رزق اور عمر میں اضافہ
(Increase in sustenance and lifespan)
مسلم شریف میں ہے کہ رَحمتِ عالم، نورِ مجسّم، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ اَنْ يُبْسَطَ لَهٗ فِي رِزْقِهٖ وَيُنْسَاَ لَهٗ فِي اَثَرِهٖ فَلْيَصِلْ رَحِمَهٗ
ترجمہ : جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رِزْق میں وُسعت ہو اور عمر میں اضافہ ہو، اسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے۔ ([1])
اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں رِزق اور عمر میں اضافے کا نبوی نسخہ بتایا گیا ہے اور وہ ہے رشتہ داروں سے حسنِ سُلوک ! اپنا فائدہ چاہنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے لہٰذا جس عمل پر اس کا فائدہ موقوف ہو وہ کام کرنے میں اسے رغبت ہوجاتی ہے۔اس روایت میں رزق میں فراخی اور عمر میں اضافہ موقوف جبکہ رشتہ داروں سےحسنِ سُلوک موقوف علیہ ہے۔ ان تینوں کے بارے میں وضاحتی کلام یہاں پیش کیا جارہا ہے :
(1) رِزق میں وُسعت
رِزق بڑھنے سے مراد دراصل اس میں بَرَکت ہے کیونکہ صلۂ رحمی صدقہ ہے اور صدقہ مال کو بڑھاتا اور اس میں اضافہ کرتا ہے۔([2])
(2)عمر میں اضافہ
*اس حدیثِ پاک میں”یُنْسَاَ فِی اَثَرِہٖ“ فرمایا ہے یُنْسَاَ نَسَاء سے ہے۔ نَسَاء کہتے ہیں دیر لگانے کو اس لیے ادھار کو نَسِیْٔہ کہا جاتا ہے کہ وہاں مال دیر سے ملتا ہے۔ اَثَرکہتے ہیں نشانِ قدم کو، مرنے سے نشانِ قدم جاتے رہتے ہیں کہ پھر انسان چلتا پھرتا نہیں۔ پھر زندَگی کو اثر کہنے لگے کہ زندگی میں نشان قدم زمین پر پڑتے ہیں۔موت میں دیر لگانے سے مراد ہے عمر دراز ہونا، یعنی جو رِزق میں بَرَکت عمر میں درازی چاہے وہ رشتہ داروں سے اچّھا سُلوک کرے۔([3])
*حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:عمر میں اضافے کاتعلّق لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی اس عمر سے ہے کہ جو فرشتوں کو معلوم ہے۔ مثلاً: فرشتوں کو لوح محفوظ پر یہ دکھایا جاتا ہے کہ اس آدمی کی عمر ساٹھ 60برس ہےلیکن اگر اس نے صلۂ رحمی کی تو اس کی عمر میں چالیس40 سال کا اور اضافہ کردیا جائے اور اللہ کریم کو علم ہوتا ہے کہ یہ صلۂ رحمی کرے گا یا نہیں! لیکن مخلوق کو معلوم نہیں ہوتا۔جب وہ صلۂ رحمی کرتا ہے تو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی عمر میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔تو یہ زیادتی مخلوق کے علم کے لحاظ سے ہے اللہ پاک کے علم کے اعتبار سے نہیں۔([4])
*حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: عمر میں زیادتی سے ایک مُراد نیک اولاد بھی ہے جو اس کے لیے دعا کرنے والی اور اس کی نیک نامی کو زندہ رکھنے والی ہے۔([5])
* عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’عمر میں زیادتی کا معنیٰ یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی دنیا میں اس شخص کا ذکرِ جمیل باقی رہے گا اور لوگوں کی زبانوں پر اس کی تعریف رہے گی تو گویا کہ مرنے کے بعد بھی وہ نہیں مرا، اب یہ تعریف چاہے اس بِنا پر ہو کہ اس نے لوگوں کو ایسا علم پہنچایا جس سے ان کو نَفع حاصل ہوا یا اس نے صدقۂ جاریہ کیا ہو یا اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑ گیا ہو۔([6])
*ارشادُ السّاری شرح بُخاری میں ہے: عمر میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے جسم میں قوّت و طاقت حاصل ہو جاتی ہے، یا پھر اس کی اچّھی شُہرت اور نیک نامی لوگوں کی زبانوں پر باقی رہتی ہے گویا وہ مرا ہی نہیں۔یہ بھی مرادہوسکتا ہے کہ اگر یہ شخص صلۂ رحمی کرے گا تو اس کی عمر اور رِزق اتنے ہوں گے، اور اگر قطع رحمی کرے گا تو اتنے ہوں گے۔الترغیب والترہیب میں حضرت عبدُ اللہ بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ما سے روایت کیا ہے کہ نبیِ اکرم، رسولِ معظّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’بیشک انسان صلۂ رحمی کرتا ہے حالانکہ اس کی عمر میں صرف تین دن باقی ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں تیس سال کا اضافہ فرما دیتا ہے۔ اور بیشک ایک شخص قطع رحمی کرتا ہے حالانکہ اس کی عمر میں تیس سال باقی ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کی عمر کو گھٹا دیتا ہے یہاں تک کہ صرف تین دن باقی رہ جاتے ہیں۔‘‘([7])
(3)صلۂ رحمی
صِلَہ کے معنٰی ہیں : اِ یْصَالُ نَوْعٍ مِّنْ اَنْوَاعِ الْاِ حْسَان یعنی کسی بھی قِسم کی بھلائی اور احسان کرنا۔([8])اور رِحم سے مراد: قرابت، رشتہ داری ہے۔ ([9])بہارشریعت ‘‘میں ہے: صلہ رحم کے معنیٰ: رِشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سُلوک (یعنی بھلائی) کرنا۔([10])
اس حدیثِ پاک میں رِزق و عمر میں اضافے کو جس عمل پر موقوف کیا گیا ہے وہ صلۂ رحمی کرنا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ ذی رِحم ہو یا وارث و جانشین ہو یا پھر قریبی رشتے دار ہر ایک سے صلۂ رحمی و حسنِ سُلوک کرنا ہے اور یہ صلۂ رحمی (موقع کے مطابق) کبھی مال سے ہوتی ہے، کبھی خدمت سے اور کبھی میل جول سے ہوتی ہے۔([11])
مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض علمانے اِس حدیث کو ظا ہرپر حمل کیا ہے(یعنی حدیث کے ظاہری معنی مراد لئے ہیں ) یعنی یہاں قضا مُعَلَّق مراد ہے کیونکہ قضا مُبرم ٹل نہیں سکتی۔(قضا سے مراد یہاں قسمت ہے۔ قضا کی اقسام اور اس کے بارے میں تفصیلات جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ 14تا17کا مطالعہ کیجئے)
صلۂ رحمی کی صورتیں
قراٰنِ پاک میں ہے:
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-
ترجمہ ٔ کنز الایمان :اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔([12])
ایک اور فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بھی صلۂ رحمی کی فضیلت بیان کی گئی ہے:رشتے جوڑنا گھر والوں میں مَحَبَّت، مال میں بَرَکت اور عمر میں دَرازی ہے۔([13])
12ہزار درہم رشتے داروں کو بانٹ دیئے
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرتِ زینب رضی اللہ عنہاکی خدمت میں 12ہزار دِرہم بھیجے تو انہوں نے یہ رقم اپنے رشتے داروں میں تقسیم کر دی۔ ([14])
شارح بخاری علامہ سید محموداحمدرضوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ صلۂ رحمی کی مختلف صورتیں ہیں: مثلاً *ان کو ہدیہ و تحفہ دینا *ان کی امداد و اعانت کرنا *ان کے ساتھ لُطف و مہربانی سے پیش آنا *انہیں سلام کرنا *ان کے ساتھ ملاقات کرنا *ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا *ان کے ساتھ خط و کتابت رکھنا، غرضیکہ ہر وہ اچّھا فعل جس سے جانبین میں محبّت و اُلفت پیدا ہو صلۂ رحم ہے۔ بہتر یہ ہے ملاقات میں ناغہ کرے، ایک دن ملے تو دوسرے دن نہ جائےکہ اس طرح محبّت و اُلفت زیادہ ہوتی ہے۔ نیز صلۂ رحمی اسی کا نام نہیں کہ جب وہ اچّھی طرح پیش آئیں تب ہی ان سے اچّھائی کی جائے بلکہ صلۂ رحمی تو یہ ہے کہ اگر وہ سختی اور بے اعتنائی برتیں تو ان کے ساتھ نرمی اور بردباری سے پیش آیا جائے۔([15])
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رشتہ جوڑنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکائے بلکہ جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑ دے۔([16])
صِلَۂ رِحْمی کرنے کے 10 فائدے
حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صِلَۂ رِحْمی کرنے کے 10 فائدے ہیں:(1) اللہ پاک کی رِضا حاصل ہوتی ہے (2)لوگوں کی خوشی کا سبب ہے (3)فرشتوں کو مَسَرّت ہو تی ہے (4)مسلمانوں کی طرف سے اس شخص کی تعریف ہوتی ہے (5)شیطان کو اس سے رَنج پہنچتا ہے (6)عمر بڑھتی ہے (7)رِزْق میں برکت ہو تی ہے (8)فوت ہوجانے والے آباء و اجداد(یعنی مسلمان باپ دادا) خوش ہوتے ہیں (9)آپس میں مَحَبَّت بڑھتی ہے (10)و فات کے بعداس کے ثواب میں اِضافہ ہو جا تا ہے،کیونکہ لوگ اس کے حق میں دُعائے خیر کرتے ہیں۔([17])
رشتے داروں کےدرجات
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت جلد 3 صفحہ 559 پر لکھتے ہیں: احادیث میں مُطلَقاً (یعنی بغیر کسی قید کے) رشتے والوں کے ساتھ صِلہ(یعنی سُلوک) کرنے کا حکم آتا ہے، قرآنِ مجید میں مُطلَقاً (یعنی بِلا قید)ذوِی القربیٰ (یعنی قرابت والے) فرمایا گیا مگر یہ بات ضَرور ہے کہ رِشتے میں چُونکہ مختلف دَرَجات ہیں (اسی طرح) صِلَۂ رِحم (یعنی رشتے داروں سے حسنِ سلوک) کے دَرَجات میں بھی تفاوت(یعنی فرق) ہوتا ہے۔ والِدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے، ان کے بعد ذُورِحم مَحرم کا،(یعنی وہ رشتے دار جن سے نسبی رشتہ ہونے کی وجہ سے نکاح ہمیشہ کیلئے حرام ہو) ان کے بعد بَقِیَّہ رشتے والوں کا علیٰ قدر ِمراتب۔(یعنی رشتے میں نزدیکی کی ترتیب کے مطابق) ([18])
رشتہ داروں سے حسن سلوک کے سماجی فوائد
*خاندان مضبوط ہوتا ہے *آپس کے تعلّقات بہتر ہونے سے خاندان میں اتحاد، محبت اور تعاون بڑھتا ہے *سماجی ہم آہنگی قائم رہتی ہے *اگر کوئی مصیبت، بیماری یا مالی تنگی آجائے تو رشتہ دار ہی سب سے پہلے مدد کو پہنچتے ہیں *جب بچّے اپنے بڑوں کو رشتہ داروں کے ساتھ اچّھے تعلّقات رکھتے دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ایثار، ہمدردی اور صلۂ رحمی کی عادت پیدا ہوتی ہے۔
اللہ کریم ہمیں مسلمانوں بِالخصوص رشتے داروں سے حسنِ سُلوک کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی

Comments