آخری نبی محمد عربی ﷺ کا دیہاتیوں کے ساتھ اندازِ درگزر

انداز میرے حضور کے

آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دیہاتیوں کے ساتھ اندازِ درگزر

*مولانا محمدناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء

حضور نبیِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سیرتِ طیّبہ کا ایک اہم پہلو اعراب یعنی دیہات کے افراد کے ساتھ تعامل ہے، یعنی آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ان کے ساتھ کیا انداز تھا، لین دین، سوال جواب، نشست و برخاست کا کیا اندازِ مبارک تھا۔ دیہات سے تعلق رکھنے   والے فرد کو عربی میں اَعرابی یا بَدو کہتے ہیں،عموماً اِن کی طبیعت میں سختی اور جفا شامل ہوتی ہے، ایک حدیث ہے: جودیہات میں رہا اُس نےجفاکی۔ ([1])یعنی دیہات میں رہنے والے افراد لوگوں سےکم ملتے ہیں اس لیے اُن کی طبیعت میں سختی ہوتی ہے،جفا سے”طبیعت کی سختی“ مراد ہے۔([2])

اَعراب جہاں کچھ سخت طبیعت والے تھے تو وہیں رسولِ مکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اللہ کریم نے کمال نرم مزاجی سے نوازا تھا، قراٰنِ کریم میں ہے:

)فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ- (

ترجمۂ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے ۔([3])

رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شان ِنرم مزاجی کے نتیجے میں دیہات سےتعلق رکھنے والے دینِ اسلام کےقریب آئے اور ایمان کی دولت،فراست کی نعمت، صبرو بردباری جیسی عادتوں سے آگاہ ہوئے اور اِن میں سے کئی افراد نے اسلام لاکر عزّت و عظمت جیسی نعمتوں کو حاصل کیا۔

 آئیے! اَعرابیوں کے ساتھ رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اندازِ درگزر کی جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں :

جانی دشمن دیہاتی کوچھوڑ دیا:ایک سفرکےدوران حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایک کانٹے دار درخت کے نیچے تشریف لائے اور اپنی تلواراُس پر لٹکا دی۔(راوی کہتے ہیں کہ ) ہم ابھی سوئے ہی تھے کہ اچانک آپ نے ہمیں بلایا، ہم حاضرِ خدمت ہوئے تو آپ کے پاس ایک اعرابی تھا۔آپ نے فرمایا: ”میں سو رہا تھا کہ اِس نے مجھ پرمیری تلوارتان لی۔میں بیدارہوا تو اِس کے ہاتھ میں ننگی تلوارتھی، اُس نے کہا:آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ۔ پھرآپ نے اُس سے کوئی بدلہ نہ لیا اور وہ بیٹھ گیا۔([4]) (ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں) رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے تلوار اُٹھاکر فرمایا: ”اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘اس نے کہا: ’’آپ بہترین پکڑ فرمانے والے ہو جائیے۔“ آپ نے فرمایا: ”کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ پاک کا رسول ہوں؟‘‘ بولا: نہیں۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی آپ سےنہ لڑوں گا اور نہ آپ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ نے اُسے چھوڑ دیا تو وہ اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا اور کہا : ’’ میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔“([5])

تاریخِ نبوی میں اس قسم کے دو واقعات ہوئے ہیں۔ غزوهٔ غَطَفان(غزوۂ ذی امر) کے موقع پر دُعْثور بن حارث محاربی نے سر انور پر تلوار تانی تھی اور یہ مسلمان ہو کر اپنی قوم کے اسلام کا باعث بنے جبکہ غزوہ ذات الرِّقاع میں جس شخص نے حضور اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر تلوار اٹھائی تھی اس کا نام غَوْرَث تھا۔ اس نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ مرتے وقت تک اپنے کفر پر اڑا رہا البتہ اس نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے کبھی جنگ نہیں کرے گا۔([6])

تکلیف دہ انداز کے باوجودعطائیں:ایک مرتبہ رسول ِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے مو ٹے تھے، ایک دیہاتی نے بطورِ امداد مال مانگنے کے لیے چادر مبارک پکڑ کر بڑے زور سے کھینچی یہاں تک کہ مبارک کندھے پر رگڑ کا نشان بن گیا۔ ساتھ ہی اعرابی نے بڑے سخت جملے بھی بولے۔رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جواباًصرف اتنا فرمایا : مال تو اللہ پاک کا ہی ہے اور میں تو ا س کا بندہ ہوں۔ پھر ارشاد فرمایا: اے اعرابی!کیا تم سے اس سلوک کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرمایا: کیوں نہیں؟اعرابی نےجواب دیا:کیونکہ آپ کی یہ عادتِ کریمہ ہی نہیں کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے دیں۔ اس کی یہ بات سُن کر رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسکرا دئیے اور ارشاد فرمایا: اِس کے ایک اونٹ کو جَو سے اور دوسرے کو کھجور سے بھردو۔([7])

غلطی پراندازِ درگزر اورطرزِ تفہیم: رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اگر کبھی اس بات کی ضرورت محسوس فرماتے کہ غلطی پر براہِ راست تنبیہ کی جائے تو انتہائی نرمی اور محبّت بھرے انداز میں سمجھاتے تاکہ سامنے والا حق بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے۔ جیسا کہ بخاری ومسلم کی روایت میں ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوااور کونے میں جا کر پیشاب کرنے لگا،صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان اُسے روکنے لگے تو حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:اُسے نہ روکو؛ چھوڑ دو، اور جہاں اس نے پیشاب کیاہے وہاں ایک ڈول پانی بہا دو۔تم لوگ نرمی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔ جب اُس نے پیشاب کر لیا تو اُس سےفرمایا:یہ مسجدیں پیشاب اورگندگی کے لیے نہیں بنیں،یہ توذکرِ الٰہی،نماز اورتلاوتِ قراٰن کے لیے ہیں۔([8])وہ دیہاتی آپ سے اتنا متأثر ہوا کہ اُس نےآپ کے اندازِ درگزر کویوں بیان کیا:بِاَبِي وَاُمِّي، فَلَمْ يُؤَنِّبْ وَلَمْ يَسُبَّ یعنی میرے ماں باپ ان پر قربان! اُنہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا اور نہ ہی بُرا کہا۔([9])

 رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اُس اعرابی کو نہ روکنے کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اگر پیشاب کرتے ہوئے روک دیا جاتا تو اس کی وجہ سےبیماری ہوسکتی تھی۔ نیز یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ اگر دورانِ پیشاب صحابَۂ کرام اُنہیں اُٹھا دیتے تو اس سے اُن کے بدن، کپڑے یا مسجد کی دوسری جگہیں بھی ناپاک نہ ہو جاتیں۔([10])

اللہ کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اِس اندازِ درگزر کا نتیجہ یہ نکلا کہ  اعرابی اسلام کے قریب آئے اور ان کی بڑی تعداد خلوص دل کے ساتھ ایمان لے آئی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طبیعت کی سختی کم ہوتی گئی۔

سیّدِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دیہاتیوں  کی تعلیم وتربیت کے لیے کیا انداز  اپنایا؟ اسے جاننے کے لیے اگلےشمارے کا انتظار کیجیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث، المدینۃ العلمیہ Islamic Research Center کراچی



([1])ابوداود، 3/151، حدیث:2859

([2])مجمع بحار الانوار،1/162ماخوذاً

([3])پ4،ال عمرٰن:159

([4])بخاری،3/59، حدیث:4135

([5])مسنداحمد، 23/369،حدیث:15190

([6])زرقانی علی المواہب، 2 / 532، 533

([7])بخاری،4/53،حدیث:5809، الشفاء، 1/108

([8])بخاری،1/97،حدیث:220،مسلم،ص133،حدیث:661

([9])ابن ماجہ،1/300،حدیث:529

([10])عمدۃالقاری،15/262ماخوذاً، التوضیح لابنِ ملقّن، 4/406ماخوذاً


Share