ختم نبوت
جمعہ کے روز ویسے تو اسکول کی عام روٹین کے مطابق بزمِ ادب ہوتی ہی تھی لیکن آج بچوں کی بزمِ ادب کے لیے بچوں کا جوش و خروش دیدنی تھا، دراصل پرنسپل صاحب نے چند روز پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس جمعہ کو ہونے والی بزمِ ادب کا عنوان ہوگا: عقیدۂ ختمِ نبوت، جس میں معمول سے ہٹ کر بچوں کے بجائے اساتذہ حصہ لیں گے، تبھی بچے بریک ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ جلدی سے بزمِ ادب شروع ہو۔
بزمِ اد ب کا باقاعدہ آغاز اردو کے استادِ محترم نے تلاوتِ قراٰنِ مجیدسے کیا جس کے بعد ریاضی کے ٹیچر نعت پاک سنانے مائیک پر آئے:
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی
نعت اتنی پیاری اور آسان تھی کہ کسی کے کہے بغیر ہی بچے نعت پڑھنے میں شامل ہو چکے تھے، پورا ہال نعت سے گونج رہا تھا، جیسے ہی سر کی نعت ختم ہوئی تو پرنسپل صاحب نے پہلے ختم نبوت کے نعرے لگوائے:
محمدِ مصطفےٰ سب سے آخری نبی
احمدِ مجتبےٰ سب سے آخری نبی
تاجدارِ انبیا سب سےآخری نبی
ہیں حبیبِ کبریا سب سے آخری نبی
پیارے بچو! اب میں بلا تاخیر ہمارے اسلامیات کے محترم استاد بلال صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ مائیک پر تشریف لائیں اور اپنی تقریر سے ہمارے دل و دماغ کو منور فرمائیں۔
سر بلال: عزیز طلبہ اور اساتذۂ ذی وقار السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ! آج ہم جس عقیدے اور نظریے کی خاطر یہاں جمع ہوئے ہیں وہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ عقیدۂ توحید، یعنی جیسے اللہ پاک کو اکیلا معبود مانے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا ویسے ہی جب تک حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی نہیں مانے گا مسلمان شمار نہیں ہوگا۔
پیارے بچو! عقیدۂ ختمِ نبوت کی خاطر شروع سے ہی مسلمان اپنی جانیں قربان کرتے آئیں ہیں، آج میں آپ کے سامنے ایک ایسے جہاد کی تاریخ بیان کرنے جا رہا ہوں جو عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کی خاطر لڑی جانے والی اسلام کی پہلی جنگ تھی۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مدینۂ منورہ تشریف لائے دس سال ہو چکے تھے جب عرب شریف کے ہی ایک قبیلے کے سترہ افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں سولہ افراد نے تو اسی وقت اسلام قبول کر لیا لیکن ایک شخص نے اسلام قبول کرنے کے لیے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے بڑی انوکھی شرط رکھی۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی، بچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی پوری طرح سر بلال کی طرف متوجہ تھے اور وہ انوکھی شرط جاننے کے لیے بےتاب تھے۔
سر بلال نے کچھ وقفہ لینے کے بعد اپنی تقریر دوبارہ شروع کی: وہ شخص بولا کہ اگر آپ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) اپنے بعد مجھے اپنی خلافت عطا فرما دیں یعنی اپنا نائب بنا دیں تو میں آپ کی پیروی کروں گا۔ اس وقت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ مبارک میں کھجور کی شاخ کا ایک ٹکڑا تھا، آپ اس کے قریب تشریف لائے اور فرمایا: اگر تم مجھ سے یہ شاخ کا ٹکڑا بھی مانگو گے تو میں نہیں دوں گا۔
بارگاہِ نبوت سے ذلیل ہونے کے بعد اپنے قبیلے میں پہنچ کر اس شخص نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی میں تو لوگوں نے اسے قبول نہ کیا لیکن جیسے ہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ظاہری دنیا سے پردہ فرمایا اس کا فتنہ پھیلنے لگا اور لوگ اس کی جھوٹی دعوت قبول کرنے لگے یہ دیکھ کر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد آپ کے خلیفہ بننے والے اور اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے سربراہ (leader) حضرت ابوبکر صدیق نے نبوت کے اس جھوٹے دعوے دار کو سبق سکھانے کے لیے اسلامی فوج کو روانہ کیا اور کئی روز مقابلہ جاری رہا لیکن جنگ کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا دراصل آس پاس کے لوگوں پر اس جھوٹے شخص کا بہت اثر پڑا تھا لاکھ کے قریب لوگ اس کے ساتھ مل گئے تھے، چند روز بعد اسلامی تاریخ کے عظیم جرنیل صحابی حضرت خالد بن ولید بھی اسلامی فوج کی مدد کو وہاں پہنچ گئے، آپ نے پوری پلاننگ کر کے ان پر حملہ کیا جس کی وجہ سے انہیں عبرتناک شکست ہوئی، اپنے لشکر کو شکست کھاتا دیکھ کر وہ جھوٹا شخص ایک دیوار کے پیچھے جا کر چھپ گیا لیکن حضرت وحشی رضی اللہ عنہ اسے دیکھ چکے تھے لہٰذا آپ نے نیزہ مار کر اس جھوٹے شخص کو قتل کر کے جہنم روانہ کر دیا۔
پیارے بچو! اسلامی تاریخ میں اس جنگ کو یمامہ کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے اور آپ کو پتا ہے نبوت کے اس جھوٹے دعوے دار کا نام کیا تھا؟ اگر کسی کو پتا ہے ہاتھ کھڑا کر دے۔
سر کی بات پر پرنسپل صاحب مائیک کے پاس تشریف لا کر بولے: درست جواب دینے والے کو پرنسپل آفس کی طرف سے ایک انعام بھی دیا جائے گا۔ اس اعلان کے باوجود بچوں کی طرف سے کسی کا ہاتھ کھڑا نہ ہوا تو سر بلال نے خود ہی جواب دیا: بچو نبوت کے اس جھوٹے دعوے دار کا نام مُسَیلمہ تھا جو کہ بعد میں مسیلمہ کَذّاب کے نام سے مشہور ہوا کیونکہ کذاب عربی میں انتہائی جھوٹے شخص کو کہتے ہیں۔
بچو! ایک اہم بات آپ کو پتا ہے اس جنگ میں کتنے صحابۂ کرام نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا تھا؟ بارہ سو صحابۂ کرام، یعنی ہزار سے زائد صحابۂ کرام نے اپنی جان عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کی خاطر قربان کر دی تھی جن میں بہت سے صحابۂ کرام حافظ بھی تھے، (فیضان صدیق اکبر، ص382، 384، 388، 415) اسی لیے تو ہم کہتے ہیں:
عقیدہ سب صحابہ کا سب سے آخری نبی
عقیدہ اہلِ بیت کا سب سے آخری نبی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی
Comments