ختمِ نبوت کا قراٰنی بیان
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے حضرت آدم علیہ السّلام سے جس سلسلۂ نبوت کا آغاز فرمایا تھا وہ نبی ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری کے بعد درجۂ کمال کو پہنچ کر اختتام پذیر ہوگیا، اب قیامت تک آپ علیہ السّلام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، اللہ تعالیٰ نے نبیِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بےشمار ایسی خصوصیات سے سرفراز فرمایا جن میں کوئی دوسرا آپ کا ہمسر نہیں، ان میں سے ایک منفرد خصوصیت ”شانِ ختمِ نبوت“ ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت قراٰن و حدیث کی رو سے ایک متفق علیہ عقیدہ ہے جس پر پوری امت کا اجماع ہے۔ یہ عقیدہ اس قدر قطعیت کے ساتھ ثابت شدہ ہےکہ اس پر مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کا اثبات 100 سے زائد قراٰنی آیات سے ہوتا ہے انہی آیات میں سے 4آیات پیش کی جاتی ہیں:
(1)لفظ خاتم النبیین سے ختمِ نبوت پر استدلال: ﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (پ22، الاحزاب:40)
یہ آیت عقیدۂ ختم نبوت پر نصِ قطعی ہے، اس آیت میں اللہ پاک نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام لے کر بتایا کہ آپ سلسلۂ نبوت کو ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔
سلف صالحین کی تمام تفاسیر میں خاتم النبیین کا معنیٰ آخری نبی لکھا ہے، خاتم کا معنی ہے مہر لگانا،کسی کام کو اس کے انجام تک پہنچا دینا، تمام اہلِ لغت نے بھی خاتم کے معنیٰ آخری لکھا ہے، لہٰذا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آخری نبی ہیں۔
(2)تکمیلِ دین سے ختمِ نبوت پر استدلال: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔(پ6، المآئدۃ: 3)
اسلام وہی دین ہے جو پہلے تمام انبیا لے کر آئے تھے، اب اللہ تعالیٰ نے اسی دین کو مکمل اور کامل شکل میں ہمارے لیے پسند فرما لیا ہے۔ جب دین مکمل ہو گیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا تبدیلی ممکن نہیں رہی۔ یہ آیتِ کریمہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خاتم الانبیاء ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ جب دین مکمل ہو گیاتو اب کسی نئے نبی کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔
(3)لفظ”قَبْلِكَ“ سے ختمِ نبوت پر استدلال: ﴿وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَاِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۚ-﴾ترجَمۂ کنزالایمان: اور بےشک وحی کی گئی تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف۔(پ 24، الزمر: 65)﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے۔ (پ7، الانعام: 42)
یہ آیات اور اس طرح کی متعدد آیات جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہمُ السّلام، ان کی امتوں اور ان پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر فرمایا تو ”مِنْ قَبْلِكَ“ سے فرمایا کسی بھی جگہ ”مِنْم بَعدِكَ“ نہیں فرمایا، اگر نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی نبی کا آنا ممکن ہوتا تو سابقہ انبیا کے ذکر کے ساتھ اس کا بھی ذکر ہوتا چونکہ نبی ِ مکرم علیہ السّلام کے بعد کسی نبی کے آنے کا ذکر نہیں لہٰذا یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
(4)آخری دین سے ختمِ نبوت پر استدلال: ﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)﴾ترجَمۂ کنز الایمان: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے بُرا مانیں مشرک۔ (پ10، التوبۃ: 33)
اس آیتِ مبارکہ سے ظاہر ہے کہ یہ دین تمام ادیان کے بعد آیا اور تمام ادیان کا ناسخ بن کر آیا اور یہ آخری دین ہے، اب قیامت تک یہی دین رہے گا، تمام دینوں پر غالب رہے گا، جب دین آخری ہے تو نبی بھی آخری ہے اور اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، عقیدۂ ختم نبوت وہ عقیدہ ہے کہ جس کی بنیاد پر دینِ اسلام کی عظیم الشان عمارت استوار ہوئی، اسلام کا قلب و جگر روح و جان یہی عقیدہ ہے، اس عقیدے میں معمولی سی لچک یا نرمی انسان کو ایمان کی بلندیوں سے گرا کر ذلت کی پستیوں میں پھینک دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس عقیدے پر قائم اور دائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

Comments