گھر کو گھر کے بدلے کرایہ پر لینا کیسا؟

(1)گھر کو گھر کے بدلے کرایہ پر لینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا ذاتی گھر کورنگی میں ہے، میں اسے کرائے پر دینا چاہتا ہوں اور جس کو دینا ہے وہ نیوکراچی میں رہتے ہیں، میں ان کا نیو کراچی والا گھر کرائے پر لوں گا، دونوں کا کرایہ الگ سے مقرر نہیں ہو گا بلکہ فریقین ایک دوسرے کے گھر بطورِ کرایہ استعمال کریں گے،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: آپ کے سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے کہ آپ کورنگی والے اپنے ذاتی گھر کو کرائے پر دینا چاہتے ہیں اور بدلے میں نیو کراچی والے شخص کا گھر کرائے پر لیں گے، اور دونوں کے کرائے الگ سے مقرر نہیں ہوں گے بلکہ ایک دوسرے کے گھر کو بطور کرایہ استعمال کیا جائے گا، تو یہ معاملہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ منفعت کے بدلے منفعت پر اجارہ اس وقت جائز ہوتا ہے جب دونوں کی جنس مختلف ہو جیسے گھر میں رہائش کے بدلے زمین کی زراعت کرائے پر لینا، اور اگر دونوں طرف منفعت کی جنس ایک ہی ہو تو یہ ناجائز ہے۔

جائز متبادل حل:

مذکورہ صورت میں شرعی تقاضا یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے گھروں کا کرایہ ماہانہ مخصوص رقم کی صورت میں مقرر کریں۔ اور مہینے کے آخر میں طے شدہ رقم کا مقاصہ (ادلا بدلا) کرلیں، اس طرح یہ معاملہ اجارہ کے اصول کے مطابق ہوگا اور کسی قسم کی شرعی قباحت باقی نہیں رہے گی۔

مثلاً دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا گھر بیس ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر دیا تو مہینے کے آخر میں دونوں پر ایک دوسرے کے بیس بیس ہزار روپے لازم ہو جائیں گے، پھر ہر ایک اپنے بیس ہزار دوسرے کے بیس ہزار کے بدلے ٹھہرا لے اور معاملہ برابر کردے۔ اگر کم و بیش کرایہ مقرر ہوا ہے تو جس گھر کا کرایہ زیادہ ہے، اس کا مالک صرف اضافی رقم لے لے، یوں یہ عقد اجارہ کے اصول کے مطابق ہوگا اور کسی قسم کی شرعی قباحت بھی باقی نہیں رہے گی۔

حضرت علامہ علاؤ الدین حصکفی  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں: ”(الاجارة المنفعةبالمنفعة تجوز اذا اختلفا) جنسا كاستئجار سکنی دار بزراعۃ ارض (واذا اتحدا لا) تجوز کاجارة السکنی“ یعنی: منفعت کے بدلے منفعت پر اجارہ اس وقت جائز ہے جب دونوں کی جنس مختلف ہو، جیسے کسی گھر میں رہائش کے بدلے زمین کی زراعت کرائے پر لینا۔ لیکن اگر دونوں کی جنس ایک ہو تو یہ جائز نہیں، جیسے رہائش کے بدلے رہائش۔(رد المحتار علی الدر المختار،9/105)

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں: ”جو چیز بیع کا ثمن ہو سکتی ہے وہ اُجرت بھی ہو سکتی ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ جو اُجرت ہو سکے وہ ثمن بھی ہو جائے مثلاً ایک منفعت دوسری منفعت کی اُجرت ہوسکتی ہے جبکہ دونوں دو جنس کی ہوں اور منفعت ثمن نہیں ہوسکتی۔“(بہار شریعت،3/108)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)دودھ حاصل کرنے کے لیے گائے کرایہ پر لینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک گائے بچہ جننے والی ہے،زید وہ گائے بکر سے ایک سال کے لیےپچاس ہزار روپےاجرت پر لینا چاہتا ہے، زید کا اصل مقصد اس گائے سے دودھ حاصل کر کے بیچنا ہے،البتہ گائے جب بچہ دے دے گی تودو ماہ تک بچے کو زید پالے گا،دو ماہ بعد جب بچہ دودھ چھوڑ دےگا تو زید وہ بچہ بکر کو واپس کر دے گا اور گائے کی کھلائی پلائی اور نگہداشت کے تمام معاملات زید خود اپنی رقم سے ادا کرےگا۔ اگر دورانِ سال گائے مرگئی تو اس کی ذمہ داری زید کی نہیں ہوگی،اور سال پورا ہونے پر زید، بکر کو گائے واپس کر دےگا،کیا زید اور بکر کا اس طرح کا معاملہ کرنا درست ہے؟ نوٹ:بکر کا دودھ یا دودھ سے حاصل ہونے والی کمائی سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: سوال میں بیان کیے گئے طریقہ کار کے مطابق زید اور بکر کا معاہدہ کرنا شرعاًجائز نہیں ہے،کیونکہ فقہاء کرام نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ گائے کو اس لیے اجارے پر لیناکہ اس سے دودھ حاصل کیا جائےیہ اجارہ ناجائز ہےاور کیونکہ زید کا بکر سے گائے کرایہ پر لینے کا مقصد دودھ حاصل کر کے بیچنا ہے، لہٰذا دودھ کے حصول کے لیے زید کا گائے کرایہ پر لینا، ناجائز ہے۔

استہلاکِ عین پر اجارہ ناجائز ہے چنانچہ رد المحتار میں ہے: ”الاجارۃ اذا وقعت علی العین لا تصح“یعنی:جب اجارہ عین کے ہلاک کرنے پر واقع ہو تو اجارہ ناجائز ہے۔ (رد المحتار،9/106)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں: ”اصلِ کلی یہ ہے کہ جس طرح عقدِ بیع اعیان پر وارد ہوتا ہے یونہی اجارہ ایک عقد ہے کہ خالص منافع پر ورود پاتاہے جس کا ثمرہ یہ ہوتاہے کہ ذاتِ شیٔ بدستور ملکِ مالک پر باقی رہے اور مستاجر اس سے نفع حاصل کرے۔ جو اجارہ خاص کسی عین وذات کے استہلاک پر وار دہو، محض باطل ہےہاں مگر وہ جس کوشرع نے مستثنیٰ کردیاہے جیسا کہ دودھ پلانے والی عورت کا اجارہ وغیر ذٰلک، اسی لئے اگر باغ کو بغرض سکونت اجارہ میں لیا جائز، اور پھل کھانے کے لئے ناجائز، کہ سکونت منفعت اور ثمر عین،گائے کو لادنے کے لئے اجارہ میں لیا جائز، دودھ پینے کو ناجائز، کہ لادنا منفعت ہے اور دودھ عین۔“ (فتاویٰ رضویہ،19/543)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: ”جو اجارہ استہلاکِ عین پر ہوکہ مستاجر عین شے لے لے وہ اجارہ نا جائز ہے مثلاً گائے بھینس کو اجارہ پردیا کہ مستاجر اس کا دودھ حاصل کرے۔“(بہار شریعت،3/153)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی



Share