آمدِ مصطفےٰ ﷺ کے قرآنی مقاصد (قسط : 02)

آمدِ مصطفےٰ کے قراٰنی مقاصد(قسط:02)

قراٰن کی تلاوت

اَنبیائے کِرام کی بعثت کا ایک نُمایاں مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ  اللہ  کے نازل کردہ کلام کو انسانوں تک پہنچائیں۔ حضور نبیِ رحمت  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو بھی یہ فریضہ سونپا گیا اور اسے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مقاصدِ بعثت میں شمار فرمایا چنانچہ    قراٰنِ کریم میں کئی مقامات پر نبی ِکریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کے جن فرائض کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں ”تلاوتِ آیات“ کو نہایت نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ سورۃُ البقرۃ میں ارشاد ہوتا ہے:

رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ

 ترجَمۂ کنزالایمان  : اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے۔ ([1])

یہ دُعا حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے کی تھی جسے  اللہ  کریم نے قبول فرمایا اور اپنا پیارا محبوب  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مکہ مکرمہ میں مبعوث فرمایا، چنانچہ سورۃُ اٰلِ عمرٰن میں ہے: لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ

ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک  اللہ  کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے۔([2])

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جب بھی کوئی نئی وحی نازل ہوتی، آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے فوری طور پر لوگوں کو سناتے۔ کئی مواقِع پر قراٰن نے خود اس عمل کو بیان کیا۔ مثلاً سورۃُ القیامۃ میں ہے:

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ(۱۶) اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ(۱۷)

ترجَمۂ کنزالایمان  : تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو بیشک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔([3])

آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تلاوت، وقار، ترتیب، ٹھہراؤ اور تاثیر صحابہ کے دلوں کو لرزا دیتا تھا۔ حضرت عبدُ اللہ  بن مسعود، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت جیسے قاریانِ وحی آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے براہِ راست قراٰن سنتے اور آگے امت کو پہنچاتے۔

تِلاوتِ رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی یہ خصوصیت محض اَدائیگیِ کلمات نہ تھی بلکہ ایک دعوتی عمل تھا جس میں حکمت، تدبُّر، تعلیم، اِصلاح اور بصیرت شامل تھی۔ سورۂ بنیٓ اسرآءیل میں  اللہ  تعالیٰ نے فرمایا:

وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ

ترجَمۂ کنز الایمان: اور قرآن ہم نے جدا جدا کر کےاُتارا کہ تم اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔([4])

رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تلاوتِ قراٰن میں ایسی تاثیر تھی کہ کفّار بھی بعض اوقات چُھپ کر سنا کرتے اور ایک بار سورۃُ النجم کی تلاوت پر کفّارِ مکّہ بھی سجدے میں جا گرے، ایک مرتبہ کفّارِ مکّہ نے عُتبہ بن رَبیعہ کو رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے بات کرنے اور اسلام کی تبلیغ روکنے پر آمادہ کرنے کے لیے بھیجا، جب اس نے اپنا مُدّعا بیان کردیا تو رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سورۂ حٰمٓ السجدۃ کی تلاوت شروع فرمادی۔ آپ تلاوت فرماتے رہے اور عُتبہ تعجب خیز انداز میں اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے آپ کو دیکھتا رہا اور آپ کی تلاوت سنتا رہا، جب آپ اس آیت

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَؕ(۱۳)

(ترجَمۂ کنز الایمان: پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑک سے جیسی کڑک عاد اور ثمود پر آئی تھی۔)

پر پہنچے تو عتبہ نے اپنا ہاتھ آپ کے دہن مبارک پر رکھ دیا اور آپ کو قسم دے کر کہنے لگا: آپ آگے نہ پڑھیں ہم پر رحم فرمائیں۔ اسے ڈر ہوا کہ کہیں قوم عاد و ثمود کی طرح یہاں بھی کوئی عذاب نہ آجائے، اس کے بعد بھی آپ نے تلاوت جاری رکھی۔ آیتِ سجدہ پڑھنے کے بعد آپ نے سجدۂ تلاوت بھی ادا فرمایا، اس کے بعد ختمِ سورہ تک تلاوت فرمائی اور عتبہ سے فرمایا کہ اے عتبہ! تمہیں جو سننا تھا وہ سن چکے، باقی تمہیں اختیار ہے۔ عتبہ جب آپ کے پاس سے رخصت ہوا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔([5])

اتمامِ حجت اور کلمۂ حق کی سربلندی

بعثتِ رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ایک نہایت اہم اور فیصلہ کن مقصد یہ تھا کہ باطل کے خلاف مکمل اتمامِ حجت ہو جائے اور حق کا بول بالا ہو۔ قراٰنِ کریم واضح کرتا ہے کہ رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت اور آپ کے وعظ و نصیحت اور اخلاقی تعلیمات میں ایک فیصلہ کُن حجت تھی، جن کے ذریعے  اللہ  تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے حق و باطل میں فرق واضح کر دیا۔ اس کے بعد کسی کے لیے عذر باقی نہیں رہتا اور پھر جو حق کو قبول نہ کرے، وہ خود اپنی ضد اور گمراہی کا ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵)

ترجَمۂ کنزالایمان :اور ہم عذاب کرنے والے نہیں جب تک (ہم ان میں) رسول نہ بھیج لیں۔([6])

اسی طرح سورۃ النسآء میں فرمایا:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-

ترجَمۂ کنزالایمان : رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد  اللہ  کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے۔([7])

یہی اتمامِ حجت بعثتِ محمدی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ذریعے اپنے کمال کو پہنچا، جیسا کہ سورۃُ الصَّف میں فرمایا گیا:

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۠(۹)

ترجَمۂ کنزالایمان : وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے بُرا مانیں مشرک۔([8])

یہ آیات صاف بتاتی ہیں کہ نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی آمد مبارَک کا مقصد باطل پر حجّت قائم کرنا اور حق کو غالب کرنا تھا۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے عملی میدان میں ظلم، شرک، جہالت اور استِبداد کے خلاف جہاد کیا، معاشرتی و قانونی نظام قائم کیا اور  اللہ  کے دین کو عملی شکل دی۔

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہ حجّت نہ صرف عربوں پر، بلکہ یہود، نصاریٰ، منافقین، مشرکین اور دنیا کی بڑی تہذیبوں پر بھی قائم کی۔ سورۃ الفرقان میں رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ”اَلفرقان“ یعنی حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والے قراٰنِ کریم کا مقصدِ نُزول فرمایا گیا:

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ ﰳاۙ (۱)

ترجَمۂ کنزالایمان : بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اُتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سُنانے والا ہو۔([9])

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ذریعے اِتمامِ حجّت کا یہ عمل مکمل ہوا، جیسا کہ سورۃُ المآئدۃ میں فرمایا گیا:

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵ (یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ

ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک تمہارے پاس  اللہ  کی طرف سے ایک نور(نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) آیا اور روشن کتاب  اللہ  اس سے ہدایت دیتا ہے اُسے جو  اللہ  کی مرضی پر چلا سلامتی کے راستے۔([10])

نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اتمامِ حجّت کی سب سے بڑی مثال آپ کی وفات سے پہلے کا خطبۂ حجۃُ الوَداع ہے، جس میں آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟سن لو! کیا میں نے (پیغام) پہنچا دیا؟ سب صحابہ نے کہا:نَعَمْ! تو آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ یعنی اے  اللہ ! گواہ رہ۔([11])

آج بھی مسلمان اسی مقصدِ بعثتِ رسول کے وارث ہیں۔ دعوت، اِبلاغ، عَدل، حکمت اور استِقامت کے ذریعے انہیں حق کی بالادستی قائم کرنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ حق، اَمن، انصاف اور ہدایت کہاں ہے۔

کِتمانِ حق کا پردہ چاک کرنا اور نورِ وحی کا ظہور

جب دنیا افقِ تاریخ پر باطل کی دھند میں گم ہو چکی تھی اور اہلِ کتاب کی وہ جماعتیں، جن پر  اللہ  تعالیٰ نے اپنے اَنبیاء اور صحائف بھیجے تھے، ہدایت کے نگہبان کی بجائے خود گمراہی کا سبب بن چکی تھیں، تب  اللہ  تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفٰے  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ایک ایسا رسول بنا کر بھیجا جو کِتمانِ حق کے پردے چاک کرتا ہےاور وحی کی روشنی کو ہر جانب پھیلا دیتا ہے۔

اہلِ کتاب، خاص طور پر یہود و نصاریٰ، وہ قومیں تھیں جنہیں  اللہ  نے تورات اور انجیل کی شکل میں ہدایت عطا فرمائی تھی۔ مگر ان اقوام نے انبیائے کرام کے پیغام کو چھپایا، اس میں من پسند تاویلات کیں اور رسولِ آخِرُ الزّمان  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی آمد کی وہ واضح نشانیاں جو ان کی کتابوں میں درج تھیں، انہیں پردۂ تعصب اور حسد کے نیچے دفن کر دیا۔ قراٰنِ مجید ان کے اس طرزِ عمل کی پرزور مذمّت کرتا ہے اور فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِۙ-اُولٰٓىٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ(۱۵۹)

ترجَمۂ کنزالایمان : بےشک وہ جو ہماری اُتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لیے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ان پر  اللہ  کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت۔([12])

یہی کتمان اور تحریف جب دین کے نام پر پھیلنے لگے تو  اللہ  تعالیٰ نے رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مبعوث فرمایا اور آپ کو وہ نور عطا فرمایا جس کے ذریعے حق کو واضح کرنا اور چھپائے گئے دین کو نُمایاں کرنا ممکن ہوا۔  اللہ  تعالیٰ نے فرمایا

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)

ترجَمۂ کنزالایمان : اے کتاب والو بےشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی مُعاف فرماتے ہیں بےشک تمہارے پاس  اللہ  کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔([13])

یہاں ”نُور“ سے مراد رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ذاتِ اقدس ہے اور ”کتابِ مبین“ سے مراد قراٰنِ مجید۔ رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نہ صرف ایک مبلغ تھے بلکہ ”ظلمات“ کو چیرنے والا چراغِ ہدایت تھے، جن کی نظر باطن تک جاتی تھی اور جن کی زبان وحی کے مطابِق صداقت کی روشنی پھیلاتی تھی۔

قراٰنِ مجید نے ان تمام پہلوؤں کو، جنہیں اہلِ کتاب نے یا تو چھپایا تھا یا مسخ کر دیا تھا، نہایت واضح انداز میں دوبارہ اُجاگر کیا۔ رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ذریعے  اللہ  تعالیٰ نے وہ علم لوگوں کو عطا کیا جس سے وہ آزادانہ طریقے سے حق اور باطِل میں تمیز کر سکیں۔ فرمایا:

وَ  اِذْ  اَخَذَ  اللّٰهُ  مِیْثَاقَ  الَّذِیْنَ  اُوْتُوا  الْكِتٰبَ  لَتُبَیِّنُنَّهٗ  لِلنَّاسِ   وَ  لَا  تَكْتُمُوْنَهٗ٘-فَنَبَذُوْهُ  وَرَآءَ  ظُهُوْرِهِمْ

ترجَمۂ کنزالایمان : اور یاد کرو جب  اللہ  نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضَرور اسے لوگوں سے بیان کردینا اور نہ چھپانا تو انہوں نے اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔([14])

جب اہلِ کتاب نے یہ عہد توڑا، تب رسالتِ محمدی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس خَلاء کو پورا کیا۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نہ صرف حق کو ظاہر کرنے والے تھے بلکہ آپ نے رَحم، حکمت اور حِلم کے ساتھ ان لوگوں کو ہدایت دی، جنہوں نے سچّائی کو جھوٹ میں گم کر دیا تھا۔

نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی آمد کے اس عظیم مقصد کا تقاضا ہے کہ آج اُمّت بھی حکمت، علم، نرمی اور استِقامت کے ساتھ حق کو ظاہر کرے، جیسا کہ رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کیا تھا۔ یہی اس اُمّت کا شرف ہے، یہی اس کا فرض اور یہی اس کا فلاح کا راستہ۔(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])پ1،البقرۃ: 129

([2])پ4،آل عمرٰن: 164

([3])پ29،القیٰمۃ:16، 17

([4])پ15،بنیٓ اسرآءیل:106

([5])دلائل النبوۃ للبیہقی،2/203

([6])پ15، بنیٓ الاسرآءیل: 15

([7])پ6، النسآء:165

([8])پ28، الصف: 9

([9])پ18، الفرقان:1

([10])پ6المآئدۃ: 15، 16

([11])بخاری، 3/140، حدیث:4403

([12])پ2، البقرۃ: 159

([13])پ6، المآئدۃ:15

([14])پ3، اٰل عمرٰن:187


Share