مصر کا اہم ترین سفر

مصر کا اہم ترین سفر

اَلحمدُ لِلّٰہ 27 مئی 2025 کو مصر کی طرف ایک بہت ہی خوبصورت اور اہم سفر پر روانگی ہوئی۔مصر جانے کا مقصد وہاں فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے کچھ کام کرنا تھا،27 مئی بروز منگل کراچی ائیر پورٹ سے صبح تقریباً 4 بجے دوحہ قطر کے راستے مصر کے شہر قاہرہ کے لیے روانگی ہوئی اور دوپہر تقریباً بارہ بجے مصر کے ائیرپورٹ پر پہنچ گئے۔ یادرہے اگر آپ کے پاس یورپ یا امریکہ کا ویلڈ ویزا ہے تو مئی 2025 کا یہ قانون ہے کہ آپ کو ائیرپورٹ پرہی On Arrival ویزا مل جاتا ہے۔ اس سفر میں ہم دو اسلامی بھائی تھے اور دونوں کے پاس UK کا ویزا تھا،تواس لیے ہمیں بغیر ویزا مصر جانے کی اجازت مل گئی اور وہاں پہنچ کر 25 ڈالر فی پرسن آن ارائیول ویزا لیا۔ اس کے بعد ہم ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو اسلامی بھائی ہمیں لینے آئے ہوئے تھے، ان کے ہمراہ اپنی قیام گاہ پر پہنچے  اور چونکہ رات سفر میں گزری تھی اس لیے اگلے دن کا جدول ڈسکس کرنےکے بعد آرام کیا۔

اگلے دن 28 مئی کی صبح چند اہم امور کی انجام دہی کے لیے روانہ ہونا تھا جس میں پہلی نیت یہ تھی کہ یہاں کے مقدس مقامات پر حاضری دی جائے،مصر ایک قدیم تاریخ رکھتا ہے ہزاروں سال پرانی تاریخ ہے:

مصر اسلامی دنیا کا ایک اہم اور مرکزی ملک ہے، جس کا ذکر قراٰنِ کریم میں بھی موجود ہے اور متعدد احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ تاریخی آثار و شواہد کے لحاظ سے بھی مصر کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، جہاں کی تہذیب و تمدن، ثقافت اور آثارِ قدیمہ دنیا بھر میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ مصر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں  صحابۂ کرام اور اولیائے کرام کے بے شمار مزاراتِ مقدّسہ موجود ہیں، جو آج بھی زائرین کے لیے روحانی فیض کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان مزارات کے ساتھ ساتھ مصر کے مختلف شہروں میں سینکڑوں سال پرانی عظیم الشان مساجد موجود ہیں، جو نہ صرف اسلامی فنِ تعمیر کا شاہکار ہیں بلکہ تاریخِ اسلام کا جیتا جاگتا عکس بھی پیش کرتی ہیں۔

مصر میں پہلے دن ہمیں چند اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرنی تھیں، سب سے پہلےہم الازہر یونیورسٹی کے عہدہ دار هيئة كبار العلماء کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عباس شُومان کے پاس گئےاوران کے وفد سے ملاقات کی،اس ملاقات میں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں بالخصوص جامعاتُ المدینہ اور دعوتِ اسلامی کے علمی کاموں کے بارے میں گفتگو ہوئی انہوں نے ہمیں بھی الازہر یونیورسٹی کےبارے میں بتایا کہ یہاں تقریبا پانچ لاکھ اسٹوڈنٹس پڑھتے ہیں،ان میں ہزاروں غیر ملکی طلبہ بھی ہیں جن کے کھانے پینے اور رہائش حتّی کہ دوسال میں گھروں پر آنے جانے کے اخراجات بھی الازہر یونیورسٹی کے ذمہ ہیں،ان سے یہ بات بھی ہوئی کہ جامعاتُ المدینہ اور دعوتِ اسلامی کے تعلیمی اداروں کا الازہر یونیورسٹی کے ساتھ تعلق کیسے آگے بڑھ سکتا ہے، اس پر انہوں نے ہمیں بہت اچھی اچھی آفرز بھی دیں جن پرہم مستقبل میں کنزُالمدارس بورڈ کے ساتھ مشاورت کرکے کام کریں گے۔

اس ملاقات کے دوران جب مصر آنے کا مقصد بتایا کہ ہم یہاں فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ الازہر یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب کے تحت گورنمنٹ آف مصر کا ایک بڑا ادارہ بَيتُ الزَّكاة والصَّدقات المِصْرية ہے جو بہت سے فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ فلسطینی مسلمانوں کی امدادکا کام بھی کر رہا ہے، انہوں نے اس ادارے سے ہماری ارجنٹ میٹنگ رکھوائی اور ہم بیت الزکاۃ کے دفتر پہنچ گئے۔بات چیت کےدوران انہوں نے بتایا کہ ہم فلسطینیوں کی مدد کے لیے سینکڑوں کنٹینرز بھیج چکے ہیں جن میں اشیائے خورد و نوش اور ضروریاتِ زندگی کی بہت سی چیزیں شامل ہیں اس کےعلاوہ مزید بھی کئی کنٹینرز تیار کھڑے ہیں، صرف بارڈر کھلنے کا انتظار ہے۔اس میٹنگ میں یہ بھی طے ہوا کہ غزہ (Gaza) کے اندر جانے کی پابندیاں ختم ہوجائیں تو عید الاضحی ٰ کے بعدان سے ایک اور میٹنگ کرکے ہم بھی ان کے ساتھ مل کر فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے غذائی اجناس اور اشیائے ضرورت پہنچائیں گے۔

اس میٹنگ سے فارغ ہوکر نمازِ عصر ادا کرکے ہم ایک بہت ہی مقدس مقام ”مشہد امام حسین“ پر حاضر ہوئے،یہ وہ مقام ہے جہاں معتبر روایات کے مطابق امام عالی مقام، نواسۂ رسول،بی بی فاطمہ زہرہ کے مہکتے پھول حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کا سرانور مدفون ہے۔ اللہ پاک کے نیک بندوں کا پورا جسم ہی برکتوں کا خزینہ ہوتا ہے چاہے دھڑ ہو یا ان کا مبارک سر۔امام حسین کے پورے جسم کی برکت کےلیے عاشقانِ حسین کربلا معلی جبکہ سرانور سے فیضیاب ہونے کےلیے اس مقدس مقام کی زیات اور اس سے حصولِ برکت کےلیے یہاں حاضرہوتے ہیں۔ مشہدِ حسینی کے بارے میں معلومات اور سرِانور سے متعلق چند کرامات پڑھنے کے لیے شیخ طریقت، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے رسالے ”امام حسین کی کرامات“ کا مطالعہ کیجئے۔

مشہدِ حسین سے برکتیں لوٹنے کے بعد ہم مسجدِ ازہر گئے، مسجدِ ازہر یہ گیارہ سو سال پرانی وہ مسجد ہےجہاں سے الازہر یونیورسٹی کا آغاز ہوا تھا،ابتداءً اس مسجد میں ایک مدرسہ لگنا شروع ہوا پھر بڑھتے بڑھتے ایک عظیم یونیورسٹی بن گئی جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے طلبہ اپنی علمی پیاس بجھانے آتے ہیں۔جب ہم اس مسجد میں پہنچے تو پاک و ہند سے آئے ہوئے کئی اسٹوڈنٹس ہمارے پاس آگئے،ان کے ساتھ کافی دیرتک گفتگو ہوتی رہی۔اس کے بعد ہم اپنی رہائش گاہ پر واپس آگئے، اور پھر آرام کیا۔

اگلے دن 29 مئی2025 کی صبح بہت اہم تھی کیونکہ اس دن ہم نے فلسطین کی ایمبیسی میں تقریباً چار سو فلسطینی فیملیز کو بلوایا تھا جن کے درمیان کیش رقوم تقسیم کرنی تھی۔اس معاملے کو بحسن وخوبی حل کرنے میں ایمبیسی کے لوگوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، انہوں نےپہلے ہی لسٹیں بنارکھی تھیں جن میں جنگ کے دوران آنے والی فیملیز کے نام اور پاسپورٹ وغیرہ کی معلومات درج تھی،اسی کے مطابق ہر ایک کی تصدیق ہونے کے بعد انہیں 100ڈالر کے مساوی رقم پیش کی جاتی رہی، اَلحمدُ لِلّٰہ تقسیم کاری کا یہ سلسلہ نمازِظہر تک جاری رہا۔

اس کے بعد ہم فلسطین کے ایمبیسٹر سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر گئے، انہوں نے بڑے اچھے انداز میں ہمارا استقبال کیا، ان سے بھی فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے حوالے سے چند امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی جو راستے کھلنے کی صورت میں انجام دئیے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں مصر میں 500 کے قریب یتیم بچے اپنی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مقیم ہیں،ہم نے یہ طے کیا ہے کہ عید کے بعد دعوتِ اسلامی کے فلاحی شعبے FGRF  (فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن) کے ذریعے ان 500 بچوں کی کفالت کریں گے۔ انہوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ ہزاروں زخمی فلسطینی ہاسپٹل میں ہیں نیز ان میں ایک ہزار کینسر کے پیشنٹ بھی ہیں۔ ہم نے ان مریضوں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے بتایا کہ ان سے ملاقات کےلیے پہلے پرمیشن لینی پڑے گی،پھر طے یہ ہوا کہ ان کے نام وغیرہ ہمیں مل جائیں تو ہم عید کے بعد ان سے ملاقات کریں گے اور کیش رقوم سے ان کی امداد کریں گے۔ ان میں کچھ ایسے مریض بھی ہیں جن کا مصر میں علاج نہیں ہوسکتا تو کچھ قانونی رکاوٹیں حل ہونےکے بعد ہم انہیں پاکستان لے جائیں گے اور وہاں ان کا بھرپور علاج کروائیں گے۔

اَلحمدُ لِلّٰہ FGRF کی بدولت قاہرہ مصر میں فلسطینی مسلمانوں کے علاج کے لیے ایک ڈسپنسری کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں مختلف قسم کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر زبیٹھیں گے،ہم نے یہ خبر فلسطین کے ہی سفیر کے ذریعے فلسطین کے گروپس میں عام کروادی،جب وہاں پہنچے تو بڑی تعداد میں مریض موجود تھے۔ اس بارے میں یہ طے ہوا ہے کہ ہر فلسطینی کا چیک اپ فری ہوگا، ادویات اور تمام ٹیسٹ بھی فری کیے جائیں گے حتی کہ اگر کسی مریض کو بڑے آپریشن یا مہنگا علاج کروانے کی حاجت ہوتو ہم ان کی بھی مدد کریں گے۔

اَلحمدُ لِلّٰہ! تمام مریض علاج سے مطمئن تھے اور ان کے چہروں پر چھائی خوشی واقعی دیدنی تھی۔ جس تیزی سے مریض علاج کے لیے آرہے تھے، ہمیں محسوس ہوا کہ اِن شآءَ اللہ اس فلاحی کام کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان دُکھی مسلمانوں کے آنسو پونچھے جا سکیں۔یہ تو وہ خدمت ہے جو مصر میں موجود لاکھوں فلسطینی مہاجرین کے درمیان ممکن ہوئی، غزہ کے اندر موجود فلسطینی بھائیوں تک امداد اسی وقت پہنچ سکتی ہے جب وہاں کا راستہ کھلے اور ہمیں مکمل طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔

اَلحمدُ لِلّٰہ FGRFگزشتہ کئی مہینوں سے روزانہ کی بنیاد پر غزہ کے اندر بھی کھانے کی تقسیم اور دیگر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے، اور وہ وہاں کی مقامی فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر نہایت احسن انداز میں امدادی کام کر رہی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن شوریٰ و نگران مجلس مدنی چینل


Share