آنکھوں کے سامنے سے گزرے پر خبر نہ ہوئی
ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات جہاں اور بہت سے حسین پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں وہیں اس بات کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ جب اللہ پاک کو منظور ہوتا وہ کافروں سے آپ کی حیرتناک حفاظت فرماتا چنانچہ جب مکہ کے کافروں نے دیکھا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور مسلمانوں کے مددگار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہوگئے اور مدینہ جانے والے مسلمانوں کو انصار نے اپنی پناہ میں لے لیا ہے تو انہیں خطرہ ہوا کہ کہیں یہ مدینے جاکر ہم سے جنگ کے لیے فوج نہ تیار کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دارُالنّدوہ (اجلاس ہاؤس) میں ایک بڑی کانفرنس رکھی جس میں قریش کے تمام بااثر لوگ اور سردار شریک ہوئے۔ شیطانِ لعین بھی ایک بوڑھے شخص کی صورت میں آیا اور بولا کہ میں ”شیخ نجد“ہوں اس کانفرنس کا سُنا تو آگیا، سرداروں نے اسے بھی کانفرنس میں شریک کرلیا اور پھر باقاعدہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے متعلق مشورہ شروع ہوگیا کہ آخر ان کے ساتھ کیا کِیا جائے، چنانچہ وہاں تین الگ الگ مشورے پیش کئے گئے : ایک یہ کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو زنجیروں میں جکڑ کر قید کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ ان کو مکہ سے نکال دیا جائے، شیطان نے ان دونوں مشوروں کی خامیاں بیان کرکے انہیں ٹھکرا دیا، تیسرا مشورہ ابو جہل نے دیا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک بہادر ہو اور سب ایک ساتھ حملہ کرکے محمد( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کو قتل کر ڈالیں۔ قتل کا جرم تمام قبیلوں کے سر پر ہوگا ظاہر ہے کہ خاندان بنو ہاشم اس قتل کا بدلہ لینے کو تمام قبیلوں سے لڑ نہیں سکیں گے لہٰذا یقیناً وہ خون بہا کی رقم لینے پر راضی ہو جائیں گے جو ہم سب مِل جُل کر ادا کر دیں گے۔ یہ مشورہ سن کر شیطان نے کہا : یہ ہوئی نا بات ! یہ مشورہ سب سے بہتر ہے چنانچہ سب نے یہی طے کیا اور وہاں سے چل دئیے۔
لہٰذا جس رات ان کافروں نے اپنا یہ ناپاک منصوبہ پورا کرنا تھا اسی رات اللہ پاک کے حکم سے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہجرت کرنی تھی چنانچہ حضرت جبریل علیہ السّلام نے آکر رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: آج رات اپنے اس بستر پر نہ سوئیے گا، رات کو کفار آپ کے دروازے کے باہر جمع ہوگئے تاکہ آپ سوئیں تو حملہ کریں۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ سب دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میری یہ سبز حضرمی چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو جاؤ ، یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے نیز انہیں ہجرت کے لیے اپنی روانگی کے بارے میں بتا کر حکم دیا کہ میرے پاس لوگوں کی جو امانتیں ہیں انہیں ان کے مالکوں کو دینے تک مکہ میں ہی رہنا۔
پھر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مٹھی بھر مٹی لی اور سورۂ یس کی ابتدائی چند آیات پڑھتے ہوئے ان کافروں کے پاس سے گزر گئے بلکہ ان کے سروں پر تھوڑی تھوڑی مٹی بھی چھڑک دی مگر ان میں سے کسی کو بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دکھائی نہ دئیے۔ (سیرت ابن ہشام، ص 191 تا 194)
*اجتماعی مشورہ اگر نیک نیتی سے کیا جائے تو نتیجہ اچھا ہوتا ہے اور اگر بد نیتی سے کیا جائے تو نتیجہ ناکامی و رسوائی ہوتا ہے۔
*برائی کی مجلسوں میں شریک ہونا اور برائی کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنا شیطان کا شوق و مشغلہ ہے۔
*لوگوں کے بُرے منصوبے اور چالبازیاں اللہ پاک کی چھپی تدبیر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
*جس پر اللہ پاک کی مدد اور حفاظت کا سایہ ہو تو بڑے سے بڑا دشمن بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
*کامل توکل اور اعتماد صرف اللہ پاک پر ہونا چاہیے کیونکہ حقیقت میں وہی نجات دینے والا ہے۔
*عقلمند وہ ہے جو خطروں میں بھی خود پر قابو رکھ کر صحیح فیصلہ کرے اور جب جسمانی طاقت دکھانی ہو تو جسمانی طاقت اور جب ذہنی طاقت دکھانی ہو تو ذہنی طاقت دکھائے۔
*نفس پر قابو اور حکمت عملی کے ساتھ فیصلے کرنا بہادری کی اعلیٰ مثال ہے، نہ کہ صرف ظاہری قوت دکھانا۔
*ہر صورت میں امانت اس کے مالک تک پہنچا دینی چاہیے اگر خود نہ پہنچا سکیں تو دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
*جان کا خطرہ ہونے کے باوجود فرائض کی ادائیگی کا لحاظ رکھنا ایمان کی پختگی کی علامت ہے۔
*سچے وفادار اور مخلص لوگ خلوص اور وفاداری کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے۔
*صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ م حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر دل اور جان قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔
*سچی کامیابی ہمیشہ سچائی، دیانت اور صبر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے نہ کہ ظلم، فریب یا سازش کے ذریعے۔
*بُرے لوگوں کی کوششیں زیادہ عرصہ کامیاب نہیں رہتیں۔
*کسی کو دشوار اور خطرناک کام سونپتے ہوئے اس کی حفاظت کی طرف بھی بھرپور توجہ رکھنی چاہیے اور اسے اس کے محفوظ رہنے کی یقین دہانی بھی کروانی چاہیے جبکہ اس کی کوئی صحیح وجہ بھی ہو۔
*دوسروں کے نقصان سے خود کو بچانے کے لیے اپنے گرد و پیش سے باخبر رہنا اور حالات کا جائزہ لیتے رہنا مفید ہے۔
*مخلص اور نیک منصوبوں میں جولوگ ہمارےساتھ شریک ہوں انہیں ایک حد تک اپنے راز بتا دینا راز داری کے خلاف نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments