شہادت امام حسین اور ہمارے لئے سیکھنے کی چند باتیں

شہادتِ امام حسین اور ہمارے لیے سیکھنے کی چند باتیں

*مولانا عمر فیاض عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء

تاریخِ حق و باطل میں خیرو شر کے لاکھوں مَعر کے بَرپا ہوئے، ہزاروں شہادتیں ہوئیں،بالخصوص اِسلام کا اَوَّلین دور لا تعداد عظیم شہادتوں سے لبریز ہے۔ تاہم یہ حقیقت اَظہر من الشمس ہے کہ آج تک کسی اور شہادت کو اس قدر شہرت، قبولیت اور ہمہ گیر تذکرہ نصیب نہیں ہو سکا جتنا حضرتِ امامِ حسین  رضی اللہُ عنہ  کی شہادت کو ہوا ہے۔ قریب قریب چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی اِس کی شہرت میں آج تک کمی نہیں ہوئی، یہ پھیلتا ہی جا رہا ہے یہاں تک کہ حسینیت ہر طبقےمیں حق اور یزیدیت ہر طبقے میں فتنہ و فساد کے اِسْتعارے کے طور پر معروف ہوگیا ہے۔

شہادتِ امامِ حسین  رضی اللہُ عنہ  صرف ایک جنگی واقعہ نہیں بلکہ ہمارےسیکھنے کے لیے بہت سارے اسباق کا مجموعہ ہے۔ ہم آج کے اِس آرٹیکل میں اُنہی اسباق میں سے چند کا جائزہ لیتے ہیں:

اللہ کی رضا پر راضی رہنا

آپ نے اکثر پڑھا اور سُنا ہوگا کہ امام حسین  رضی اللہُ عنہ  کے پید ا ہوتے ہی آپ کی شہادت کی خبر بھی مشہور ہوچکی تھی۔ حضورِ انور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم  نے فرمایا: مجھے جبریل نے خبر دی کہ میرے بعد میر ا بیٹا حسین ”زمینِ طَفّ“ (کربلا) میں قتل کیا جائے گا اور جبریل میرے پاس مٹی لائےاور عرض کیا کہ یہ حسین کے مَقْتَل (شہید ہونے کی جگہ) کی مٹی ہے۔

(معجم کبیر، 3/107، حدیث: 2814)

شہادتِ امام حسین  رضی اللہُ عنہ  کا چرچا تو اُن کے بچپن سے ہی تھا لیکن اِس کے باوجود کبھی بھی آپ نے یہ نہیں پڑھا سُنا ہوگا کہ اُنہوں نے شہادت اور واقعۂ کربلا کے ٹَل جانے کی دعا کی ہو، امام پاک جانتے تھے کہ مجھے کربلا میں شہید کیا جائے گا مگر آپ اللہ پاک کی رضا پر ہمیشہ راضی رہے۔ اگر دیکھا جائے تو اللہ کی رضا پر راضی رہنا تو امام حسین  رضی اللہُ عنہ  کو وراثت میں ملا تھا کہ آپ کے بڑوں نے ہمیشہ رضائے مولیٰ کے آگے سرِ تسلیم خَم کیا ہے۔ خاتونِ جنت  رضی اللہُ عنہ ا نے اپنے اس نونہال کو زمینِ کربلا میں خون بہانے کے لیے اپنا خونِ جگر پلایا، حضرتِ مولیٰ علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  نے اپنے لختِ جگر کو خاکِ کربلا میں لَوٹنے اور قربانیاں دینے کے لیے سینے سے لگا کر پالا، جانِ دو عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میدانِ کربلا میں مردانہ وارجان نذر کرنے کے لیے امام پاک کو اپنی آغوشِ رحمت میں تربیت دی۔ کسی نے بھی یہ دعا نہیں کی کہ یا اللہ ! یہ کربلا والا معاملہ نہ ہو، اِس کو ٹال دے، بلکہ یہ سب ہمیشہ اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ ہمیں اس سے یہ سبق ملتا ہے ہم بھی ہمیشہ اللہ پاک کی رضا پر راضی رہیں۔

اِستقامت و حق کا مظاہرہ

جب یزید تختِ سلطنت پر بیٹھاتو اس نے حضرتِ امام حسین  رضی اللہُ عنہ  کی طرف بھی قاصد بھجوایا اور کہلوایا کہ میرے ہاتھ پر بیعت کرلیں لیکن امامِ پاک اُس کے فسق اور فجور کو اچھی طرح جانتے تھے اِس لیے آپ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کی۔ نواسۂ رسول جانتے تھے کہ اگر میں نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو یہ میرا بہت احترام کرے گا اور مجھے ہر طرح کی آسائش مُیَسَّر ہوگی جبکہ بیعت نہ کرنےکی صورت میں یہ مجھے تکلیفیں پہنچائے گا۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی امامِ پاک نے حق کا ساتھ دیا، آپ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اگر میں نے بیعت کرلی تو اسلام کا نظام دَرہَم بَرہَم ہوجائے گا اور دِین میں فساد پیدا ہوجائے گا، یزید کی ہر بَدکاری کے جواز کے لیے میری بیعت سند ہو جائے گی اور شریعتِ اسلامیہ و ملّتِ حنفیہ کا نقشہ مِٹ جائے گا لہٰذا آپ نے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یزید کو نااہل قرار دیا اور اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بجائے مدینے سے ہجرت کرکے مکے میں رہائش اختیار کرلی۔ اِس سے ہمیں یہ سیکھنے کو مِلا کہ ہمیں بھی اپنی ذات، عیش و آرام اور سہولیات پر ہمیشہ دین کوہی ترجیح دینی چاہیے۔

کٹھن حالات میں صبر و تحمل

آپ جانتے ہیں کہ امامِ پاک اور آپ کے تمام ساتھیوں پر یزیدیوں نے پانی بند کردیا تھا، چھوٹے چھوٹے بچّے پیاس سے بِلک رہے تھے۔ تین دن کی پیاس ہے، جنگ مُسلَّط کردی گئی ہے، بچے شہید ہورہے ہیں،اس کے باوجود گلشنِ رسالت کے پھول صبر و تَحمُّل کاجو مظاہرہ کررہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملا کہ حالات چاہے کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، کتنی ہی آزمائشیں کیوں نہ ہوں، ہمیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

حالتِ جنگ میں بھی نماز نہ چھوڑنا

امامِ عالی مقام کو نمازوں سے بڑی محبت تھی، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے میدان میں بھی نمازیں نہیں چھوڑی جارہیں، پانی نہیں ہے تو تیمم کرکے نمازیں ادا کررہے ہیں بلکہ امامِ عالی مقام نے اپنے آخری وقت بھی سجدہ کیا تھا،اندازہ لگائیں کہ دُشمن چاروں طرف سے تلواریں چمکا رہے تھے مگر امامِ حسین اللہ پاک کے حضور سجدے میں جھکے ہوئے تھے اور نمازیں پڑھ رہے تھے۔ اس سے ہمیں نمازوں کی پابندی کا درس ملتا ہے۔

کَشیدہ حالات میں بھی اہلِ بیت کی خواتین کا پردہ کرنا

 عام حالات میں بھی اور خوشی و غمی کے موقع پر بھی خواتین کو ہمیشہ شرعی اصولوں کے مطابق پردہ کرنا چاہیے۔ آپ خاندانِ نبوت کی خواتین کو دیکھ لیں کہ کربلا میں کتنی ہی پریشانیاں ایک ساتھ اُن پر آن پڑیں، شہر سےدور ہونا، کئی دن کے سفر کا معاملہ، جنگ کا مسلط کردیا جانا، ننھے بچوں اور جوانوں کا شہید ہونا،پانی بند ہوجانا، بھوک اور پیاس کی شدت، امام زین العابدین  رضی اللہُ عنہ  کا بیمار ہونا، سب سے بڑھ کر امامِ حسین  رضی اللہُ عنہ  کاشہید ہوجانا، آپ کی شہادت کے بعد پاک بیبیوں کا اسیر ہو جانا اور شُہَدا کے سروں اور اسیرانِ کربلا کو یزید کے پاس دِمشق بھجوایا جانا۔ اتنی آزمائشوں کے باوجود بھی اِن پاک بیبیوں نے پردہ نہیں چھوڑا اور رہتی دنیا تک خواتین کو یہ پیغام دے دیا کہ کسی بھی حالت میں پردہ اور شرعی احکامات پر عمل کرنا نہیں چھوڑنا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ذمہ دارشعبہ دعوتِ اسلامی کے شب وروز، کراچی


Share