سودی قرض لے کر مال بنانے والی کمپنی سے چیز خریدنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایسی کمپنی سے مال خریدنا کیسا جس نے سودی قرضہ لے کر مال بنایا ہو؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: کمپنی نے بلاضرورتِ شرعی جو سودی قرضہ لیا اس کا یہ فعل ناجائز و حرام ہے اور اس پر کمپنی کا سود ادا کرنا بھی ناجائز و حرام ہے۔یہ اضافہ جو کمپنی سود کی مد میں دے گی وہ ناپاک اور مالِ خبیث ہوگا اور اصل میں اسی اضافہ کو سود کہتے ہیں۔ البتہ اس قرضہ میں انہیں جو پیسے ملے فی نفسہٖ وہ حرام نہیں تھے بلکہ حلال تھے لہٰذا ان پیسوں سے کمپنی نے جو مال خریدا اور بنایا وہ بھی حلال رہا ۔ لہٰذا ایسی کمپنی جس نے سودی قرضہ لے کرمال بنایا ہو اس سے کسی شخص کا مال خریدنا، جائز ہے لیکن اگر کمپنی کے سودی قرض لینے کا علم ہو تو نہ خریدنا بہتر ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ“ یعنی اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (مسلم،2/27)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ’’بے ضرورت سوددینا بھی اگرچہ حرام ہے کما فصلناہ فی فتاوٰنا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔) مگر وہ روپیہ کہ اس نے قرض لیا، اس سے تجارت میں جوکچھ حاصل ہوحلال ہے۔ فان الخبث فیما اعطی لافیما اخذ وھذا ظاھر جدا یعنی: کیونکہ خباثت اس میں ہے جو سود دے گا، جوقرضہ لیا اس میں خباثت نہیں ہے اور یہ نہایت ظاہر ہے۔ ‘‘ ( فتاویٰ رضویہ،19/646)
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غیر مسلم کے گھر صفائی کا کام کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسلمان عورت ہے جو گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے، اسےایک ہندو فیملی نے کہا ہے کہ ہمارے گھر میں اجرت پر کام کرو جس میں ان کے کمروں اور واش روم وغیرہ کی صفائی کرنی ہوگی،تو اس مسلمان عورت کو ہندؤوں کے یہاں یہ کام کرنا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: کسی مسلمان کو کافر کے یہاں ایسی نوکری کرنا، جائز نہیں جس میں مسلمان کی ذلت ہو، چونکہ پوچھی گئی صورت میں ہندو کے یہاں واش روم وغیرہ کی صفائی کا کام کرنے میں اس مسلمان عورت کی ذلت ہے لہٰذا اس کے لیے یہ کام کرنا، جائز نہیں۔
محيط برہانی میں ہے:’’ لا تجوز إجارة المسلم نفسه من النصراني للخدمة، وفيما سوى الخدمة يجوز والأجير في سعة من ذلك ما لم يكن في ذلك إذلال‘‘ یعنی: مسلمان کا خود کو نصرانی کا اجیر کرنا اس کی خدمت کے لیے یہ جائز نہیں،اگر خدمت کے علاوہ کسی اور کام کے لئے ہو تو جائز ہے ، اور اجیر کے لیے اس میں وسعت ہے جب تک اس میں مسلمان کی ذلت نہ ہو۔ (محیط برہانی،7/454)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ’’کافر کی نوکری مسلمان کے لیے وہی جائز ہے جس میں اسلام اور مسلم کی ذلت نہ ہو ۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ،21/121)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں: ”مسلمان نے کافر کی خدمت گاری کی نوکری کی یہ منع ہے بلکہ کسی ایسے کام پر کافر سے اجارہ نہ کرے جس میں مسلم کی ذلت ہو۔“(بہار شریعت،3/164)
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
آرٹیفیشل جیولری کا نکلا ہوا نگینہ دوبارہ چپکانا عیب ہے یا نہیں؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا آرٹیفیشل جیولری کا کام ہےجس میں ہم مختلف قسم کی جیولریز فروخت کرتے ہیں، جب آگے سے ہمارے پاس مال آتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی جیولری کی معمولی چیز مثلاً نگینہ یا کنڈا وغیرہ نکلا ہوا ہوتا ہے یا ہمارے پاس آکر نکل جاتا ہے تو ہم اس نگینے کو اسی طرح گلو وغیرہ سے چپکا دیتے ہیں جیسے وہ پہلے تھا اور پھرفروخت کردیتے ہیں۔سوال میرا یہ ہے کہ کیا اس طرح کی چیزوں کو بیچنا عیب والی چیزیں بیچنا کہلائےگا اور اس پر عیب دار چیز بیچنے کی مذمت آئے گی؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: عرفِ شرع میں عیب وہ ہے جو تاجروں کی نظر میں کسی چیز کی قیمت کم کر دےاور آرٹیفیشل جیولریز میں عام طور پر نگینہ وغیرہ معمولی چیز نکل جائے تو اسے چپکانے کے بعد ان جیولریز کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آتی اور نہ ہی اسے عیب شمار کیا جاتا ہے ۔لہٰذا اس طرح کی جیولری بیچنا عیب دار چیز بیچنا نہیں کہلائے گا نہ ہی اس پر عیب دار چیز بیچنے کی مذمت آئے گی بلکہ اسے مطلقا ً بیچنا جائز ہے۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی جیولری اس انداز کی ہو کہ اس میں دوبارہ فٹنگ سے عیب پیدا ہو جس کی وجہ سے تاجروں کی نظر میں اس چیز کی قیمت کم ہوجائے تو ایسی صورت میں آپ پر واجب ہے کہ خریدار پر اس عیب کو ظاہر کردیں کیونکہ مبیع میں موجود عیب کو چھپانا حرام و گناہ کبیرہ ہے۔
بہارشریعت میں ہے:’’عرفِ شرع میں عیب جس کی وجہ سے مبیع کو واپس کرسکتے ہیں وہ ہے جس سے تاجر وں کی نظر میں چیز کی قیمت کم ہوجائے۔ مبیع میں عیب ہوتو اُس کا ظاہر کردینا بائع پر واجب ہے چھپانا حرام و گناہ کبیرہ ہے۔‘‘ (بہارشریعت،2/673)
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments