حضرت مولانا سیداحمد اشرف کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ

خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا سیّد احمد اشرف کچھوچھوی  رحمۃُ اللہِ علیہ

خلیفہ و تلمیذِ اعلیٰ حضرت، سلطانُ الواعظین علامہ سید ابوالمحمود احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی ایک جید عالمِ دین، ماہرِ معقول و منقول، مدرسہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے استاذ، سحر بیان خطیب، مادرزاد ولی، صاحبِ کرامات، ہزاروں مریدوں کے شیخِ طریقت اور آستانہ عالیہ اشرفیہ حسنیہ کچھوچھہ شریف،ضلع امبیڈکر نگر، اترپردیش،ہندکے جانشین تھے۔ آپ خوفِ خدااورعشقِ مصطفےٰ ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )کے پیکراور اخلاقِ حسنہ سے متصف تھے۔ ساری زندگی بے لوث اشاعتِ دینِ متین کے لیے کمربستہ رہے۔ آپ کا وصال 15 ربیع الآخر 1347ھ کو ہوا۔ اس سال ربیعُ الآخر 1447ھ کو آپ کے وصال کو ایک صدی مکمل ہو رہی ہے۔ اسی موقع پر آپ کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

پیدائش، نام اور القابات:

آپ کا نام احمد اشرف، کنیت ابوالمحمود اور القابات سلطانُ الواعظین، عالمِ ربانی، شیخِ طریقت اور مناظرِ اسلام ہیں۔آپ کی ولادت 4 شوال 1286ھ مطابق 7 جنوری 1870ء کو آستانہ عالیہ کچھوچھہ شریف میں ہوئی۔ ولادت سے قبل ہی آپ کے والدِ گرامی کو غوثُ الاعظم سید عبدالقادر جیلانی نے ایک باکمال فرزند کی خوشخبری دی تھی۔

آباء و اجداد:

آپ کے والدِ گرامی شیخُ المشائخ، شبیہِ غوث الاعظم پیر سید علی حسین اشرفی تھے اور آپ کے تایا و سسر اشرفُ الاولیاء پیرسید اشرف حسین اشرفی تھے۔ اس خانوادے کے جدِّ اعلیٰ حضرت سید عبدالرزاق نور العین (خلیفۂ اعظم و جانشینِ سلطان الاولیاء مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی، بانیِ خانقاہ کچھوچھہ مقدسہ) ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب دس واسطوں سے حضور غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔

تعلیم و تربیت:

جب آپ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن ہوئی تو خاندانی روایت کے مطابق بسمِ اللہ خوانی کا اہتمام شان و شوکت سے کیا گیا۔ یہ سعادت غوثِ زمانہ حضرت علامہ آل احمد پھلواروی محدث بہاری (مدفون جنت البقیع) کو حاصل ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آپ نے گھر پر حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے۔ والدِ گرامی آپ کو لے کر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا:غوث الثقلین کے اس پوتے کو آپ پڑھا دیں۔ آپ نے وہاں شعبان 1301ھ مطابق جون 1884ء تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں گورکھپور میں استاذ العلماء حضرت مولانا ابو الخیر معین الدین الٰہ آبادی سے اکتسابِ علم کیا۔1302ھ میں دارالعلوم کانپور میں استاذِ زمن علامہ احمد حسن کانپوری کے شاگرد بنے اور معقولات میں مہارت حاصل کی۔ 1307ھ میں جب استاذِ زمن حج کے لیے روانہ ہوئے تو انہوں نے آپ کو استاذالکل مفتی لطف اللہ علیگڑھی کے سپرد کیا۔ آپ نے بقیہ درسی کتب کی تکمیل ان ہی سے کی۔قیامِ علیگڑھ کے دوران 1310ھ میں خواب میں نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت ہوئی۔ اسی خواب میں حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کے سرِ مبارک پر دستار باندھی۔

بیعت و خلافت:

زمانۂ طالبِ علمی میں ہی آپ نے اپنے والدِ ماجد کے دستِ حق پرست پر 23 رمضانُ المبارک 1309ھ کو بیعت کی۔ 1327ھ میں والدِ گرامی نے آپ کو اپنا ولیِ عہد و جانشین مقرر فرمایا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا۔ یوں آپ شاگرد و خلیفۂ اعلیٰ حضرت ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔اعلیٰ حضرت کو اس خاندان سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔ ایک بار آپ نے اپنے بھانجے، داماد اور خلیفہ محدثِ اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی (اس وقت وہ طالب علم تھے) کے بارے میں فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ حضور کی خدمت میں حاضر کروں، حضور جو مناسب فرمائیں ان سے کام لیں۔ اعلیٰ حضرت نے جواب دیا: ضرور تشریف لائیں، یہاں فتوے لکھیں اور مدرسے میں درس دیں۔ سید محمد اشرفی میرے شہزادے ہیں، میرے پاس جو کچھ ہے وہ ان کے جدِّ امجد (حضور غوث پاک) کا صدقہ ہے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے خلفا کا ذکر ایک نظم میں کیا اور آپ کے بارے میں یہ شعر فرمایا:احمد اشرف حمد و شرف لے… اس سے ذلت پاتے یہ ہیں۔

درس و تدریس اور خطابت:

آپ متبحرعالمِ دین،علم دوست اورصاحبِ فراست تھے،تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ والدِ گرامی کے قائم کردہ مدرسہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف میں تدریس اور انتظامات میں مصروف ہو گئے۔ آپ کا خواب تھا کہ اسے جامعہ ازہر، قاہرہ کی طرح عظیم ادارہ بنایا جائے۔ آپ وعظ و تبلیغ کے لیے مختلف شہروں کا سفر کرتے۔ آپ کی خطابت میں ایسا اثر تھا کہ آپ کو سلطانُ الواعظین کہا گیا۔آپ کے وعظ قراٰن و حدیث، ارشاداتِ صحابہ و اہلِ بیت اور اقوالِ بزرگانِ دین سے مزین ہوتے۔ انداز اتنا دلکش اور دل فریب ہوتا کہ سامعین بے اختیار عش عش کر اٹھتے۔ علامہ حسنین رضا خان فرماتے ہیں: وہ اعلیٰ حضرت کے ارشد تلامذہ میں سے تھے،ان جیساشریں بیان واعظ پھرنہ دیکھا، انہوں نے تھوڑی سی عمرمیں دین کی بڑی خدمتیں انجام دیں، جوانی میں وصال فرمایا،اعلیٰ حضرت انہیں اکثر یاد فرماتے تھے۔

تصنیفات:

آپ نے اعلیٰ حضرت کے قصیدۂ معراجیہ کی ایک عمدہ شرح تحریر فرمائی۔اسی طرح ایک رسالہ اَلدَّلَائلُ الْوَاضِحہ فِی اِثْبَاتِ الْفَاتِحَہ کے نام سے لکھا، جو مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں مرتب کیا گیا۔ اسے سمنان پریس، اکبرپور نے 31 صفحات پر شائع کیا۔

نکاح و اولاد:

آپ کا نکاح اپنے تایا جان پیر سید اشرف حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی کی صاحبزادی سے ہوا۔اولاد میں تین صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے ہوئے۔ بڑی صاحبزادی کی شادی اچھےمیاں حضرت سید محیُّ الدّین اشرف اشرفی جیلانی سے ہوئی۔ دوسری کی شادی محدثِ اعظم ہند علامہ سید محمد کچھوچھوی سے ہوئی۔ تیسری کی شادی مولانا سید طفیل اشرف جیلانی سے ہوئی۔ بڑے صاحبزادے سید محمود اشرف دو سال آٹھ ماہ کی عمر میں چیچک کے باعث انتقال کرگئے۔ انہی کی نسبت سے آپ کی کنیت ابوالمحمود ہوئی۔ دوسرے صاحبزادے سرکارِ کلاں، مخدومُ المشائخ پیر سید مختار اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی آپ کے وصال کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ ان کا وصال 9 رجب 1417ھ کو ہوا۔ ان کے جانشین شیخ اعظم پیرسید اظہار اشرف اشرفی ہوئے جن کا وصال 29 ربیع الاول 1433ھ کو ہوا۔ ان کے بعد پیر سید محمود اشرف اشرفی جیلانی منصبِ سجادہ نشین پر فائز ہوئے۔

وصال وتدفین:

آپ مرضِ اسہال و طاعون میں مبتلا ہوئے اور بحالتِ نمازِ مغرب 15 ربیعُ الآخر 1347ھ مطابق 30ستمبر، بروز اتوار وصال فرما گئے۔ نمازِ جنازہ والدِ گرامی نے پڑھائی۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا:میں کئی بزرگوں کے جنازوں میں شریک ہوا ہوں، مگر اس قدر ہجوم اور اس شان کا جنازہ کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی تدفین آستانہ عالیہ کچھوچھہ شریف میں سلطانُ الاولیاء مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کے مزار مقدس کے قریب نیر شریف کے جنوبی کنارے ہوئی۔ آپ کی تربت کے ایک طرف تایا جان پیرسید اشرف حسین اشرفی اور دوسری طرف والدِ گرامی پیر سید علی حسین اشرفی کی تربت ہے۔

(مزیدتفصیلات کے لیے دیکھئے:معارف سیداحمد اشرف کچھوچھوی،ازشبیراحمد راج محلی،حیات مخدوم الاولیاء،ص 439تا452-معارف شیخ اعظم،1/75تا81-سیرت اشرفی،ص121تا131-فتاویٰ رضویہ،20/343-21/484-ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص 141-الاستمداد علی اجیال الارتداد،ص68-سیرت اعلیٰ حضرت،ص 117-تفسیرمیزان الادیان،1/41، 42)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ(دعوتِ اسلامی)


Share