نماز کی حکمتیں
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

احکام شریعت کی حکمتیں

نمَاز کی حکمتیں

*مولانا ابرار اختر القادری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء

بلاشبہ نماز دین کا ستون، حضور نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کی ٹھنڈک، مومن کی معراج ، اندھیری قبر کا چراغ، جنت کی کنجی اور دعاؤں کی قبولیت کا سبب  ہے، اس کی اہمیت و فضیلت کی بنا پر عُلمائے کرام نے اس کی بے شُمار حکمتیں بیان فرمائی ہیں، چند حکمتیں ملاحظہ فرمائیے:

اعلیٰ حضرت کے والد ماجد حضرت علّامہ مفتی نقی علی خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اپنی کتاب جواہر البیان فی اسرار الارکان میں نَماز کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں، ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

*نَماز اللہ پاک کی بارگاہِ بے نیاز میں حاضری اور مناجات کا نام ہے۔اگر نمازی یہ جانتا ہو کہ اَذان کے ذریعے کس کے حضور بلایا جاتا ہے تو دنیا و مافیہا (دنیا اور جو کچھ اس میں ہےسب کچھ) چھوڑ کر سر کے بل نَماز پڑھنے کے لئے مسجِد کی طرف دوڑ پڑتا۔

*جو بندہ خالصاً لِوَجْہِ اللہ(اللہ کی رضا کی خاطر) نماز پڑھتا ہے اس کے گُناہ درخت کے پتوں کی طرح جھڑتے ہیں، فرشتے خُدا کے حضور اس کی مَدْح و ثَنا کرتے اور اس کے حق میں دُعا اور اس کی دُعا پر آمین کہتے ہیں، اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں، پروردگار اس کی طرف متوجّہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے ۔

*جب بندہ نماز کے اَرکان و شرائط کا خیال رکھتے ہوئے اور ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کے دل پر ایک نُور چمکتا ہے جس سے نَمازی کے دل پر اس کے دل کی پاکیزگی اور ہمّت کے مطابِق عجائبات ظاہر ہوتے ہیں، بعض پر اشیا کے حقائق، بعض پر ان کی مثالیں، کسی پر صِفاتِ الٰہیہ کے انوار اور کسی پر اَسرارِ افعال ظاہر کرتا ہے۔ جو ترقّی مسلمان کو نماز میں حاصل ہوتی ہے کسی کام میں نہیں اور جو راز اس سے کھلتے ہیں کسی عمل سے ظاہر نہیں ہوتے ۔سَرورِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہشت و دوزخ نماز میں ملاحظہ فرمائے اور حاجیوں کے کپڑے  چُرانے والے اور اس عورت کو جس نے بلّی باندھ کر بھوک اور پیاس سے ہلاک کی، دوزخ میں دیکھا۔ نماز کی حقیقت تک رسائی کم درجے کے ذہنوں کے بس میں نہیں، شیخ ابو سعید ابو الخیر کے مرید نے ان کے حجرے میں ایک نُور دیکھا تو بے اختِیار چلایا: میں نے اپنے پروردگار کو دیکھا۔ شیخ نے فرمایا: اے نادان!تو کہاں اور وہ ذات ِپاک کہاں! یہ نُور تیرے وُضو کا ہے۔ جب نورِ وُضو کا یہ حال ہےتو نماز کی حقیقت ہر کس وناکس کب سمجھے گا، مگر قِیامت کو یہ نور نمازی کی پیشانی پر ظاہر ہو گا کہ سجدے کا نشان چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکے گا، اگر شامتِ اعمال سے دوزخ میں جائے گا آتشِ جہنّم سجود کی جگہوں کو نہ جلا سکے گی، اللہ پاک کو کوئی عمل نماز سے زیادہ پیارا نہیں، ورنہ فرشتوں کو اُس میں مشغول کرتا۔ وہ ارکانِ نماز میں مصروف ہیں، بعض رُکوع، بعض سجود، بعض قُعود میں۔ پیغمبر  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو خوشی وراحت نماز میں حاصل ہوتی ہے کسی عِبادت میں نہ ملتی اکثر فرماتے :اَرِحِنَا یَا بِلَالُ بِالصَّلٰوۃِ ، آرام پہنچا ہمیں اے بلال!  نماز سے ۔([1])

تفسیر نعیمی میں مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ نماز کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

*نماز تمام ملائکہ کی عبادتوں کا مجموعہ ہے کیونکہ ملائکہ مقرّبین میں سے بعض وہ ہیں جو صرف رُکوع ہی کر رہے ہیں۔ بعض صرف سجدہ ،بعض صرف تسبیح وتہلیل۔رب تعالیٰ نے ہماری  نماز میں یہ سب چیزیں جمع فرمائیں جو اس کی پابندی کرے گا وہ درجہ میں تمام ملائکہ کے برابر یا ا ن سے افضل ہو گا۔

*نماز میں ساری مخلوقات کی عبادت جمع ہے وہ اس طرح کہ درخت ہر وقت قِیام میں ہیں اور چوپائے رُکوع میں،سانپ بچھو وغیرہ ہر وقت سجدے میں،مینڈک وغیرہ ہر وقت قعدہ میں انسان چونکہ ان سب سے افضل ہے اس لئے چاہئے کہ اس کی عبادت ان سب کی عبادتوں کو شامل ہو۔([2])

مفتی احمد یار نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ کی اس بات کی بہت ہی خوبصورت وضاحت خطیب پاکستان مولانا محمد صدیق ملتانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اپنی کتاب فلسفہ ارکانِ خمسہ میں کچھ یوں کی ہے: صرف نماز ایک ایسی عبادت ہے جس کا پابند اللہ پاک نےاپنی ہر مخلوق کو بنا رکھا ہے۔ چنانچِہ ارشاد ربانی ہے:

( كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ)

ترجمۂ کنز الایمان: سب نے جان رکھی ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح۔ ([3])

یعنی جمادات، نباتات، حیوانات اور حشرات الارض وغیرہ سب اس میں شامل ہیں، البتہ! ہر ایک کی نماز اس کی خِلقت کے مناسب حال رکھی گئی ہے تاکہ اس کی نماز اس کی قُدرتی وَضع سے اَدا ہوتی رہے مثلاً درختوں کی شکل ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ گویا قِیام کی حالت میں نماز اَدا کر رہے۔ چوپاؤں کی نماز صرف رُکوع ہے، کیونکہ ان کی پیدائشی ہیئت ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ ہر وقت گویا اللہ پاک کے سامنے رُکوع میں جھکے ہوئے ہیں جس سے ایک لمحہ کے لیے بھی اِنحراف نہیں کر سکتے ۔ حشراتُ الارض یعنی رینگنے والے اور پیٹ کے بل چلنے والے کیڑوں مکوڑوں کی نماز بحالتِ سجدہ ہے۔ کیونکہ ان کی پیدائشی ہیئت ہی سجدہ نما بنائی گئی ہے کہ وہ اوندھے اور سرنگوں رہیں اور گویا سجدوں سے اس کی یاد میں مصروف رہیں۔ پہاڑوں کی نماز بحالت تشہّد و قُعود ہے گویا یہ ہر وقت زمین پر دوزانو جمائے بیٹھے التّحیات میں ہیں، اُڑنے والے پرندوں کی نماز انتِقالات ہیں کہ وہ نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے منتقل ہوتے رہتے ہیں جیسے انسان قِیام سے قعود اور قعود سے قیام کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ پس یہ پرندے بھی جب اوپر سے نیچے اڑتے ہوئے آتے ہیں یا زمین پر ٹھہرتے ہیں تو گویا رُکوع میں اور نیچے سے اوپر اُڑتے ہیں تو گویا رُکوع سے قومہ اور قیام کی طرف جاتے ہیں اور پر پھیلا کر زمین پر اوندے پڑ جاتے ہیں تو گویا سجود میں ہیں یعنی ان کی نَماز محض انتقالات ہیں، یہ مستقلاً رُکوع میں ہیں نہ سجود اور قعود میں، بلکہ اڑتے ہوئے عُروج و نزول کرتے رہتے ہیں، اس لیے ایک ہیئت سے دوسری ہیئت کی طرف منتقل ہونا ہی ان کی نماز ہے۔ اسی طرح سیّاروں اور آسمان کی نماز گردش ہے کہ ہر نقطہ سے گھوم کر اسی نقطہ پر لوٹ آتے ہیں اور پھر وہی سابقہ حرکت شُروع کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ ایک نمازی ایک رکعت پڑھ کر پھر پہلی حالت کی طرف لوٹتا ہے اور اسی قسم کے افعال پھر دوسری رکعت میں ادا کرنے لگتا ہے۔ محض ایک رکعت پر یا ایک ہی دور پر قَناعت نہیں کرتا ۔ زمین کی نماز سُکون ہے اور نماز کی تمام حرکات کی ابتِدا بھی سکون ہی سے ہوتی ہے۔ پہلے آدمی ساکن ہوتا ہے پھر حرکت کرتا ہے ، پس زمین بھی گویا ساکت ہو کر اپنے مرکز پر جمی ہوئی ہے اور یہی سکون اس کی نماز ہے۔ ملائکہ کی نماز صَف بندی یعنی قَطار دَر قَطار جمع ہو کر یادِ الٰہی میں مصروف رہنا ہے، البتہ! اس صَف بندی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جتنی صورتیں جَمادات، نَباتات، حیوانات اور حشرات الارض کی نمازوں میں رکھی گئی ہیں، اتنی ہی سب فرشتوں کی نمازوں میں رکھی گئی ہیں، بعض قِیام میں ہیں کہ یہی ان کی نماز ہے توبعض رکوع میں، بعض سجدے میں اور بعض قعود میں اور اسی کوان کی نماز مانا گیا ہے۔ کتنے ہی فرشتے عُروج و نُزول اور آسمان و زمین کے درمیان شب و روز اُتر نے چڑھنے میں مصروف ہیں  اور یہی ان کی نماز ہے ۔ غرض جس طرح سے کہ ایک مسلمان جا مع اَدیان تھا تو اس کے لیے نماز بھی ایسی ہونی چاہئے تھی کہ جس میں عبادت کی تمام اَقسام جمع ہوں اور نماز کی ہر ممکن سے ممکن صورت موجود ہو، اگر نباتات اور درختوں کی عبادت اور نماز قیام تھا تو یہی قیام انسان کی نماز میں بھی ہے۔ اگر حیوانات کی نمازوں میں رکوع وسجود تھا تو مسلمان کی نمازمیں بھی رُکوع اور سجود ہے۔ اگر پہاڑوں کی نماز میں قعود، ملائکہ کی نماز میں صف بندی، زمین کی نماز میں سُکون، سیّارات اور آسمان کی نماز میں دوران و گردش اور جنّت و نار کی نماز میں سُوال و دُعا ہے تو انسان کی نماز میں ان چیزوں کی نماز کی ساری حقیقتیں موجود ہیں اور یہ اس لیے کہ اس ساری کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر اسے فائق بنانا تھا تاکہ خلافتِ الٰہیہ کا شَرَف سنبھالنے کے قابل ہو۔([4])

مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ نے نماز کی کچھ حکمتیں یہ بھی بیان فرمائی ہیں:*نماز انسان کی ہر حالت دُرست کرتی ہے: بُرے کاموں سے بچاتی ہے یہ تو آزمائی ہوئی بات ہے کہ بڑے بڑے فاسق وبد کار لوگوں نے جب صِدْق دل سے نماز پڑھنی شروع کردی تو رب کے فضل سے سارے گُناہوں سے بچ گئے۔ *نماز صدہا بیماریوں کا علاج ہے اس وقت کے اطبا بھی کہتے ہیں کہ وضو کرنے والا آدمی دماغی بیماریوں میں بہت کم مبتلا ہوتا ہے، نمازی آدمی اکثر تلّی کی بیماریوں اور جنون وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے، نیز پنچ وقتہ نمازی کے اَعضا دھلتے رہتے ہیں۔ کپڑے پاک رہتے ہیں گھر بھی اس کا پاک رہتا ہے ۔اس لئے وہ گندگی سے بچا رہتا ہے اور گندگی بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔ *نماز ہر مصیبت کا عِلاج ہے اسی لئے اسلام نے ہر مصیبت کے وقت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، بارش نہ ہو تو نماز استِسقاء پڑھو۔ سورج یا چاند کو گرہن لگے تو نماز کُسوف پڑھو۔ کوئی حاجَت دَرپیش ہو تو نماز حاجَت پڑھو، غرضیکہ نماز ہر مصیبت میں کام آنے والی چیز ہے۔([5])

نَماز  کی ایک حکمت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف اللہ پاک کی رَحمت کی طرف مُتَوجّہ ہو جائے، کیونکہ جب بندہ اپنے رب کریم کی بارگاہ میں دل و جان سے حاضر ہوتا ہے تو اس کی رَحْمَت بڑھ کر اسے اپنی پناہ میں لے لیتی ہے، مگر جب بندہ اپنی حاضِری میں یکسو نہ ہو اور اس کی توجہ کا مرکز بھی خدائے واحد نہ ہو تو رَحْمَتِ خداوندی بھی اس سے اِعْراض کر لیتی ہے۔جیسا کہ تفسیر نعیمی میں ہے: وہ نماز کار آمد ہے جس میں قَلب اور قالِب دونوں اللہ کی طرف مائل ہوں، اگر جسم مسجد میں رہا اور دل بازار میں توا س سے یہ فائدہ نہ ہو گا۔([6])

بِلاشبہ نماز سب سے افضل عبادت ہے اور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نماز کی حالت میں کوئی دنیاوی کام نہیں کیا جا سکتا  کیونکہ اس میں سارے اَعضا پر مکمل کنٹرول ہے، دوسری عِبادات میں دنیاوی کام بھی ہو سکتے ہیں ۔حج میں تجارت، روزے میں دنیاوی کاروبار ہو سکتے ہیں، لہٰذا اس میں اِخلاص زیادہ ہے اسی لئے ارشاد ہوا:

(اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ)

ترجمۂ کنزالایمان:بیشک نماز منع کرتی ہے بے حَیائی اور بُری بات سے۔([7])

دوسرے یہ کہ نماز سارے ظاہری باطِنی اَعضا سے اَدا ہوتی ہے، روزہ صرف منہ اور پیٹ سے۔ لہٰذا یہ ہر عضو کی عبادت ہے۔ تیسرے یہ کہ نماز سارے فرشتوں کی عبادات کا مجموعہ ہے کہ کوئی فرشتہ رُکوع میں ہے کوئی قیام میں کوئی سجدہ میں، چوتھے یہ کہ نماز ساری مخلوق الٰہی کی عبادات کا مجموعہ ہے کہ درخت قِیام میں ہیں، چوپائے جانور رکوع میں ہیں، کیڑے مکوڑے سجدے میں، مینڈک وغیرہ قَعدہ میں۔ لہٰذا نماز سارے فرشتوں اور ساری مخلوق کی عبادات کی جامع ہے۔پانچویں یہ کہ نماز سب پر فرض ہے زکوٰۃ وحج غریب پر نہیں، روزہ مسافر پر نہیں۔ لہٰذا یہ عِبادت عام ہے۔ چھٹے یہ کہ نماز روزانہ ادا کی جاتی ہے، روزہ زکوٰۃ سال میں ایک بار اور حج عمر میں ایک بار ۔ساتویں یہ کہ نماز آدمی کی زندگی سنبھال دیتی ہے، نمازی کو اپنا بدن کپڑا ہر وقت پاک رکھنا پڑتا ہے اور دن رات ہر وقت نماز کی فکر رکھنی پڑتی ہے، لہٰذا نمازی ہر وقت عِبادت میں رہتا ہے، فکر عبادت بھی عبادت ہے۔([8])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(چیف ایڈیٹر ماہنامہ خواتین دعوتِ اسلامی (ویب ایڈیشن))



([1])جواہر البیان، ص 29 تا 31

([2])تفسیر نعیمی،1/104

([3])پ18، النور: 41

([4])فلسفہ ارکان خمسہ، ص 28 تا 30

([5])تفسیر نعیمی، 1/ 104- 105

([6])تفسیر نعیمی، 1/ 300

([7])پ21،العنکبوت:45

([8])اسرار الاحکام، ص 282


Share