ایمان و استقامت

شرح حدیث رسول

ایمان و استقامت

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی2025

عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ؛ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قُلْ لِي فِي الاِسْلَامِ قَوْلًا، لَا اَسْاَلُ عَنْهُ اَحَدًا بَعْدَكَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ ‌فَاسْتَقِم

حضرت سفیان بن عبداللہ ثَقَفی  رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے: میں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیے کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا’’کہو: میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر ثابت قدم رہو۔“([1])

سوال کا مقصد

قاضی عِیاض مالکی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں کہ نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہ فرمان جَوامِعُ الْکَلِم میں سے ہے۔([2]) صحابی  رضی اللہُ عنہ  کے سوال کا مقصد تھاکہ مجھے اسلام کے بارے میں ایسی نصیحت فرمائیے جس سے اسلام کامل ہو، اس کےحقوق کی حفاظت ہو اور باقی باتوں کی رہنمائی بھی اسی سے ہو جائے۔([3]) نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس سوال کے جواب میں انتہائی جامع اور مختصر الفاظ میں رہنمائی عطا فرمائی کہ اللہ پر ایمان لاؤ پھر اس پر استقامت اختیار کرو۔

اللہ پر ایمان کا مطلب

ا پر ایمان لانے سے مراد سارے عقائدِ اسلامیہ ماننا ہیں۔ لہٰذا اس میں توحید و رسالت، حشر و نشر، ملائکہ، جنت و دوزخ سب پر ایمان لاناداخل ہے۔([4])

(تفصیلی عقائد کی معلومات کے لیے بہار شریعت پہلی جلد کے پہلے حصے کا مطالعہ کرلیجیے۔)

استقامت کیا ہے؟

امام فخرُالدّین رازی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:استقامت اختیار کرنا بہت ہی مشکل اور سخت کام ہے، (کیونکہ یہ انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوتی ہے۔)([5]) مختلف بزرگانِ دین نے استقامت کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ حضرت صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  سے دریافت کیا گیا استقامت کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ حضرت عُمر  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا: استقامت یہ ہے کہ امرونہی پر قائم رہے۔ حضرت عثمانِ غنی  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا: استقامت یہ ہے کہ عمل میں اخلاص کرے۔ حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا: استقامت یہ ہے کہ فرائض ادا کرے۔([6]) حضرت علّامہ علی قاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:استقامت کا مطلب ہے کہ انسان ہر اس بات کو اختیار کرے جس کا اللہ نے حکم دیا اور ہر اس چیز سے بچ جائے جس سے منع فرمایا۔اس میں دل کے افعال بھی آ جاتے ہیں اور جسم کے اعمال بھی۔([7]) شَرحُ الطّیبی میں ہے: ”اِسْتَقِم ایسا لفظ ہے جو تمام اَحکامات پر عمل کرنے اور تمام ممنوعہ کاموں سے رُک جانے کو جامع ہے کیونکہ بندہ حکم عدولی کی وجہ سے صراطِ مستقیم سے دُور ہوجاتا ہے جب تک دوبارہ تعمیلِ حکم نہ کرے۔ اِسی طرح ممنوعہ کام کے اِرتکاب سے بھی صراطِ مستقیم سے دُور ہوجاتا ہے جب تک توبہ نہ کرے۔“([8])

ان تشریحات سے معلوم ہوا کہ اسقامت سے مراد سارے اعمالِ اسلامیہ پرسختی وپابندی سے عمل کرنا ہے۔

استقامت کا فائدہ

استاذ ابوالقاسم قشیری  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:استقامت وہ صفت ہے جس سے انسان کے اعمال کامل اور اکمل بنتے ہیں، استقامت کی بدولت بھلائیاں حاصل ہوتی ہیں اور جس میں استقامت نہ ہو، اس کی کوششیں ضائع اور محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔([9])

استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے

اہلِ تصوف نے کہا:”استقامت ایک ہزار کرامت سے بہتر ہے۔“([10])

یعنی اگر اللہ کا بندہ کرامت دکھانے کے بجائے سیدھی راہ پر ڈٹا رہےتو یہی سب سے بڑی بزرگی ہے۔

عمل پر ملنے والا انعام

یہ حدیثِ پاک ایمان وتقویٰ کی جامع ہے اور اس پر عمل کرنے والے کو جنت وغیرہ کی بشارت قراٰنِ کریم میں دی گئی ہے چنانچہ سورۃ حٰمٓ اَلسَّجْدہ میں ارشاد ہوتا ہے:

(اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۳۰))

ترجَمۂ کنزُ الایمان: بےشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے، اُن پر فرشتے اُترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔([11])

تفسیرِ خزائنُ العرفان: مومنین کو بشارتیں: موت کے وقت یا جب وہ قبروں سے اٹھیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن کو تین بار بشارت دی جاتی ہے ایک وقتِ موت، دوسرے قبر میں، تیسرے قبروں سے اٹھنے کے وقت۔نہ ڈرو: موت سے اور آخرت میں پیش آنے والے حالات سے۔ نہ غم کرو: اہل و اولاد کے چھوٹنے کا یا گناہوں کا۔([12])

جلتے ہوئے کوئلوں پر لِٹایا گیا

حضرت سیّدنا خَبَّاب  رضی اللہُ عنہ    اُس زمانے میں اسلام لائے جب اللہ کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مکّۂ مکرمہ میں حضرت اَرقَم بن ابی اَرقَم  رضی اللہُ عنہ  کے گھر میں مقیم تھے اور صرف چند ہی آدمی مسلمان ہوئے تھے۔  قریش نے ان کو بےحد ستاتے یہاں تک کہ کوئلوں پر لٹادیتے تھے۔  امیرالمومنین حضرت عمر   رضی اللہُ عنہ  کو ایک مرتبہ  آپ  کی پیٹھ نظر آگئی آپ نے دیکھا کہ پوری پشت مبارک میں سفید سفید زخموں کے نشان ہیں۔ دریافت فرمایا کہ اے خباب! یہ تمہاری پیٹھ میں زخموں کے نشان کیسے ہیں؟ تو حضرت خباب  رضی اللہُ عنہ  نے بتایا کہ کفار مکہ نے مجھے  آگ کے جلتے ہوئے کوئلوں پر پیٹھ کے بل لٹا دیا میری پیٹھ سے اتنی چربی پگھلی کہ کوئلے بجھ گئے اور میں گھنٹوں بے ہوش رہا مگر رب کعبہ کی قسم ! کہ جب مجھے ہوش آیا تو سب سے پہلے زبان سے کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ نکلا۔

امیر المومنین  رضی اللہُ عنہ  حضرت خباب  رضی اللہُ عنہ  کی مصیبت سُن کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: اللہ اللہ! یہ پیٹھ کتنی مبارک و مقدس ہے جو محبتِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بدولت آگ میں جلائی گئی ہے۔([13])

آج کا دور فتنوں، گمراہیوں، نفس و شیطان کے غلبے اور ایمان کو ڈگمگا دینے والے اسباب سے بھرا ہوا ہے۔ ایسے ماحول میں صرف وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو ”اٰمَنْتُ بِاللہ“ کہنے کے بعد ”اِسْتقِمْ کا حق ادا کرے۔

اللہ پاک ہمارا ایمان سلامت رکھے اور احکامِ شریعت پر استقامت نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])مسلم،ص46،حدیث:159

([2])شرح النووی علی مسلم،2/9

([3])مرقاۃ المفاتیح،1/161،تحت الحدیث:15

([4])مراٰۃ المناجیح،1/35

([5])مرقاۃ،1/162،تحت الحدیث:15

([6])دیکھئے خزائن العرفان،پ24،حٰمٓ السجدۃ:30،ص883

([7])مرقاۃ،1/162، تحت الحدیث:15

([8])شرح الطیبی، 1/134،تحت الحدیث:15

([9])شرح النووی علی مسلم،2/9

([10])مرقاۃ،1/162،تحت الحدیث:15

([11])پ24،حٰمٓ السجدۃ:30

([12])خزائن العرفان،پ24،حم السجدۃ:30،تفسیر نسفی،فصلت، تحت الآیۃ: 30، ص1075

([13])طبقات ابن سعد،3/122


Share