَمرو بن میمون اَوْدِی  رضی  اللہ  عنہ  سے مروی ہے کہ رسولُ   اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو؛ جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے، تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے، مالداری کو تنگدستی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلےاور زندگی کو موت آنے سے پہلے۔ ([1])

نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اِغْتَنِمْ جس کا مطلب ہے کسی چیز کو غنیمت جاننا، یعنی اس سے فائدہ اٹھانا اور قدر کرنا۔ ان پانچ حالتوں میں انسان کے پاس عمل کا موقع ہوتا ہےاور جب یہ حالتیں بدل جاتی ہیں تو انسان کے پاس عمل کا وقت یا طاقت نہیں رہتی۔ یہ حدیث مبارکہ مختصر مگر انتہائی جامع نصیحت پر مشتمل ہے۔ اس میں انسان کی پوری زندگی کا نچوڑ بیان کیا گیا ہے۔ رسولِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پانچ ایسی نعمتوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے جو بظاہر عام دکھائی دیتی ہیں لیکن حقیقت میں ان کا صحیح قدر دان بننا بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔

حضرت علامہ  علی قاری  رحمۃُ  اللہ  علیہ  لکھتےہیں: ”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو“

(1)”جوانی کو بڑھاپے سے پہلے“ یعنی اپنی طاقت اور قوت کے زمانے میں عبادت کر لو، اس سے پہلے کہ بڑھاپے کی کمزوری تمہیں نیکی سے روک دے۔

ریاضت کے یہی دن ہیں، بڑھاپے میں کہاں ہمت

جو کچھ کرنا ہو اب کرلو، ابھی نوری جواں تم ہو

(2)”صحت کو بیماری سے پہلے“یعنی چاہے بڑھاپے ہی میں کیوں نہ ہو!

(3)”مالداری کو تنگدستی سے پہلے“ یعنی جب تک مال موجود ہے، اس سےصدقہ خیرات اور نیکی کے کام کرو، اس سے پہلے کہ مال ختم ہو جائے اور تم کچھ کرنے کے قابل نہ رہو۔

(4)”فراغت کو مشغولیت سے پہلے“ اس کا بنیادی مفہوم اور معنی پہلے بیان ہو چکا ہے۔

(5)”زندگی کو موت سے پہلے“ یعنی جب تک زندگی باقی ہے، اگرچہ بڑھاپے اور غربت کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو ان حالتوں میں بھی کم از کم   اللہ  کا ذکر تو کیا ہی جاسکتا ہے تو اسے بھی موت آنے اور عمل کا سلسلہ ختم ہو جانے سے پہلے غنیمت جانو۔([2])

 اللہ  تعالیٰ کا ہمیں یہ زندگی عطا فرمانا اور ایک مخصوص مدت گزرنے پرہماری موت کاواقع ہوجانا بھی خالی از حکمت نہیں ہے۔ چنانچہ سورۂ مُلک میں ارشاد فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ(۲)

ترجمۂ کنزالایمان: وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ (یعنی آزمائش) ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ پانچ نعمتیں؛ زندگی، صحت، فرصت، جوانی اور مالداری، انسان کے پاس امانت ہیں۔ ان کی حقیقت اور قدر اکثر لوگ اس وقت جان پاتے ہیں جب یہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔ دانشمند وہ ہے جوان نعمتوں کو آخرت کی تیاری میں استعمال کرے، تاکہ کل پچھتاوا نہ ہو۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے  اس میں جیسا بیج ڈالیں گے  آخرت میں و یسا ہی  پھل ملے گا۔

حضرت عبد اللہ  بن عمربیان فرماتے ہیں: رسولُ   اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے شانے پراپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا: كُنْ فِي الدُّنْيَا كَاَنَّكَ غَرِيبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي اَهْلِ القُبُورِ فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالمَسَاءِ، وَإِذَا اَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ فَاِنَّكَ لَاتَدْرِي يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ غَدًا۔ یعنی دنیا میں اس طرح رہ گویا کہ تو اجنبی ہے یا راہ چلتا ہوا (مسافر) او راپنے آپ کو (زندگی ہی میں) اہل قبور میں شامل کرلے اورحضور   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اے عبد اللہ ! جب تو صبح کرے تو اپنے دل میں شام تک زندہ رہنے کی امید نہ کراورجب شام کرے تو صبح تک زندگی کی آس نہ رکھ۔ اپنی صحت میں اپنی بیماری کے لیے کچھ کرلے او راپنی موت سے پہلے زندگی میں اس کی تیاری کرلے اے عبد اللہ ! تجھے کچھ خبر نہیں کل تیرا نام کیا ہوگا؟([4])

بعض دفعہ انسان فیملی کو یہ کہہ کر باہر جاتا ہے کہ میں کچھ دیر میں واپس آرہا ہوں۔ لیکن راستے میں وہ کسی ایکسیڈنٹ کاشکار ہوجاتاہے کچھ دیر  میں لوٹنے کی بجائے چند لمحات کے بعد اس کی میت گھر آجاتی ہے۔سورۂ لقمٰن میں ہے:

وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۠(۳۴)

ترجمۂ کنزالایمان: اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی۔([5])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 جو زندگی میں عمل نہ کرے، موت کے بعد اس کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا پھر انسان حسرت کرتا ہے کہ کاش! اسے واپس بھیج دیا جائے تاکہ نیک اعمال کر سکے، مگر یہ صرف حسرت ہی رہ جاتی ہے۔قراٰنِ مجید میں ہے: 

حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ(۹۹) لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ-اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَاؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۰۰)

ترجمۂ کنزالایمان: یہاں تک کہ جب ان میں کسی  کو موت آئے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس پھیر دیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں ہِشت (ہرگز نہیں) یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے اور ان کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے۔([6])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

سورة المنٰفقون میں ہے: 

وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰)

ترجمۂ کنزالایمان: اور ہمارے دئیے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں کسی کو موت آئے پھر کہنے لگے اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا۔([7])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

آخر میں دعا ہے کہ  اللہ  تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی ڈھیروں بھلائیوں سے نوازے، ہماری عمریں، اوقات، صحت اور جوانی کو اپنے دین  کی خدمت اور نیک اعمال میں صرف کرنے کی توفیق دے، ہمارے گھروں کو طاعت و نیکی کا گہوارہ بنائے اور ہمیں رسولُ   اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے نقشِ قدم پر چلنے والا بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])المستدرک،5/435، حدیث:7916

([2])مرقاۃ المفاتیح، 9 / 28، حدیث: 5174

([3]29،الملک :2

([4])دیکھئے: بخاری ، 4 / 223، حدیث: 6416، ترمذی، 4 / 149، حدیث: 2340

([5])پ 21، لقمٰن: 34

([6])پ 18، المؤمنون: 99، 100

([7])پ 28، المنٰفقون: 10


Share