آمدِ مصطفےٰ ﷺ کے قرآنی مقاصد (قسط:01)
انبیائے کرام کی بعثت درحقیقت انسانیت کے لیے ربّانی رحمت ہے جو جہالت کے اندھیروں، ظلم کی گرفت، شرک کی گمراہی اور اخلاقی زوال سے نجات کا ذریعہ بنی۔ انبیائے کرام علیہم السلام اپنی امتوں کو اللہ وَحدہ لاشریک کے دَر پر جھکنے کی تعلیم دیتے رہے اور گمراہی سے بچاتے رہے، ہدایت و راہنمائی کے نبوی سلسلے کا اختتام حضور نبیِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ہوا،آپ دونوں جہاں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے، آپ کی بعثت نہ صرف عرب بلکہ تمام عالمِ انسانیت کے لیے ایک انقلابی رحمت تھی۔ قراٰنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کے متعدد واضح اور جامع مقاصد بیان فرمائے، جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہدایت کا روشن مینار ہیں۔
انسانیت کو اللہ کی طرف بلانا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت، عبادت اور بندگی کے لیے پیدا کیا۔تاہم انسان کی فطری کمزوری، خواہشاتِ نفس اور خارجی اثرات کی بنا پر لوگ بارہا اللہ کی بندگی سے ہٹتے رہے۔ چنانچہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے انبیا کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ انسانوں کو ربّ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیں، انہیں شرک و گمراہی سے نکال کر توحید و ہدایت کی طرف لائیں۔ حضور نبیِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کا بھی یہ ایک اہم مقصد ہے۔
قراٰن مجید میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس مقصدِ بعثت کو یوں بیان فرمایا گیا:
(یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) )
ترجَمۂ کنزالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا ا ٓفتاب۔ ([1])
(اس
آیت کی مزید
وضاحت کے لئے
یہاں کلک
کریں)
ان آیات میں
رسول اکرم
صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو
جن صفات کے
ساتھ متعارف
کروایا گیا،
ان میں سے ایک وصف
”داعیًا الی
الله“ یعنی ”
اللہ کی
طرف بلانے
والا“ ہے۔ اور
یہ دعوت ایسی
دعوت ہے جو اللہ
کے اذن اور
حکم سے ہے، نہ
کہ کسی ذاتی
مفاد، سیاسی
نظریے یا قومی
تعصب کی بنیاد
پر۔ اسی دعوت
کی وضاحت رسول
اللہ
صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے
اپنے اس ارشاد
میں کی جو قراٰن
ہی نے نقل کیا:
(قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ﱘ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْؕ-)
ترجَمۂ
کنزُ الایمان: تم فرماؤ یہ
میری راہ ہے
میں اللہ کی طرف
بلاتا ہوں میں
اور جو میرے
قدموں پرچلیں
دل کی آنکھیں
رکھتے ہیں۔([2])
(اس
آیت کی مزید
وضاحت کے لئے
یہاں کلک
کریں)
قرآن کریم نے اس دعوت کی فضیلت کو بھی بیان فرمایا ہے:
( وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے۔([3])
قرآنِ کریم
اور حکمت کی
تعلیم
(اس
آیت کی مزید
وضاحت کے لئے
یہاں کلک
کریں)
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کا ایک مرکزی مقصد قراٰن مجید نے بار بار بیان کیا ہے، اور وہ ہے:کتاب اللہ اور حکمت کی تعلیم دینا۔ یعنی انسانیت کو وحیِ الٰہی کی روشنی میں علم عطا کرنا، انہیں فکری گمراہیوں، جاہلانہ رسوم، باطل عقائد اور یہود و نصاریٰ کی تحریف شدہ تعلیمات سے نکال کر ایسی تعلیم دینا جو اللہ کی طرف سے ہو، جامع ہو، واضح ہو، اور انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو سنوارنے والی ہو۔
قراٰن مجید کی متعدد آیات میں یہ مقصد نہایت وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سورۃ الجمعۃمیں فرمایا گیا:
(هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-)
ترجَمۂ کنزالایمان:وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجاکہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں۔([4])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سورۃالبقرۃ کی آیت 129 پڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صورت میں اہل عرب بلکہ سارے جہان کو جو نعمت ملی ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا کا ثمر ہے، اور آپ کی دعا میں یہ بھی شامل تھا کہ نبیِ آخرالزماں لوگوں کو کتاب اللہ اور حکمت کی تعلیم دیں چنانچہ سورۃ البقرہ میں ہے:
(رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے۔([5])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور پھر اسی دعا کی قبولیت سورۃ اٰلِ عمران آیت 164میں مذکور ہے:
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴))
ترجَمۂ
کنز الایمان:بے
شک اللہ کا
بڑا احسان ہوا
مسلمانوں پر
کہ ان میں
انہیں میں سے ایک
رسول بھیجا جو
ان پراس کی
آیتیں پڑھتا
ہےاور انھیں پاک
کرتا اور
انھیں کتاب و
حکمت
سکھاتاہے اور
وہ ضرور اس سے
پہلے کھلی
گمراہی میں
تھے ۔([6])
(اس
آیت کی مزید
وضاحت کے لئے
یہاں کلک
کریں)
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےحکمِ الٰہی کے مطابق قراٰن کی تعلیم دی اور دانائی و حکمت سکھائی، بلکہ حکمت کی اہمیت کو ”اَلْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ“([7])فرما کر ہر مسلمان کے لیے اجاگر فرمایا۔
یہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیم وتربیت اورحکمت و دانائی ہی تھی کہ مسلمان چند ہی سالوں میں اسلام کا پیغام لے کر 22لاکھ مربع میل سے بھی آگے پہنچ گئے۔
یہ تعلیم صرف الفاظ کی ادائیگی یا کتاب خوانی نہ تھی بلکہ ایک جامع فکری، روحانی اور عملی تربیت تھی۔ جسے مفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ نے نفس کی قوتِ عملیہ و علمیہ کی تکمیل سے تعبیر فرمایا ہے۔([8]) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن کی تعلیم کو دلوں میں راسخ کیا اور اس پر عمل کا شعور پیدا کیا، اور امت کے لیے ایک زندہ مثال بن کر خود اس تعلیم کا عملی نمونہ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ” كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ “یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اخلاق قراٰن تھا۔([9])
تعلیمِ قراٰن و حکمت کو صرف اپنی ذات سے ہی وابستہ نہ رکھا بلکہ امت کو قرآن کریم سکھانے اور آگے پہنچانے کی ترغیب دلائی، ذہن سازی فرمائی یہاں تک کہ امت نے قراٰنِ کریم کی حکمت بھری تعلیمات کو ہزاروں تفاسیر کی صورت میں عام کیا۔
تزکیۂ نفس و اخلاقی تربیت
انسانی وجود صرف جسم و عقل کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس میں ایک باطن بھی ہے۔ جسے روح، قلب، نفس سے تعبیر کیا جاتا ہے، اگر یہ باطن پاک ہو تو انسان خیر، عدل، اخلاص اور انسانیت کی راہ پر گامزن ہوتا ہے؛ اور اگر یہ باطن فاسد ہو جائے تو انسان خواہ کتنی بھی عقل یا طاقت رکھتا ہو، وہ فساد، ظلم اور خودپرستی کی دلدل میں گرتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت کا ایک بنیادی ہدف تزکیہ یعنی انسان کے نفس اور روح کو پاک کرنا، اس کے اخلاق کو سنوارنا اور اسے طہارتِ باطن سے روشناس کرانا تھا۔ بعینہٖ یہی مقصد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کا بھی ایک مستقل اور نمایاں پہلو ہے۔
قراٰنِ مجید میں متعدد مقامات پر ”تزکیہ“ کو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کے مقصد کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے، سورۃ البقرۃ کی آیت 151 میں فرمایا:
(كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ(۱۵۱))
ترجَمۂ کنز الایمان: جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سےکہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔([10])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یہاں ”یُزَكِّيكُمْ“ یعنی ”تمہیں پاک کرتا ہے“ کو ”تلاوت“ اور ”تعلیم“ کے درمیان الگ اور مستقل طور پر ذکر کیا گیا، جو اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی مفہوم کو سورۃ الجمعہ، سورۃ اٰل عمران، اور سورۃ البقرہ میں بھی بتایا گیا ہے۔ ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ بعثتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صرف علمی پہلو نہیں بلکہ روحانی اصلاح اور اخلاقی تربیت بھی اس مشن کا بنیادی رکن ہے۔
تزکیہ کا مفہوم قرآن کی روشنی میں وسیع ہے۔اس میں ایمان کی تقویت، شرک سے نجات، دل کی صفائی، نیت کی اصلاح، اعمال میں خلوص، زبان کی پاکیزگی، نظر کی حیا، نفس کی تہذیب، اور اخلاقِ حسنہ کی تربیت شامل ہے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی اس تزکیے کا جیتا جاگتا نمونہ تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْاَخْلَاقِ([11])مجھے تو اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہ حدیث تزکیہ کی جامع ترین تعبیر ہے، جس میں اخلاقی تطہیر، معاشرتی اصلاح، باطنی صفائی اور اعلیٰ کردار کو نبوت کا مقصد قرار دیا گیا۔
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت ابھرتی ہے کہ آپ نے بدترین اخلاق میں مبتلا افراد کو بہترین انسانوں میں تبدیل کر دیا۔جو لوگ جھوٹ، شراب، زنا، جہالت،ظلم، انتقام، تعصب اور مال پرستی میں ڈوبے ہوئے تھے، وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت و تعلیم سے سچائی، حیاء، عفت، عدل، تقویٰ، رواداری اور سخاوت کی علامت بن گئے۔
آج کے دورِ مادیت میں جب تعلیم تو ہے مگر تربیت نہیں، معلومات تو ہیں مگر اخلاق ناپید، ترقی تو ہے مگر روحانی سکون عنقا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نبوی تزکیہ کے اصولوں کو انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی نظام تک نافذ کریں، تاکہ انسانیت فتنوں سے نکل کر طہارت، محبت، امن، اور نور کی طرف لوٹے۔
فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی
آمدِ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک اہم اور بنیادی مقصد تبلیغِ پیغامِ الٰہی ہے۔ یعنی جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوا، اسے پوری دیانت، وضاحت اور استقامت کے ساتھ، بغیر کسی خوف، لالچ یا مصلحت کے لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔
قرآن مجید میں اس فریضہ کو بڑی عظمت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ المآئدہ کی آیت 67 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷))
ترجَمۂ کنز الایمان: اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بے شک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔([12])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تبلیغ کوئی عام عمل نہیں بلکہ منصبِ رسالت کا عین جوہر ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو محض کتاب لینے والا یا حاملِ وحی نہیں بنایا گیا، بلکہ اس وحی کو لوگوں تک پہنچانے والا، اور وہ بھی بلاخوف و بلاکمزوری، بنایا گیا۔
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری سیرت اس آیت کی عملی تفسیر ہے۔ مکہ کی گھٹن، طائف کی سنگباری، بدر و اُحد کی خونریزی، منافقین کی سازشیں، یہود کی عیاری، مشرکین کی دشمنی، اور قریش کا شدید ردّعمل، ان سب کے باوجود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبلیغ کا فریضہ جاری رکھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تنہائی میں بھی تبلیغ کی، مجمع میں بھی، حج کے میدانوں میں بھی، بازاروں میں بھی، اور کفار کے سرداروں، قبائلی وفود، بادشاہوں، اور عام لوگوں تک بھی۔ تبلیغ کی وسعت اور جامعیت کا یہ عالم تھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ صرف قریش اور اہلِ مکہ کو، بلکہ روم و فارس کے سلاطین کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی۔
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس منصب اور مقصد بعثت کو کئی آیات میں بیان فرمایا گیا ہے، سورۃ النحل کی آیت 82 میں فرمایا:
(فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۸۲))
ترجَمۂ کنز الایمان: تو اے محبوب تم پر نہیں مگر صاف پہنچا دینا۔([13])
(اس
آیت کی مزید
وضاحت کے لئے
یہاں کلک
کریں)
اور سورۃ
النّٰزِعٰت میں ہے :
(اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىهَاؕ(۴۵))
ترجمۂ کنزالایمان:تم
تو فقط اُسے
ڈرانے والے ہو
جو اس سے ڈرے۔
(اس آیت
کی مزید وضاحت
کے لئے یہاں
کلک کریں)
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس ذمہ داری کو اس کمال کے ساتھ ادا فرمایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لاکھوں صحابہ کے مجمع میں فرمایا: ”هَلْ بَلَّغْتُ؟“ کیا میں نے (پیغام) پہنچا دیا؟تو سب نے جواب دیا: ”نعم“جی ہاں۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ“اے اللہ ! تو گواہ رہ۔([14])
تبلیغ کی اس ذمہ داری میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی استقامت اور اخلاص کا یہ عالم تھا کہ قرآن نے فرمایا:
(لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(۳))
ترجَمۂ
کنزُالایمان: کہیں تم
اپنی جان پر
کھیل جاؤ گے
اُن کے غم میں کہ
وہ ایمان نہیں
لائے۔([15])
(اس آیت
کی مزید وضاحت
کے لئے یہاں
کلک کریں)
الحمدللہ ہم نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سچے امتی اور پیروکار ہیں تو ہمیں بھی اپنی استعداد، علم، کردار اور ذرائع کے مطابق پیغامِ الٰہی کو واضح، حکیمانہ اور مؤثر انداز میں دوسروں تک پہنچانا ہو گا۔ یہی بعثت کی تکمیل ہے، یہی نبوی امانت کا حق ہے، اور یہی قیامت کے دن ہماری نجات کی بنیاد بن سکتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments