حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے 6 عظیم اوصاف
*مولانا ابوالنور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء
امامِ عالی مَقام حضرتِ امام حسین رضی اللہُ عنہ کے اخلاق و عادات انتہائی اعلیٰ اور پاکیزہ تھے کیونکہ آپ رضی اللہُ عنہ نے اس ہستی کے زیرِ سایہ پرورش پائی جن کے بارے میں اللہ ربُّ العزّت نے فرمایا:
(وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴))
ترجمۂ کنزالعرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔ ([1])
آپ رضی اللہُ عنہ ا پنے نانا جان رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرح غُرَبا اور فُقَرا سے اُنسیت و محبت رکھتے، ان کی دلجوئی فرماتے اور فخر و تکبر بالکل نہ کرتے تھے۔ عبادات، حقوقُ اللہ و حقوقُ العباد کی رعایت اور دیگر کئی عظیم اوصاف آپ کی ذات میں نمایاں تھے۔ آئیے! ذیل میں 6 عظیم اوصاف ملاحظہ کیجیے:
(1)عبادت و ریاضت:
حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ نوافل کی کثرت فرماتے، روزے رکھنا، راہ ِخدا میں صدقہ و خیرات کرنا نیز پیدل حج فرمانا اور دیگر امور ِخیر میں حصّہ لینا آپ رضی اللہُ عنہ کے وصفِ عبادت میں سے تھا۔ چنانچہ ”اُسدُالغابہ“ میں ہے: حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ صاحبِ فضل و کمال تھے، کثرت سے روزے رکھتے، بہت زیادہ عبادت و ریاضت کرتے نیزکثرت سے صدقہ و خیرات بھی کیا کرتے تھے اور ہر طرح کے نیک اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔([2])
ہزار رَکعت نوافِل:
حضرت امام زینُ العابدین رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ امامِ عالی مقام امام حسین رضی اللہُ عنہ دن اور رات میں ہزار رکعت نوافل ادا فرمايا كرتے تھے۔([3])
پچیس حج پیدل کیے:
حضرت مُصْعب زبیری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ نے پچیس حج پیدل کیے۔([4])
عرفہ کے دن روزہ:
ایک مصری شخص حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہما کے پاس عرفہ کے دن آیا اور یومِ عرفہ کے روزہ کے متعلّق پوچھا تو اس نے حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کو روزے کی حالت میں پایا جبکہ حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ کا روزہ نہ تھا۔ امام حسن و حسین رضی اللہُ عنہما نے فرمایا:دونوں صورتیں درست ہیں۔(یعنی یہ نفلی روزہ ہے۔ رکھنا بھی جائز ہے اور اگر کسی نے نہ رکھا تو گنہگار نہیں)۔ ([5])
تلاوت ِقراٰن اور نماز سےمحبت :
سیدالشہداء،حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی قراٰن کریم اور نمازوں سے محبت کااندازہ اس بات سے لگائیےکہ 9مُحَرَّمُ الْحَرام کو جب یزیدیوں کے ساتھ باہمی صلح کی اُمیدختم ہوگئی تو امامِ عالی مقام،امامِ حسین رضی اللہُ عنہ نےاپنے بھائی کوفرمایا کہ کسی طرح یہ لڑائی کل تک مؤخرہوجائے اور آج کی رات ہمیں عبادتِ الٰہی کے لیے مل جائے تو بہتر ہے، آپ رضی اللہُ عنہ نے اپنے بھائی کو ارشاد فرمایا: اگر موقع مل جائےتوآج کی رات نماز، دعااوراِسْتِغْفَار میں گزاریں کیونکہ مجھےربِّ کریم کی رضا کے لیے نماز اور تلاوتِ قراٰن سےمحبت ہے اور کثرت کے ساتھ دعا اور اِسْتِغْفَار میرا معمول ہے۔([6])
(2)عاجزی و انکساری:
حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ رضی اللہُ عنہ عالی نسب ہونے کے باوُجُود عاجزی و انکساری کے پیکر تھے اور اس قدر عاجزی پسند تھے کہ غریبوں اور مساکین کے ساتھ دستر خوان پر کھانا تناوُل فرمانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔چنانچہ
حضرت عَمرو رضی اللہُ عنہ روایت فرماتے ہیں: حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی زوجہ نے ان کے پاس پیغام بھیجا کہ ”ہم نے آپ کے لیے لذیذ کھانا اور خوشبو تیّار کی ہے۔ آپ اپنے ہم پلّہ لوگ ساتھ لے کر ہمارے پاس تشریف لے آئیں۔“ حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ مسجد میں گئے اور وہاں جو مساکین و سائلین تھے انہیں لے کر گھر تشریف لے آئے۔ ہمسایہ خواتین آپ رضی اللہُ عنہ کی زوجہ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: خدا کی قسم! تمہارے گھر تو مساکین جمع ہوگئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ ا پنی زوجہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: میں تمہیں اپنے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو میرا تم پر ہے کہ تم کھانا اور خوشبو بچا کر نہیں رکھو گی، پھر انہوں نے ایسے ہی کیا۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے مساکین کو کھانا کھلایا، انہیں کپڑے عطا فرمائے اورخوشبو لگائی۔([7])
(3)بڑے بھائى کا ادب و احترام:
اسلامى اخلاق و آداب کے اعتبار سے بڑے بھائى کا اَدب و احتِرام چھوٹے بھائىوں پر اسى طرح لازم ہے جس طرح والد صاحب کا اَدب و احتِرام ضَروری ہے۔ حضرت امام حسىن رضی اللہُ عنہ ا پنے بڑے بھائى حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ کا بہت اَدب کرتے تھے چنانچہ اىک آدمى نے حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ سے سوال کىا (یعنی کچھ مانگا) تو انہوں نے اسے 100دىنار عطا فرمائے، پھر اس شخص نے حضرت امام حسىن رضی اللہُ عنہ سے مدد مانگی تو آپ رضی اللہُ عنہ نے پوچھا:بھائی جان نے کیا عطا فرمایا؟ اس نے بتاىا: سو دىنار۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے بڑے بھائی سے برابری کو ناپسند کرتے ہوئے اسے 99 دىنار عطا فرما دیے۔([8])
جنّت میں بھائی سے پہلے نہ جانے کی خواہش:
حضرت ابوہرىرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہىں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کسى مسلمان کے لىے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تىن راتوں سے زىادہ قَطْعِ تعلّق کرے اور صلح میں پہل کرنے والا جنّت مىں پہلے داخل ہو گا۔
حضرت ابوہرىرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: مجھے پتا چلا کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسىن رضی اللہُ عنہما کے درمىان کسی معاملے کی وجہ سے بات چىت بند ہے تو مىں نے حضرت امام حسىن رضی اللہُ عنہ سے کہا: لوگ آپ دونوں کو اپنا مقتدا سمجھتے ہىں۔آپ آپس مىں قطعِ تعلّق نہ کیجئے، اپنے بھائى کے پاس جا کر ان سے بات چىت کىجئے، کىونکہ آپ اُن سے عمر مىں چھوٹے ہىں۔ اِس پر حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ نے فرماىا: اگر مىں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمان نہ سنا ہوتا کہ ”صلح مىں پہل کرنے والا جنّت مىں بھى پہلے جائے گا“ تو مىں ضَرور اُن کى خدمت مىں حاضر ہوتا مگر مىں ىہ پسند نہىں کرتا کہ اُن سے پہلے جنّت مىں جاؤں۔حضرت ابوہرىرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہىں کہ (حضرت امام حسىن رضی اللہُ عنہ کے ىہ مخلصانہ جذبات سُن کر) مىں حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ کے پاس گىا اور انہىں سارا واقعہ بتایا تو حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ نے فرماىا:”صَدَقَ اَخِىْ یعنی مىرے بھائى نے سچ فرمایا“ پھر آپ رضی اللہُ عنہ کھڑے ہوئے اور اپنے بھائى حضرت امام حسىن رضی اللہُ عنہ کے پاس آکر ان سے گفتگو فرمائی اور ىوں دونوں بھائىوں کے درمىان صلح ہوگئی۔([9])
(4)سخاوت:
پیارےاسلامی بھائیو! حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ بھی اہلِ بیت کے سخی گھرانے کے چشم و چراغ تھے، اس لیے سخاوت، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا آپ رضی اللہُ عنہ کی خاندانی وراثت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہُ عنہ بھی راہِ خدا میں خرچ کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کا ایک چرواہے کے پاس سے گزر ہوا جو بکریاں چَرا رہا تھا۔ اُس نے ایک بکری آپ رضی اللہُ عنہ کو تحفۃً پیش کی۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے اس سے دریافت فرمایا:تم آزاد ہو کہ غلام؟ اس نے عرض کی: حضور! غلام ہوں۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے بکری اسے واپس لوٹا دی اور اس غلام کو بھیڑ بکریوں سمیت خرید کر آزاد کر دیا اور بھیڑ بکریاں اسے تحفے میں دے دیں۔([10])حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ ا کثر فرمایا کرتے تھے:اِنَّ خَیْرَ الْمَالِ مَا وَقَی الْعَرْض یعنی بہترین مال وہ ہے جو کسی کی عزّت و آبرو محفوظ کرنے کا ذریعہ بن جاۓ۔([11])
(5)حقوقُ العباد کی فکر:
امام شمسُ الدّین محمد ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں: ایک انصاری شخص حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے ساتھ تھا اس نے آپ رضی اللہُ عنہ سے عرض کی: میں مقروض ہوں۔ آپ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: میرے ساتھ جنگ میں ایسا کوئی بھی شخص شریک نہ ہو جس پر کسی کا قرض ہو۔([12])
(6)علمی ذوق:
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ میدانِ علم میں یگانَۂ روزگار(بے مثل)تھے۔ آپ نے شہرِعلم جنابِ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور دروازۂ شہرِ علم امیرُ المؤمنین حضرت مولیٰ علی مشکل کشا کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے علمِ دین کا بیش بہا خزانہ پایا۔ آپ رضی اللہُ عنہ باقاعدہ مسجدِ نبوی میں حلقے لگایا کرتے تھے چنانچہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ عنہ نے حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک قریشی سے فرمایا: مسجدِ نبوی میں چلے جاؤ، وہاں ایک حلقے میں لوگ ہمہ تن گوش ہو کر یوں باادب بیٹھے ہوں گے گویا اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں جان لینا یہی حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی مجلس ہے۔ نیز ان کا تہبند آدھی پنڈلی تک ہوگا اور اس حلقے میں مذاق مسخری نام کی کوئی شے نہ ہوگی۔([13])
اللہ کریم ہمیں سیرتِ امام حُسین رضی اللہُ عنہ سے وافر حصّہ عطا فرما کر دنیا و آخرت میں امام حُسین کی حَسین غلامی نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی

Comments