تبلیغِ دین میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکمتِ عملیاں
(Strategic Methods of Propagation)
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے مختلف حکیمانہ طریقوں، تدابیر اور تربیتی اسالیب کو اختیار فرمایا تاکہ لوگ بغیر زور زبردستی کے، عقل، فہم اور دل کی گہرائی سے دینِ حق کو قبول کریں۔
تبلیغِ دین کا عمل اسلام کی روح ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ طیبہ اس فریضے کی تکمیل کا کامل نمونہ ہے۔ دین کی دعوت ایک ایسا فن ہے جس میں حکمت، بصیرت، صبر، تدریج اور حالات کی رعایت بنیادی عناصر ہیں۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مراحل میں مختلف حکمت عملیاں اپنائیں جو دعوتِ دین کو مؤثر، پائیدار اور ہمہ گیر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعوتِ اسلام کا آغاز اللہ کریم کے حکم و تعلیم کے مطابق خاموشی سے، محدود افراد میں کیا، پھر آہستہ آہستہ اعلانِ عام کی طرف بڑھے۔ اس حکمتِ عملی سے لوگ ذہنی طور پر تیار ہوتے گئے اور مخالفت کے لیے وقت ملا۔
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر شخص کی عقل، علم اور حالات کے مطابق اندازِ گفتگو اختیار فرماتے تھے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اسلوب نہایت نرم، شفیق اور خوش گفتار تھا، جو مخالف کو بھی قائل کر دیتا تھا۔ قراٰنِ کریم نے بھی آپ کے اس وصف پر تعریف فرمائی:( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ- )ترجَمۂ کنزالایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے۔ ([1]) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبلیغ صرف باتوں سے نہیں کی، بلکہ اپنے عمل، دیانت، سچائی، حلم اور وفاداری سے لوگوں کو متأثر کیا، یہی وجہ تھی کہ آپ مخالفین میں بھی صادق و امین مشہور تھے اور اسی شہرت نے نبوت کے اعلان کو کچھ حد تک آسان بنایا۔تبلیغ کے دوران طعن و تشنیع، ظلم و ستم، بائیکاٹ اور طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا ہوا لیکن آپ نے سب کچھ برداشت کیا اور دعوت سے پیچھے نہ ہٹے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعوتِ دین کے لیے مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے، حج، میلوں، قبائل کے وفود، بازار الغرض ہر جگہ موقع بہ موقع اسلام کی دعوت دیتے ، انہی مواقع میں مدینہ کے اوس و خزرج قبائل سے بیعت لی، جسے بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ کہتے ہیں، جو درحقیقت ہجرت اور مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غیر مسلم بادشاہوں، سرداروں کو خطوط لکھے اور ان کے پاس صحابہ کو بھیجا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعوت کے لیے مثالیں، قصے، سوال جواب، خاموشی، تجنب، تبسم، ہر قسم کے انداز کو موقع محل کے لحاظ سے استعمال کیا۔ تبلیغ میں ترتیب سے کام لیا پہلے اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر ایمان کی دعوت، پھر نماز، اخلاق، معاشرت وغیرہ کی تعلیم۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دلائل اور حکمت کے ساتھ دعوت دیتے، کسی پر زور زبردستی نہ کرتے۔ الغرض رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبلیغِ دین کے لیے جو بھی انداز اور حکمت عملیاں اختیار فرمائیں ان کے گہرے اور بروقت اثرات مرتب ہوئے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ حکمتِ عملیاں نہ صرف اُس وقت مؤثر تھیں بلکہ آج کے دور میں بھی مبلغین اسلام کے لیے بہترین راہنما اصول فراہم کرتی ہیں۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے آپ کی جو تبلیغی حکمت عملیاں اور مبلغانہ اوصاف عیاں ہوتے ان کی ایک طویل فہرست ہے، البتہ ذیل میں چند تبلیغی حکمتِ عملیاں مختصراً ملاحظہ کیجیے:
تدریج یعنی مرحلہ وار دعوت؛ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکیمانہ تبلیغی حکمتِ عملی:تبلیغِ دین کے لیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تدریج یعنی مرحلہ وار دعوت کو اپنایا۔ یہ حکمت عملی انسانی نفسیات، معاشرتی ساخت اور ذہنی تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے نہایت موزوں اور مؤثر ثابت ہوئی۔ تدریج کا مقصد مخاطب کو شدت یا سختی کے بجائے نرمی، وقت اور ترتیب سے اس حق کی طرف لانا ہے جو اس کے قلب و عمل کو مکمل طور پر بدل دے۔
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعوت کا آغاز توحید، رسالت اور آخرت جیسے بنیادی عقائد سے کیا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کا حکم بعد میں نازل ہوا۔ چنانچہ مکہ مکرمہ کے 13 سال عقائد کی اصلاح اور اخلاقی تربیت پر صرف کیے گئے۔ اسی طرح شراب کی حرمت اور نماز و جہاد کی فرضیت بھی تدریجاً ہوئی، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی احکام بھی تدریجاً سکھائے۔ جیسے سود، یتیموں کے حقوق، وراثت کے قوانین وغیرہ سب تدریجاً نازل ہوئے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی بھی مخاطبین کو بیک وقت تمام احکام اور ذمہ داریاں نہیں سنائیں بلکہ ان کی عقل و ظرف کے مطابق آہستہ آہستہ دعوت دی، تاکہ دلائل ہضم ہوں، مزاج قبول کرے اور طبیعت آمادہ ہو جائے۔ یہ تدریجی انداز نہ صرف تعلیم و تربیت کے باب میں اہم ہے بلکہ یہ دین کی رحمت اور سہولت پسندی کا بھی اظہار ہے۔
تدریج کی حکمتِ عملی آج کے دَور میں بھی انتہائی مؤثر ہے۔ جب ایک غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جائے یا ایک مسلمان کو دینی عمل کی طرف بلایا جائے تو فوری اور مکمل تبدیلی کی توقع، اکثر ردِ عمل پیدا کرتی ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ٭پہلے اس کے دل میں اللہ کی محبت اور خوف پیدا کیا جائے۔ ٭پھر آہستہ آہستہ فرائض کی اہمیت بتائی جائے۔ ٭کسی غلط عادت (جیسے نشہ، جھوٹ، بددیانتی) سے چھٹکارے کے لیے نفسیاتی اور عملی مدد فراہم کی جائے۔ ٭بچوں، نو عمروں اور نئے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی تدریجی تربیت مؤثر ہوتی ہے۔
کردار کی پاکیزگی اور عملی نمونہ :رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تبلیغی حکمت عملیوں میں جو امر سب سے زیادہ دلوں کو مسخر کرتا ہے، وہ آپ کا بے داغ، شفاف اور ہر عیب سے پاک کردار ہے۔ تبلیغِ دین کا اصل مؤثر ذریعہ قول کے بجائے عمل اور کردار ہوتا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی عملی زندگی میں جس بے مثالی اخلاق اور کردار کا مظاہرہ فرمایا، وہ خود ایک زندہ و جاوید دعوت تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے نکلنے والا ہر حرف لوگوں کے دل پر اثر کرتا، کیونکہ اس کے پیچھے وہ کردار کھڑا ہوتا تھا جس پر نہ صرف مکہ کے سردار بلکہ آپ کے بدترین مخالفین بھی انگلی نہ اٹھا سکے۔
قرآنِ مجید نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کردار کی عظمت کو ان الفاظ میں سراہا: (وَاِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ)ترجمۂ کنزالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔([2])یہ آیت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بلند ترین اخلاق پر پیدا فرمایا تاکہ آپ کی سیرت اور کردار بذاتِ خود اسلام کی دعوت کا ذریعہ بنیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کی ترغیب دی: (لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔([3])
سیرتِ طیبہ میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کردار کی پاکیزگی کے بے شمار واقعات موجود ہیں۔ نبوت سے پہلے قریش نے آپ کو ”الصادق“ (سچے) اور ”الامین“ (امانت دار) کا لقب دیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچائی اور دیانتداری زمانۂ جاہلیت میں بھی مسلم الثبوت تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نکاح کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ فطری نیکی، سچائی، دیانت اور حسنِ سلوک کے پیکر ہیں۔ پہلی وحی کے بعد جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے کردار ہی کو تسلی کی بنیاد بنایا، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے:” فَوَا للهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا، فَوَا للهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ( اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، آپ کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔([4])
مکی دور میں جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے توحید کا پیغام دیا تو کفارِ مکہ نے اس کی سخت مخالفت کی، مگر آپ کے کردار پر کبھی اعتراض نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جبل صفا پر کھڑے ہو کر فرمایا:”اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے، تو کیا تم میری بات مانو گے؟“ تو سب نے بیک زبان کہا: ”ہاں، ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں پایا۔“ ([5])یہ کردار ہی تھا جس نے انکار کرنے والے دلوں کو بھی سچائی کا قائل کیا، خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں۔
عملی زندگی میں کردار کی پاکیزگی کی تطبیق اس وقت انتہائی ضروری ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت قول و فعل کے تضاد کا شکار ہے۔ دین کی دعوت دینے والے، اگر خود بددیانتی، بداخلاقی، یا دنیا پرستی میں مبتلا ہوں، تو ان کی دعوت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مگر جو داعی اپنے کردار سے سچائی، دیانت، عفو، انصاف، حلم اور صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ بغیر بولے لوگوں کو متأثر کر دیتا ہے۔
کردار کی پاکیزگی صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس حکمت عملی کے ذریعے ایک بگڑے ہوئے معاشرے کو اخلاقی انقلاب سے گزارا۔ یہی حکمت عملی آج کے داعیانِ اسلام کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ اگر ہم اپنی دعوت کو مؤثر بنانا چاہتے ہیں تو کردار کی پاکیزگی کو اپنی ترجیحِ اول بنانا ہو گا۔
ہمارے مبلغین کو چاہیے کہ وہ اخلاص، عدل، نرمی، برداشت، سچائی اور خدمت خلق جیسے اوصاف کو خود میں پیدا کریں تاکہ اُن کی بات دلوں پر اثر کرے۔
والدین، اساتذہ اور راہنما اگر بچوں اور نوجوانوں کو سیرت کے اسوہ کے ساتھ عملی زندگی میں بھی حسن اخلاق، نماز، صداقت، دیانت داری کا عملی نمونہ پیش کریں، تو ان کی دعوت زیادہ مؤثر ہوگی۔
قول و فعل کے تضاد سے دعوت بے اثر ہو جاتی ہے۔ طلبہ، بچے یا سامعین جب داعی کو خود دیانت، سچائی، صبر، عفو، انفاق اور خدمت خلق پر عمل کرتے دیکھتے ہیں، تو وہ متأثر ہوتے ہیں، اور لاشعوری طور پر اس عمل کو اپنانے لگتے ہیں۔
بقیہ اگلے شمارے میں
Comments