تعلیماتِ نبوی اور ازدواجی زندگی
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

تعلیماتِ نبوی اور ازدواجی زندگی

ہمارے پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی ہمارے لیے کامل نمونہ ہے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے زندگی کے ہر ہر شعبے، ہر ہر معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ اور وہ بھی صرف اپنے اقوال کے ذریعے نہیں بلکہ عملی طور پر زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا۔

ازدواجی زندگی کو کیسے گزارا جائے، شوہر کو کیسا ہونا چاہیے، اپنی بیوی کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے یہ سب بھی ہمیں پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عملی زندگی سے سیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس طرح ہر لحاظ سے اعلیٰ و بہترین تھے اسی طرح بحیثیتِ شوہر بھی آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہترین تھے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود فرمایا:

خَيْـرُكُمْ خَيْـرُكُمْ لِاَهْلِهٖ وَاَنَاخَيْـرُكُمْ لِاَهْلِىْ یعنی تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔ ([1])

ازواجِ مطہرات کے ساتھ حسنِ سلوک:آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ازواجِ مطہرات کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتے۔ فطری طور پر ہر شخص کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ حسنِ سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر ایک کے مزاج کے مطابق ہی اس کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواج کے درمیان اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام ہی ازواجِ مطہرات اعلیٰ کردار کی مالک تھیں، پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بےحد محبت فرمانے والی تھیں اور آپس میں بھی ان کے تعلقات انتہائی خوش گوار تھے۔ لیکن کبھی کبھار کسی زوجہ مطہرہ کے مزاج میں کچھ تیزی بھی آ جاتی جو کہ ایک فطری عمل ہے۔ ایسے موقع پر بھی پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے ناراض ہونے یا جھڑکنے کے بجائے شفقت و محبت سے ہی پیش آتے۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت میمونہ   رضی  اللہ  عنہا  فرماتی ہیں:

ایک دن آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم (میری باری کے دن) میرے پاس سے باہر نکلے۔ میں نے دروازہ بند کر دیا۔ آپ تشریف لائے، دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ میں نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ فرمایا: میں تمھیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم دروازہ کھولو۔ میں نے عرض کی: آپ میری باری میں کسی اور زوجہ کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ فرمایا: میں نے ایسا نہیں کیا بلکہ مجھے قضائے حاجت کرنا تھی۔([2])

ازواجِ مطہرات سے محبت:نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جس کی بدولت شوہر اور بیوی میں بغیر کسی معرفت اور قرابت کے محبت اور ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ  اللہ   پاک کی کمال رحمت ہے۔ جیسا کہ  اللہ  کریم قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۱))

ترجَمۂ کنز العرفان:اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اپنی ازواج سے بہت محبت فرماتے اور اس کا اظہار بھی فرماتے تھے۔چنانچہ حضرت خدیجہ   رضی  اللہ  عنہا  کے بارے میں فرمایا: مجھے اِن کی محبت عطا فرمائی گئی ہے۔([4])

یہ حضرت خدیجہ   رضی  اللہ  عنہا  سے محبت ہی تھی کہ جب تک وہ زندہ رہیں آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی اور سے نکاح نہ فرمایا۔

آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی زوجہ حضرت عائشہ   رضی  اللہ  عنہا  سے بھی بہت محبت فرماتے تھے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ اپنی لاڈلی شہزادی حضرت سَیِّدَہ فاطِمَہ   رضی  اللہ  عنہا  کو مُخاطب کرکے اِرْشاد فرمایا:ربِّ کعبہ کی قسم! تمہارے والد کو عائشہ ( رضی  اللہ  عنہا ) بہت زیادہ محبوب ہیں۔([5])

آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ مل کر بیٹھا کرتے، ان سے گفتگو فرماتے، ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے۔

حضرت عائشہ صِدِّیقہ   رضی  اللہ  عنہا  فرماتی ہیں کہ مخصوص ایام میں جب میں پانی پیتی پھر حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دے دیتی تو جس جگہ میرا منہ لگتا تھا حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہیں دَہن مبارک رکھ کر پیتے اور مخصوص ایّام میں ہڈّی سے گوشت نوچ کر کھاتی پھر آپ کو دے دیتی تو آپ اپنا دَہن مبارک اُس جگہ رکھتے جہاں میرا منہ لگتا تھا۔([6])

ازواجِ مطہرات کے درمیان عدل و انصاف:جس شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں اس پر ان کے درمیان تقسیم اور عدل و انصاف کرنا واجب ہے لیکن آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر یہ تقسیم اور عدل واجب نہ تھا۔ اس کے باوجود آپ صلی  اللہ  علیہ وسلم ازواجِ مطہرات پر کمال شفقت فرماتے ہوئے ان کے درمیان عدل و انصاف سے ہی کام لیتے تھے۔ سب کو یکساں توجہ اور وقت دیتے، حقوق میں بھی برابری کا لحاظ فرماتے۔ اسی وجہ سے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمام ازواج کی باریاں مقرر کر رکھی تھیں۔ جس زوجہ مطہرہ کی باری ہوتی اس کی اجازت کے بغیر دوسری زوجہ کے پاس تشریف نہ لے جاتے۔

چنانچہ حضرت عائشہ صِدِّیقہ   رضی  اللہ  عنہا  سے رِوایت ہے کہ رَسُولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی اَزواج کے دَرمیان باری مقرر فرماتے ہوئے اِنصاف فرماتے اور  اللہ  پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے الٰہی ! یہ میری تقسیم ہے اُس میں جس کا میں مالک ہوں پس تو مجھے اُس میں عتاب نہ فرمانا جس کا تو مالک ہے اور میں مالک نہیں۔ (یعنی قلبی محبت) ([7])

 یہاں تک کہ سفر پر روانہ ہوتے وقت بھی آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ازواجِ مطہرات کے مابین قرعہ اندازی فرماتے، جس زوجہ کے نام قرعہ نکلتا ان کو سفر میں ساتھ لے جاتے۔([8])

ازدواجی اختلافات میں برداشت، صبر اور حکمتِ عملی: آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اور ازواجِ مطہرات کے درمیان ہونے والے اختلافات کو بھی نہایت صبر اور حکمتِ عملی سے سلجھاتے تھے۔ کبھی بھی غصے و جذبات سے کام نہ لیتے بلکہ نہایت سمجھداری و بردباری سے معاملات کو سلجھایا کرتے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

حضرت اُمّ سلمہ   رضی  اللہ  عنہا  نے رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک پیالے میں کچھ کھانا بھیجا، آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت حضرت عائشہ   رضی  اللہ  عنہا  کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ حضرت عائشہ   رضی  اللہ  عنہا  نے خادم کے ہاتھ پر مارا، جس سے وہ برتن گرکر ٹوٹ گیا۔رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ٹوٹے ہوئے برتن کے ٹکڑوں کو جمع کیا، اور اس میں وہ کھانا جمع کیا جو اس میں تھا، اور خادم سے فرمایا: تمہاری ماں کو غیرت آ گئی تھی یہ جملہ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دو مرتبہ فرمایا۔ پھر آپ نے حضرت عائشہ کا صحیح پیالہ منگوایا اور اُسے اُمّ سلمہ کے پاس بھجوا دیا، اور اُمّ سلمہ کا ٹوٹا ہوا پیالہ حضرت عائشہ کو دے دیا۔([9])

ازواجِ مطہرات کے ساتھ خوش طبعی:شوہر اگر اپنی بیوی کے ساتھ ہر وقت سنجیدگی اور رعب والا رویہ ہی اپنائے رکھے، بالکل بھی ہنسی مذاق نہ کرے تو اس سے ازدواجی تعلق ایک بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی بھی اپنی ازدواجی زندگی کو بوجھ بننے نہ دیا بلکہ حسنِ اخلاق کے پیکر ہمارے پیارے پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ کمال خوش اخلاقی کا مظاہرہ فرماتے ہوئے کبھی کبھی ان کے ساتھ خوش طبعی اور ہنسی مذاق بھی فرماتے لیکن آپ کے مزاح میں حق بات کے سوا کچھ نہ ہوتا۔

 آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنی ازواج کو گزرے ہوئے زمانے کے لوگوں کے قصے سنانا بھی ثابت ہے۔

حضرت سیِّدُنا اَنس  رضی  اللہ  عنہ فرماتے ہیں : حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں میں سب سے بڑھ کر اپنی اَزواج کے ساتھ خوش طبع تھے۔([10])

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ   رضی  اللہ  عنہا  سے مروی ہے کہ آپ کسی سفر میں اپنے سرتاج، صاحبِ معراج  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تھیں فرماتی ہیں کہ میں نے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ دوڑ لگائی تو میں دوڑنے میں آگے نکل گئی پھر (کچھ عرصہ بعد)جب میں ذرا بھاری ہوگئی تو آپ نے دوڑ لگائی تو آپ مجھ سے آگے بڑھ گئے پھر فرمایا: یہ اُس جیت کا بدلہ ہوگیا۔([11])

گھریلو ذمہ داریوں میں ازواجِ مطہرات کے ساتھ تعاون: ہمارے معاشرے میں اگر شوہر بیویوں کے ساتھ گھر کے کام کاج میں مدد کرے تو اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، حالانکہ یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ ہمارے پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم دوجہاں کے شہنشاہ و مالک ہونے کے باوجود اپنے کام اپنے ہاتھ مبارک سے کرنے کے ساتھ ازواج مطہرات کی بھی گھریلو کام کاج میں مدد کیا کرتے تھے۔

امُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ   رضی  اللہ  عنہا  سے سوال ہوا کہ کیا نبیِ کریم، رؤفٌ رحیم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر میں کام کرتے تھے ؟ فرمایا: ہاں آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے نعلین مبارک خود گانٹھتے، اور کپڑوں میں پیوند لگاتے اوروہ سارے کام کیا کرتے تھے جو مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔([12])

ازواجِ مطہرات کو دینی تعلیم دینا:بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو دینی تعلیمات سکھائے۔ حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اپنی ازواج مطہرات کو دینی تعلیمات سے آگاہ فرماتے اور ازواجِ مطہرات بھی وقتاً فوقتاً آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے شرعی مسائل دریافت فرمایا کرتیں۔ ازواجِ مطہرات جہاں دیگر باتوں میں عام خواتین سے ممتاز ہیں وہیں علمِ دین و فقاہت میں بھی کوئی ان کے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور یہ سب آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سکھائی ہوئی تعلیمات کی ہی بدولت ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ   رضی  اللہ  عنہا  کی شانِ فقاہت کا عالم تو یہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ کرام  رضوان  اللہ  علیہم اجمعین آپ کے شاگرد تھے۔

صحابۂ کِرام علیہم الرّضوان کو جب بھی کوئی گھمبیر اور نہ حَل ہونے والامسئلہ آن پڑتا تو اس کے حَل کے لئے آپ   رضی  اللہ  عنہا  کی طرف  رُجُوع لاتے، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوموسیٰ اشعری  رضی  اللہ  عنہ فرماتے ہیں: ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اِشْکَال ہوتا تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ   رضی  اللہ  عنہا  کی بارگاہ میں سوال کرتے اور آپ   رضی  اللہ  عنہا  سے ہی اس بات کا عِلْم پاتے۔([13])

یونہی حضرت ام سلمہ   رضی  اللہ  عنہا  بھی شرعی احکام میں بہت مہارت رکھتی تھیں۔ حضرت سیِّدنا امام شمس الدین محمد بن احمد ذہبی رحمۃُ  اللہ  علیہفرماتے ہیں:”کَانَتْ تُعَدُّ مِنْ فُقَهَاءِ الصَّحَابِیَاتِ یعنی آپ   رضی  اللہ  عنہا  کو فقہا (یعنی شرعی احکام وقوانین کی ماہر) صحابیات میں شمار کیا جاتا تھا۔([14])

ازدواجی زندگی میں اخلاقیات:حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہرہر انداز نرالا اور قابلِ تحسین ہے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلاشک و شبہ بہترین اخلاق کے مالک تھے۔

کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ   رضی  اللہ  عنہا  سے پوچھا: آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنے اہلِ خانہ میں خلق کیسا ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا: آپ کا اخلاق سارے لوگوں سے عمدہ تھا۔ آپ فحش گو نہ تھے، قصداً بھی بری بات نہ کرتے تھے، بازار میں شور کرنے والے نہ تھے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے، بلکہ درگزر فرماتے اور معاف فرماتے تھے۔([15])

یونہی ایک مرتبہ حضرت عائشہ   رضی  اللہ  عنہا   سے رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا جو آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواج کے ساتھ تنہائی  اختیار فرماتے تھے، تو انہوں نے فرمایا: آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی تمہارے مردوں کی طرح ایک انسان تھے، مگر (فرق یہ تھا کہ) آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب لوگوں سے زیادہ باعزت، سب سے بہتر اخلاق والے، اپنی قوم میں سب سے نرم مزاج اور سب سے زیادہ شرافت والے تھے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم خوب ہنستے اور مسکراتے رہتے تھے۔   ([16])

ازواجِ مطہرات کی نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت: جس طرح پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ محبت بھرا سلوک فرماتے اسی طرح ازواجِ مطہرات بھی آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بہت محبت فرماتی تھیں، آپ کی خدمت و اطاعت کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے بخوبی ادا کرتیں، کسی بھی معاملے میں آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رنجیدہ کرنا انہیں گوارا نہ تھا۔ یہ ازواجِ مطہرات کی آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کا واضح ثبوت ہے کہ جب ازواجِ مطہرات کو اختیار دیا گیا کہ وہ دنیاوی آسائشوں کو اختیار کریں یا  اللہ  اور اس کے رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو، تو تمام ازواج مطہرات نے دنیاوی آسائشوں کو ٹھکرا کر  اللہ  اور اس کے رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اختیار کیا۔ آپ کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ   رضی  اللہ  عنہا  نے ہر مشکل گھڑی میں آپ کا ساتھ دیا۔ حضرت سودہ   رضی  اللہ  عنہا  نے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت اور آپ سے جدائی کے خوف سے اپنی باری حضرت عائشہ صدیقہ   رضی  اللہ  عنہا  کو دے دی۔ اسی طرح دیگر ازواج بھی آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بہت محبت فرماتی تھیں۔

ازدواجی تعلقات کو خوشگوار کیسے بنائیں؟پیاری بہنو!آج کل اکثر گھروں میں آئے دن میاں بیوی آپس میں الجھتے، جھگڑتے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ ان سب مسائل کے حل کے لیے پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے باہمی تعلقات میں ہمارے لیے بےشمار مدنی پھول ہیں۔ ایک سمجھدار اور باشعور عورت جھونپڑی کو بھی محل بنا سکتی ہے۔

یاد رکھیے! مکان کا چھوٹا بڑا ہونا، آمدن کم زیادہ ہونا، روزگار کے مسائل ہونا وغیرہ یہ سب عام باتیں ہیں جن سے ہر انسان کا کبھی نا کبھی واسطہ پڑتا ہے۔ اصل چیز محبت، توجہ، احساس اور سکون ہے جو شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے سے چاہیے ہوتا ہے۔ اور اگر شوہر بیوی کے باہمی تعلقات اچھے ہوں تو اس سے گھر کا ماحول بھی خوشگوار ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلامی بہنوں کو بھی چاہیے کہ  اللہ  و رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے، سیرتِ مصطفیٰ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم و ازواجِ مطہرات  رضی  اللہ  عنہن  کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ ٹیچر ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ مجلس جامعۃ المدینہ گرلز



([1])ابن ماجہ، 2/478، حدیث : 1977

([2])الطبقات الکبریٰ،8/109

([3])پ 21، الروم:21

([4])مسلم، ص 1016، حدیث : 6278

([5])ابوداؤد،4/359،حدیث:4898

([6])مسلم، ص138، حدیث : 692

([7])ترمذی، 2 / 374، حدیث : 1143

([8])بخاری، 2 / 173، حدیث : 2593

([9])بخاری،3/470، حدیث:5225، سبل الہدی والرشاد،9/69

([10])فیض القدیر، 5 / 229، تحت الحدیث : 6865

([11])ابوداؤد، 3 /42، حدیث : 2578

([12])مسند امام احمد،9 / 519، حدیث : 25396

([13])ترمذی،ج5، ص471، حدیث: 3909

([14])سير اعلام النبلاء، 3 /475

([15])مسند احمد،43/131،حدیث:25990

([16])سبل الہدیٰ والرشاد،11/147


Share