
احکام تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
(1)ویب ڈیویلپمنٹ کے کام میں شرکت کی ایک صورت
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم دو بندے پہلے علیحدہ علیحدہ ویب سائٹ وغیرہ بنانے کا کام کرتے تھے اب ہم نے مل کر پارٹنر شپ کی ہے اس بات پر کہ ہم دونوں مل کر کمپنیوں اور دیگر لوگوں کو جائز ویب سائٹ بناکر دیا کریں گے لوگوں سے کام لینے اور کام کرنے میں دونوں برابر شریک ہوں گے پیسے کوئی بھی نہیں ملائے گا اور جو بھی نفع ہوا کرے گا وہ آدھا آدھا تقسیم ہوگا،اخراجات جو بھی ہوں گے وہ کام کی ایڈوانس رقم سے پورے کئے جائیں گے شریک اپنی رقم نہیں لگائیں گے۔ براہِ کرم راہنمائی فرمادیں کیا ہمارا اس طرح کام کرنا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ دونوں کا بیان کردہ طریقے کے مطابق باہم شرکت کرنا بالکل جائز ہے۔
تفصیل یہ ہے کہ سوال میں شرکت کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق شرکتِ عقد کی قسم شرکتِ عمل سے ہے جس میں دو لوگ مل کر کام میں شرکت کرتے ہیں یعنی لوگوں سے کام وصول کرتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں اور جو نفع ہوتا ہے وہ آپس میں طے شدہ فیصد کے حساب سے تقسیم کرلیتے ہیں نیز شرکتِ عمل میں شرکاء ایک دوسرے کے لئے برابر نفع بھی رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ دونوں کا مل کر ویب سائٹ کے کام میں شرکتِ عمل کرنا اور ایک دوسرے کے لئے آدھا آدھا نفع رکھنا جائز ہے۔
شرکتِ عمل کسے کہتے ہیں اس کے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ”شرکت بالعمل یہ ہے کہ دو کاریگر لوگوں کے یہاں سے کام لائیں اور شرکت میں کام کریں اور جو کچھ مزدوری ملے آپس میں بانٹ لیں۔“(بہار شریعت،2/505)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)کلائنٹ سے کام لے کر کسی دوسرے سے کروانا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک Software Engineer ہوں۔ میرے پاس کئی آرڈرز آتے ہیں اور وقت نہ ہونے کے باعث میں یہ آرڈرز دوسرے ڈویلپرز کو دے دیتا ہوں۔ایک آرڈر مجھے مثلاً 1000 ڈالر کا ملتا ہے تو میں جس ڈویلپر سے کام کرواتا ہوں اس سے 400 ڈالرمیں بنواتا ہوں۔ آرڈر لیتے وقت کلائنٹ مجھے خاص نہیں کرتا کہ یہ آپ کو ہی بنانا ہے، لیکن کلائنٹ یہی سمجھ رہا ہوتاہے کہ یہ میں نے بنایا ہے۔جب یہ ڈویلپر سافٹ ویئر بنالیتے ہیں توپھر میں چیک کرتا ہوں،کچھ اضافہ کرنا ہوتا ہے یا کمی کرنی ہوتی ہے تو وہ کر نےکے بعد کلائنٹ کے حوالے بھی میں ہی کرتا ہوں۔ میری راہنمائی فرمائیں کہ کلائنٹ سے کام لے کر دوسرے سے کروانا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: آئی ٹی کی لائن میں جو پروجیکٹ کمپنی سطح پر لئے جاتے ہیں ان کا عرف یہی ہے کہ متعین فرد کی تخصیص وہاں نہیں ہوتی۔ جب تک متعین فرد کی تخصیص کے ساتھ کام نہ پکڑا ہو کہ فلاں ہی کرے گا تو کام کسی سے بھی کروایا جا سکتا ہے کہ گاہک کو اصل میں معیاری کام درکار ہوتا ہے جب تک تخصیص نہ کرے اس کے مفاد میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا آپ خود بنائیں یا اپنے ورکرز سے بنوائیں یا کسی دوسرے ڈویلپر سے اجرت پربنوائیں جائز ہے اور دوسرے سے کم اجرت پر بنوائیں یہ بھی جائز ہے۔البتہ اگر کوئی کلائنٹ آپ سے یوں کہتا ہے کہ کسی اور سے یہ سافٹ ویئر نہیں بنوانا بلکہ آپ کو خود ہی بنانا ہے تو اس صورت میں آ پ کا دوسرے سے بنوانا جائز نہ ہوگا۔
علامہ کاسانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:”استاجر انسانا على خياطة ثوب بدرهم، فاستاجر الاجير من خاطه بنصف درهم، طاب له الفضل“ یعنی کسی شخص کو ایک درہم کے بدلے کپڑا سینے پر رکھا، اجیر نے دوسرا شخص نصف درہم کے بدلے رکھ لیا تو اس پہلےشخص کا زیادہ اجرت لینا حلال ہے۔ (بدائع الصنائع،6/97)
بہارِ شریعت میں ہے: ”اگر یہ شرط نہیں ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے کام کرے گا دوسرے سے بھی کراسکتا ہے اپنے شاگرد سے کرائے یا نوکر سے کرائے یا دوسرے سے اُجرت پر کرائے سب صورتیں جائز ہیں۔“(بہارِشریعت3/ 119)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)مرحوم والد کے مال پر زکوٰۃ کا حکم؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ میرے والد صاحب نے اپنے مالِ تجارت وغیرہ پر لازم زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے پیسے الگ کئے تھےلیکن زکوٰۃ ادا کرنے سےپہلے بیمارہوگئے اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا اور فرض زکوٰۃ ادا نہ کرسکے اور اس کے متعلق کوئی وصیت بھی نہیں کی،اب ان پیسوں کے متعلق ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوچکا تھا جسے ادا کرنے کے لئے پیسے بھی والد صاحب نے الگ کر لئے تھے لیکن ادا کرنے سے پہلے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے جس کی وجہ سے زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے الگ کئے ہوئے پیسے اور دیگر مال،مالِ وراثت بن گئےاب یہ پیسے ورثاء کی رضامندی کے بغیر زکوٰۃ کی مد میں نہیں دیئے جاسکتے۔
ہاں اگر والدصاحب اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کی وصیت کر جاتے، تو ان کی یہ وصیت ایک تہائی مال میں نافذ کرنا واجب ہوتا لیکن انہوں نےوصیت بھی نہیں کی جس کی وجہ سے اب یہ زکوٰۃ ادا کرنا ورثاء پرواجب تو نہیں ہے لیکن اگر عاقل و بالغ ورثاء اپنے اپنے حصوں سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی اجازت دے دیں،تو صرف انہی کے حصوں سے والد مرحوم کی زکوٰۃ کی ادائیگی کی جاسکتی ہے یہ ان کی جانب سے والد صاحب کے ساتھ بھلائی ہے جس پر یہ ثواب کے حقدار ہوں گے، مگر جو ورثاء اجازت نہ دیں یا پھر اجازت دینے کے اہل ہی نہ ہوں جیسے نابالغ یا غیر عاقل ورثاء تو ان کے حصے سے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوسکتی۔
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: ”جس شخص پر زکاۃ واجب ہے اگر وہ مر گیا تو ساقط ہوگئی یعنی اس کے مال سے زکاۃ دینا ضرور نہیں، ہاں اگر وصیّت کر گیا تو تہائی مال تک وصیّت نافذ ہے اور اگر عاقل بالغ ورثہ اجازت دے دیں تو کُل مال سے زکاۃ ادا کی جائے۔“(بہارشریعت،1/892)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments