کمیٹی تاخیر سے دینے پر اضافی پیسے لینا کیسا؟

دوست کو گھر میں شریک بناکر کرایہ آپس میں تقسیم کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے کچھ عرصہ پہلے ساڑھے چھ لاکھ روپے میں ایک مکان خریدا۔ اب زید یہ چاہتا ہے کہ اپنے دوست عمر کو اُس گھر کے ایک چوتھائی حصے میں شریک کرلے اور دونوں مل کر اس کا کرایہ وصول کریں۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ کیا زید کا اپنے دوست عمر کو اس مکان میں شریک کرنا شرعاً جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو زید قیمتِ خرید کے اعتبار سے اسے گھر میں شریک کرے گا یا موجودہ ویلیو کے اعتبار سے شریک کرے گا؟کیونکہ اُس گھر کی موجودہ ویلیو سات لاکھ روپے ہے۔نیز زید اور عمر کے درمیان کرایہ کی رقم کس اعتبار سے تقسیم ہوگی؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں زید اپنی ملکیت میں بکر کو شامل کر سکتا ہے چوتھائی حصہ یعنی 25 فیصد اگر اسے دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ فریقین قیمت یعنی معاوضہ کی مقدار پر اتفاق کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ قیمتِ خرید کے مطابق یا پھر موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق حصہ بیچا جائے بلکہ باہمی رضا مندی سے کوئی بھی قیمت طے کی جا سکتی ہے۔ رہی بات کرایہ تقسیم کرنے کی تو جس کا جتنا شیئر ہوگا اس کے مطابق ہی وہ کرایہ کا حق دار ہوگا۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں: ”ایک شخص نے کوئی چیز خریدی ہے کسی دوسرے شخص نے اُس سے یہ کہا مجھے اس میں شریک کرلے مشتری نے کہا شریک کرلیا اگر یہ باتیں اُس وقت ہوئیں کہ مشتری نے مبیع پر قبضہ کرلیا ہے تو شرکت صحیح ہے اور قبضہ نہ کیا ہو تو شرکت صحیح نہیں کیونکہ اپنی چیزمیں دوسرے کوشریک کرنا اُس کے ہاتھ بیع کرنا ہے اور بیع اُسی چیز کی ہوسکتی ہے جو قبضہ میں ہو اور جب شرکت صحیح ہوگی تو نصف ثمن دینا لازم ہوگا کہ دونوں برابر کے شریک قرار پائیں گے البتہ اگر بیان کر دیا ہے کہ ایک تہائی یا چوتھائی یا اتنے حصہ کی شرکت ہے تو جو کچھ بیان کیاہے اُتنی ہی شرکت ہوگی اور اُسی کے موافق ثمن دینا لازم ہوگا۔“(بہار شریعت،2/515)

اجرت کی تقسیم کاری بقدرِ حصص ہوگی۔جیساکہ درر الحکام میں ہے: ”لو اجر الشركاء الحانوت المشترك بينهم لآخر فيجب تقسيم بدل الايجار بينهم حسب حصصهم في الحانوت“ یعنی اگر شرکاء نے اپنی مشترکہ دکان دوسرے شخص کو کرایہ پر دی تو اجرت کی تقسیم کاری دکان میں موجود حصوں کے مطابق ہوگی۔(درر الحكام شرح مجلۃ الاحكام، 3/27)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کمیٹی ڈالنے والے کا انتقال ہوجائے تو جمع شدہ رقم کا حکم؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے دو کمیٹیاں ڈالی ہوئی تھیں، ان میں سے ایک کمیٹی کی رقم یعنی 8لاکھ روپے اس کو مل گئی تھی اور ٹوٹل وہ 0 1 لاکھ 50 ہزار روپے دونوں کمیٹیوں کی رقم بھر چکا تھا اور اب اس کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے مزید کمیٹیاں وہ جمع نہیں کروائے گا اور اس کی دوسری کمیٹی تقریباً 7 ماہ بعد کھلے گی اب سوال یہ ہے کہ جوڈھائی لاکھ روپے مرحوم نے اضافی جمع کروائے تھے کیا وہ ورثاء کو فوراً دینا لازم ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: بیان کردہ صورت میں مرحوم دونوں کمیٹیوں کی مد میں 10 لاکھ 50 ہزارروپے ادا کرچکا تھا اور اس کو ایک کمیٹی کی مد میں 8 لاکھ روپے مل چکے تھے لہٰذا مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ روپے کی رقم کمیٹی والےپر قرض ہوئی اور عند الشرع قرض کو مطالبہ پر لوٹانا لازم ہوتا ہےبہر حال کمیٹی والےپر یہ ڈھائی لاکھ روپے ورثاء کو دینا لازم ہے،اب اس کا طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ میت کے ورثاء اور کمیٹی والا باہمی رضامندی سے کوئی ایک تاریخ طے کرلیں جس میں رقم کی واپسی ہوگی۔ اور ورثاء کو بھی چاہیےکہ اگر کمیٹی والا فوری ادائیگی پر قادر نہیں ہے اور وقت کا مطالبہ کرتا ہے تواس سے فی الفور ادائیگی کا مطالبہ نہ کریں بلکہ کچھ مہلت دے دیں۔

ہمارے یہاں کمیٹی کی رقم بطور قرض دی جاتی ہے چنانچہ علّامہ علاؤ الدین حصکفی  رحمۃُ اللہِ علیہ  قرض کی تعریف کے متعلق در مختار میں لکھتے ہیں: ”شرعا:ما تعطيه من مثلی لتتقاضاه“ یعنی شرعی اعتبار سے قرض وہ مثلی مال ہے جسے تم اس جیسا واپس حاصل کرنے کی غرض سے دیتے ہو۔(در مختار، 5/161)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کمیٹی تاخیر سے دینے پر اضافی پیسے لینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کمیٹی (B.C) جمع کرنے والا یہ شرط لگا سکتا ہے کہ جو شخص تاخیر سے کمیٹی کی قسط جمع کروائے گا وہ اس تاخیر کی بناء پر اضافی پیسے بھی دے گا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: کمیٹی جمع کرنے والے کا یہ شرط لگانا کہ جو شخص تاخیر سے کمیٹی کی قسط جمع کروائے گا وہ اس تاخیر کی بناء پر اضافی پیسے بھی دے گا یہ شرط ناجائز و حرام ہے کیونکہ اگر قسط جمع کروانے والے کی کمیٹی اب تک نہیں کھلی تو اس صورت میں وہ مقروض نہیں ہے لہٰذا تاخیرکی بناء پر اس سے اضافی پیسے لینا مالی جرمانہ ہے جو کہ ناجائز و گناہ ہے۔ اور اگر اس شخص کی کمیٹی کھل چکی ہے اور اس پر بقیہ قسطیں باقی ہیں تو اس صورت میں وہ مقروض ہے لہٰذا کمیٹی جمع کرنے والے کا تاخیر کی بناء پر اس شخص سے اضافی پیسے لینا سود ہے جوکہ سخت ناجائز و حرام ہے۔

چنانچہ مبسوط میں ہے: ”مقابلة الاجل بالدراهم ربا“ ترجمہ: مدت کے مقابلے میں (قیمت کے علاوہ) دراہم لینا سود ہے۔(المبسوط، 13/126)

مالی جرمانے سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:’’تعزیر بالمال منسوخ ہےاور منسوخ پر عمل جائز نہیں“۔(فتاویٰ رضویہ، 5/112)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی


Share