رسول کرم ﷺ کو نور اللہ کہنا کیسا؟مع دیگر سوالات

رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نُوْرُ  اللہ  کہنا کیسا؟

سوال:کیا نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو  اللہ  کا نُوْر کہہ سکتے ہیں؟

جواب:بالکل کہہ سکتے ہیں،قراٰنِ کریم میں  اللہ  پاک نے ارشاد فرمایا:

( قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵))

تَرجَمۂ کنزُ الایمان: بے شک تمہارے پاس  اللہ  کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔

(پ6، المآئدہ:15)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

کئی مُفسّرین([1]) نے اس آیت میں نور سے مراد پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات لی ہے تو یوں  اللہ  پاک نے اپنے محبوب کو نور کہا، آئیے ہم بھی مل کرکہتے ہیں:اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَانُوْرَ  اللہ ۔

(مدنی مذاکرہ، 3ربیع الآخر 1439ھ)

سرکارِ مدینہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اندازِ گفتگو

سوال:نبیِّ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اندازِ گفتگو کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیے؟

جواب:پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر ادا لاجواب ہے، آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گفتگو کا انداز چیخنے چلانے والا نہیں بلکہ ایسا میٹھا اور پیارا ہوتا تھا کہ بات سب کی سمجھ میں آجائے،آواز نہ اتنی دھیمی کہ سامنے والا سُن نہ سکے، نہ اتنی اونچی کہ ناگوار گزرے، بعض اوقات اپنی بات کو تین بار دہراتے تھے تاکہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں اور بولنے کی رفتار ایسی تھی کہ اگر کوئی آپ کے الفاظ گننا چاہے تو گن لے۔

(مدنی مذاکرہ،13رجبُ المرجب1440ھ)

وِلادت گاہِ مصطفےٰ پر دُعا قَبول ہوتی ہے

سُوال:حرمین شریفین کے سفر کے دوران وِلادت گاہِ مصطفےٰ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر آپ کی حاضری کا کیا اَنداز رہا تھا؟ 

جواب: پاؤں سے چَل کر گیا تھا، سَر کے بل جانا میرے بَس میں ہوتا تو یہ بھی کر گُزرتا۔ سرکار  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وِلادت گاہ اَدَب کامقام اور زِیارت گاہ ہے، اُس کا دِیدار کرنا سعادت کی بات ہے۔اُس کے قریب دُعا بھی قَبول ہوتی ہے، کیونکہ جس جگہ سرکارِ مدینہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تشریف لانا ثابت ہو ”مَشْہَد“ کہلاتی ہے اور مَشْہَد (یعنی تشریف لانے کی جگہ) کے پاس دُعا قَبول ہوتی ہے۔(فضائلِ دُعا، ص136ماخوذاً) وِلادت گاہ تو وہ مقام ہے جہاں آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم دُنیا میں سب سے پہلے تشریف لائے، یُوں وہ قَبولیتِ دُعا کا مقام ہے۔  اللہ  پاک ہمیں بار بار اُس مقدَّس مقام کی زِیارت نصیب فرمائے۔

(مدنی مذاکرہ،4 ربیع الاوّل 1441ھ بتغیر)

حُضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اطاعت ربِّ کریم کی اطاعت ہے

سوال:کیا حُضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت عین اطاعتِ الٰہی ہے؟

جواب:جی ہاں! خود  اللہ  کریم قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

(مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ--)

تَرجَمۂ کنزُ الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بےشک اُس نے  اللہ  کا حکم مانا ۔

(پ5، النسآء: 80)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نماز کے دوران بھی اگر نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلائیں تو جواب دینا ہوگا اور یہ بھی قراٰنِ کریم سے ثابت ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ--)

تَرجَمۂ کنزُ العِرفان: اے ایمان والو!  اللہ  اور رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

 (پ9، الانفال: 24)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 اور اس سے نماز بھی نہیں ٹوٹے گی۔ (مرقاۃ المفاتیح، 4/624، تحت الحدیث:2118-مراٰۃ المناجیح، 3/224) حدیثِ پاک میں بھی نماز میں بلانے کا ذکر موجود ہے۔([2])

(مدنی مذاکرہ، 3ربیع الاوّل 1440ھ)

ہر پیاری چیز سے بڑھ کر حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرنا

سُوال: پیارے نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کتنی محبت کرنی چاہئے؟

جواب:پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنے ماں باپ، آل اَولاد اور ہر پیاری چیز سے بڑھ کر محبت کرنا ضَروری ہے۔ ”خطباتِ رَضویہ“ میں ہے: اَلَا لَآ اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا مَحَبَّۃَ لَہ یعنی خبر دار! اس کا اِیمان نہیں جس کو سرکار  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت نہیں۔(خطباتِ رضویہ، ص6، دلائل الخیرات، ص47-مدنی مذاکرہ،9 ربیع الآخر 1441ھ)

نُقُوشِ اُلفتِ دنیا مِرے دل سے مٹا دینا

مجھے اپنا ہی دِیوانہ بنانا یَارَسُوْلَ  اللہ

(وسائلِ بخشش مرمم، ص327)

اُمّتی اُمّتی لَب پہ جاری رہا

سوال:پیارے آقا کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسم شریف کو جب قبر مبارک میں اُتار دیا گیا تو اس وقت مبارک ہونٹوں پر کیا الفاظ تھے؟

جواب: مَدارِجُ النُّبُوۃ میں ہے:حضرتِ سیِّدُنا قُثَم  رضی  اللہ  عنہ وہ شخص تھے جو آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو قبرِانور میں اُتارنے کے بعد سب سے آخِر میں باہَر آئے تھے، چُنانچِہ ان کا بیان ہے کہ میں ہی آخِری شخص ہوں جس نے حُضُورِ انور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رُوئے مُنوَّر، قبرِ اَطہر میں دیکھا تھا، میں نے دیکھا کہ سلطانِ مدینہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم قَبْرِ انور میں اپنے لبہائے مبارَکہ کوجُنبِش فرما رہے تھے (یعنی مبارَک ہونٹ ہل رہے تھے) میں نے اپنے کانوں کو  اللہ  پاک کے پیارے حبیب  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دَہَن (یعنی منہ) مبارَک کے قریب کیا، میں نے سناکہ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے تھے ربِّ اُمَّتِی اُمَّتِی (یعنی پروردگار! میری اُمّت میری اُمّت)۔

(مدارج النبوۃ، 2/442-مدنی مذاکرہ،4ربیع الآخِر 1439ھ)

پہلے سجدہ پہ روزِ اَزل سے دُرود

یادگاریِ اُمّت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش، ص305)

پُھولے نہیں سَماتے ہیں عطّار آج تو

سُوال:اِس شعر کی وَضاحت فرمادیجئے:

پُھولے نہیں سَماتے ہیں عطّار آج تو

دُنیا میں آج حامیِ عطّاؔر آگئے

(وسائلِ بخشش مرمم، ص512)

جواب:”پُھولے نہیں سَمانا“ ایک مُحاوَرہ ہے، جسے بہت زیادہ خوشی ہورہی ہو اُس کے لئے یہ مُحاوَرہ بولا جاتا ہے۔ اِس شعر کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ جب کسی کا پیارا اور مَحبوب آتا ہے تو اُسے بہت خوشی ہوتی ہے اور آج (یعنی 12ربیعُ الاوّل کو)  اللہ  کے پیارے،  اللہ  کے مَحبوب اور غَم خوارِ اُمّت  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے ہیں اِس لئے آج ”عطّاؔر“([3]) بہت خوش، بہت خوش اور بہت خوش ہے کہ اس کے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آج وِلادَت ہوئی ہے۔

(مدنی مذاکرہ،4ربیع الاول 1441ھ)


([1])امام ابوجعفر محمد بن جَرير طَبری (وفات:310ھ)، امام ابومحمد حسین بغوی (وفات: 510ھ)، امام فخرُالدّین رازی (وفات:606ھ)، امام ناصرُالدّین عبد اللہ  بن عمر بَیضاوی (وفات: 685ھ)، علّامہ ابوالبرکات عبد اللہ  نَسفی (وفات: 710ھ)، علّامہ ابوالحسن علی بن محمد خازِن (وفات:741ھ)، امام جلالُ الدّین سُیُوطی شافعی (وفات:911ھ) رحمۃ  اللہ  علیہم اَجْمعین وغیرہ مفسرین نے فرمایا کہ اس آیتِ مبارکہ میں موجود لفظ ”نور“ سے مراد نبیِّ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ذاتِ بابرکات ہے۔ حدیثِ پاک میں نور والے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت جابر بن عبد اللہ  رضی  اللہ  عنہ  سے فرمایا:اے جابِر! بے شک  اللہ  پاک نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔(الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنف لعبدالرزاق، ص63، رقم:18، المواھب اللدنیہ، 1/36)

([2])بخاری شریف میں ہے:حضرت ابوسعید بن مُعَلَّی  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں کہ میں مسجدِ نبوی میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسُولِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بلایا، لیکن میں آپ کے بلانے پر حاضر نہ ہوا۔(نماز سے فارغ ہونے کے بعد) میں نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: یَارسولَ  اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ سرکارِ دو عالَم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: کیا  اللہ  پاک نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ ﴿اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ  اللہ  اور رسول کے بلانےپر حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں بلائیں۔(بخاری، 2/163، حدیث: 4474)

([3])امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا تخلص ”عطّاؔر“ ہے۔ تخلص:شاعر کا وہ مختصر نام جسے وہ اپنے اشعار میں استعمال کرتا ہے۔ (فیروراللغات، ص376)


Share