اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات ہے (قسط :01)

اسلام ہی کیوں؟

اسلام ہی مکمل ضابطۂ حیات ہے(قسط:01)

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی2025ء

کامیاب زندگی گُزارنے میں انسان کسی کامیاب آدمی کی راہنمائی کا محتاج ہے۔ یہ بات مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ کامیاب انسان کی پیروی کی جاتی ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے کامیاب اس کے انبیاء ہیں،اُن انبیاء میں بھی جس کا پیغام سب سے افضل و اعلیٰ، عمل میں آسان، پیروی میں سَہل اور وُسعت و جامعیّت کے اعتِبار سے ہر ہر شعبے میں کامل راہنمائی کرنے والا ہے، وہ ہے اللہ کے آخِری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا پیارا پیغام یعنی ’’ہمارا پیارا اسلام ‘‘۔زندگی کے مختلف شعبوں میں جس طرح اسلام راہنمائی کرتا ہے دنیا جہان کے دیگر مذاہب ویسی مثال دینے سے قاصِر ہیں۔

ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے صرف دو چار فرامین کی ہی جامعیّت کو دیکھ لیا جائے تو ’’کوزے میں دریا ‘‘، ’’قطرے میں قُلزم‘‘، ’’گُل میں گلشن و گلستاں‘‘،’’ذَرّے میں جہاں‘‘ جیسے سبھی محاورے ان فرامین پر صادق ہوتے صاف دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ حضرت امام شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  صرف ایک روایت ’’اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: اس ایک حدیث کا فقہ کے ستّر ابواب میں دخل ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: اسلام کی بنیادیں ان تین حدیثوں پر ہیں:(1)اَلْاَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ (یعنی اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے) (2)حَلَال بَين، وَحرَام بَين (یعنی حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے)(3)مَن اَحدَثَ فِي اَمْرنَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدّ (یعنی جو کوئی ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو دین میں سے نہ ہو وہ مردود ہے۔) امام ابوداؤد  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: علمِ فقہ اِن پانچ احادیث کے گرد گھومتا ہے:(1)اَلْاَعْمَال بِالنِّيَّاتِ (2)حَلَال بَيِّن (3)مَا نَهَيْتُكُمْ عَنْكُم فَاجْتَنبُوهُ، وَمَا أَمرتُكُم بِهِ فَأتوا مِنْهُ مَااسْتَطَعْتُم (4)لَا ضَرَر وَلَا ضِرَار (5)الدّين النَّصِيحَة ([1]) ان بڑے بڑے محدِّثین کا کلام پڑھ کر دل یہ بات کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی ’’صرف اسلام ہی مکمّل ضابطۂ حَیات ہے‘‘۔

مکمّل ضابطۂ حیات کا مطلب:

اللہ کریم کا پسندیدہ دین صرف اور صرف اسلام ہے، چونکہ یہ خالقِ کائنات کو پسند ہے اس لیے مالک کریم نے اس میں وہ جامعیّت،اَکملیت اور کمال و وُسعت رکھی ہے کہ جو صرف اسلام ہی کا خاصہ ہے۔ اس کے اَحکام کا ہر زمانے،ہر خطّے،ہر عمر کے انسانوں کے لیے قابلِ عمل ہونا اسلام کی جامعیّت و معنویت اور اس کے مکمل ضابطۂ حیات (Code of life) ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جی ہاں یہ بات دن کے تابناک سورج کی طرح روشن و ظاہر ہے کہ صرف اسلام ہی مکمّل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ اسلام کے مکمّل ضابطۂ حیات ہونے کو آسان الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ضابطہ کہتے ہیں: قاعدہ، دستور، آئین، قانون، انتِظام کو اور حَیات کا معنیٰ ہے: زندگی۔ یعنی ضابطۂ حیات کا مطلب ہے: ’’زندگی گزارنے کے اُصول قاعدے اور قوانین کا مجموعہ ‘‘ اسے دَستورُ العمل بھی کہا جا سکتا ہے۔ جب، جہاں زندگی پائی جائے گی وہیں اسلام کے احکام بھی موجود ہوں گے۔ یاد رہے!اسلام صرف مسجد میں جا کر نَماز ادا کرنے،مکّہ شریف جا کر حج کرنے اور رمضان شریف کے آنے پر روزے رکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ زندگی گزارنے کا پورا لائحۂ عمل ہے کہ جو زندگی کے ہر ہر گوشے میں راہبر و راہنما کی حیثیت سے ہمارے ساتھ ہے۔ انسان کی ظاہری زندگی اس کے دنیا میں آنے سے شروع ہوتی اور قبر میں جانے پر ختم ہوجاتی ہے،اس دوران کوئی لمحہ، کوئی ساعَت اور کوئی گھڑی ایسی نہیں ہوتی کہ اِسے کوئی معاملہ دَرپیش ہو اور اسلام کے پاس اُ س کا حل اور راہنمائی نہ ہو۔اسلام کی جامعیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں جہاں تھیوری اور عمل کے لیے احکام موجود ہیں وہیں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک زندگی کی صورت میں اس کا پریکٹیکل اور اسوۂ حسنہ بھی موجود ہے جس سے اس تھیوری کی اہمیّت و اِفادیّت مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس کام کو اس طرح سرانجام بھی دیا ہے یوں بندہ تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل سے بھی اپنی زندگی کو آراستہ و پیراستہ کر کے اللہ و رسول کی بارگاہ میں مقرّب ہوتا چلا جاتا ہے۔

انسانی ضَروریات اور اسلام :

اسلام اپنے ماننے والوں کو ان کی تمام تَر ضَروریات کے متعلّق راہنمائی کرتا ہے۔وہ طبعی ضَرورتیں ہوں یا پھر شَرْعی ضَرورتیں۔ شَرْعی ضَروریات پر بہت جامعیّت اور شَرح و بَسط سے اسلامی احکام موجود ہیں جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اگر طبعی ضروریات پر نظر دوڑائیں تو مناسب و متوازن غذا کا استعمال، اپنی صحّت کا خیال، بیمار ہوجانے پر علاج معالجہ، ضرورت کے مطابِق مناسب نیند، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہمارے جسم کی ضرورتیں ہیں۔ اسلام ان تمام ضرورتوں سے متعلّق راہنمائی کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے۔غذا ہی کو دیکھ لیجیے تو

(وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱))

ترجَمۂ  کنز الایمان:اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔ ([2])

فرما کر سارا علمِ طب اور کھانے پینے کے لیے قاعدۂ کلیہ بیان فرما دیا۔ سر کے بالوں تک کے بارے میں یوں راہنمائی فرمائی کہ ان کا اِکرام کرو۔([3]) مونچھوں، بغل وغیرہ کے زائد بالوں کو کاٹنے کی مدت چالیس دن مقرر کی تاکہ سیرت کے ساتھ ساتھ صورت بھی حسین و متوازن نظر آئے اور بندہ گندگی، جراثیم اور مُضر صحّت اَثرات سے محفوظ رہ سکے۔طبعی ضروریات میں سے بیتُ الخلا جانا بھی ہے،اسلام کی جامعیّت اور رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تربیَت پر قربان! رسولُ ا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسے بیٹے کے لیے باپ۔ (جیسے وہ اولاد کو کچھ سکھانے میں حیا نہیں رکھتا میں بھی) تمہیں سکھاتا ہوں جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلہ کو نہ منہ کرواور نہ ہی پیٹھ۔ آپ نے تین پتّھروں کا حکم دیا، لِید اور ہڈّی سے منع فرمایا،اسی طرح اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کوئی آدمی دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔([4])حضرت سُراقہ بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:ہمیں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حکم دیا کہ ہم رَفعِ حاجت کے وقت بائیں (اُلٹے) پاؤں پر وَزن دیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں۔([5])یہ اسلام ہی ہے کہ جس نے روحانی صحّت و قوّت کے ساتھ ساتھ جسمانی طاقت و تندرستی کا خیال رکھنے کی بھی تعلیم دی گئی ہے جیسا کہ پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مسلسل نفلی روزے رکھنے اور رات کو نفلی قیام کرنے والے صَحابی سے فرمایا:تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے اور تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ ([6])یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے سے تمہارا جسم بہت کمزور ہوجائے گا اور بِالکل نہ سونے سے نِگاہ کمزور پڑجانے کا خطرہ ہے۔([7])معلوم ہوا کہ اسلام جسم کی حفاظت اور صحّت كا خیال رکھنے کی بھی تاکید کرتا ہے اور اس معاملے میں غفلت نہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

اسلام ایسے کسی کام کی اجازت نہیں دیتا کہ جس کے نتیجے میں کرنے والا دنیا یا آخِرت کی ہلاکت میں پڑجائے جیسے بھوک ہڑتال کرنا یا باطل طریقے سے مال کھانا وغیرہ چنانچہ حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے غزوۂ ذاتُ السلاسل کے وقت ایک سَرد رات میں احتلام ہو گیا، مجھے غسل کرنے کی صورت میں ( سردی سے) ہلاک ہونے کا خوف ہوا تو میں نے تیمّم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ لی۔ انہوں نے نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اے عَمرو! تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس حال میں نَماز پڑھ لی کہ تم جُنبی تھے۔ تو حضرت عَمرو رضی اللہ عنہ نے غسل نہ کرنے کا عذر بیان کیا اور عرض کی :میں نے اللہ پاک کا یہ فرمان سنا ہے:

(وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹))

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔([8])

یہ سُن کر حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسکرا دئیے اور کچھ نہ فرمایا۔([9])

معاشی ضروریات اور اسلام :

اسلام اپنے ماننے والوں کو جنگلوں میں نکل جانے، رہبانیت اختیار کرنے اور غاروں میں زندگی گُزارنے کا نہ تو ثواب بتاتا اور نہ ہی اس کی ترغیب دیتا ہے۔اسی طرح اسلام میں نہ تو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی کوئی فضیلت ہے اور نہ ہی لوگوں پر بوجھ بن جانے کی کوئی پذیرائی ہے بلکہ اپنے ہاتھ سے کمانے والے کو حبیبُ اللہ یعنی اللہ کا دوست کہا گیا ہے۔ کمانے والے افرادکو نہ صرف قَدَر کی نِگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس عمل پر ان کی کیسی ہمّت بندھائی اور حوصلہ بلند کیا جاتا ہے جیسا کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایک دن صحا بَۂ کِرام علیہمُ الرّضوان کے ساتھ تشریف فرما تھے۔اتنے میں ایک نوجوان قریب سے گُزرا۔صحابَۂ کرام نے اس کی ہمّت اور پھرتی و مستعدی دیکھ کر کہا: کاش! یہ نوجوان اللہ کی راہ میں ہوتا۔ اِس پررسول ِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےارشاد فرمایا: اگر یہ آدمی اپنے چھوٹے بچّوں کے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو یہ اللہ پاک کی راہ میں ہی ہے اور اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ خود کو (لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا حرام کھانےسے)بچانے کے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے البتہ اگر یہ دکھاوے اور تفاخُر کے لیے نکلا ہے تو یہ شیطان کی راہ میں ہے۔([10])اپنی معاشی ضروریات پورا کرنے والوں کو اَجر و ثواب کی نوید سنائی گئی ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: جس نے خود کو سوال سے بچانے،اپنے اہلِ خانہ کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی کرنے کے لیے حلال طریقے سےدُنیا طلب کی وہ اللہ کریم سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔([11])



([1])كشف المشكل من حديث الصحيحين،1/85

([2]8،الاعراف: 31

([3])موطأ امام مالک،2/435،حدیث: 1818

([4])ابن ماجہ، 1/198،حدیث:313

([5])مجمع الزوائد، 1/488، حدیث:1020

([6])بخاری،1/649، حدیث:1975

([7])مراٰۃ المناجیح، 3/188

([8])پ 5،النساء:29

([9])ابو داؤد،1/153، حدیث: 334

([10])معجم الاوسط،5/136، حدیث: 6835

([11])مصنف ابن ابی شیبہ،11/379،حدیث:22625


Share