اپنےبزرگو ں کو یادرکھئے
صَفَرُالْمُظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینا ہے۔ اس میں جن صحابَۂ کرام، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وِصال یا عُرس ہے، ان میں سے93کا مختصر ذکر ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ صَفَرُ الْمُظفر 1439ھ تا1446ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے مزید 12 کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:
صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان:
(1)حضرت ابوعُبیدہ بن عَمْرو بن مِحصن انصاری رضی اللہُ عنہ بنونَجارکے چشم و چراغ تھے۔ ان کی شہادت یومِ بِئرِمَعُونَہ میں ہوئی۔ یہ واقعہ صفر4ھ میں پیش آیا۔ ([1])
(2)حضرت ابوعَمرَہ (ثَعلبہ یا بشیر) بن عَمْرو بن مِحصن نَجاری انصاری رضی اللہُ عنہ جلیلُ القدرصحابی ہیں،ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن انصاری نے ان سے حدیث پاک روایت کی، انہوں نے غزوۂ بَدر و اُحد میں شریک ہونے کی سعادت پائی۔ جنگِ صِفِّین (صفر37ھ) میں لشکرِ مولیٰ علی (رضی اللہُ عنہ) میں شریکِ جہاد ہوئے اور جامِ شہادت نوش فرمایا۔([2])
علمائے کرام رحمہمُ اللہ السَّلام:
(3)اميرُالمؤمنین فی الحديث حضرت ابو سعید یحییٰ بن سعید قَطّان تمیمی بصری رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 120ھ اور وفات صفر 198ھ میں ہوئی، آپ نے امامِ اعظم ابو حنیفہ جیسے کئی اکابرین سے علم حاصل کیا، آپ دوسری صدی ہجری میں اپنے علم، فضل، تقویٰ و وَرع کی وجہ سے ممتاز تھے، آپ تَبع تابعی، ثِقہ راوی، حافظُ الحدیث اور قُدوۃُ العلماء تھے۔ آپ رزقِ حلال کے لیے رُوئی کا کام کرتے تھے اسی وجہ سے امام قَطّان کے لقب سے مشہور ہیں۔ کلامِ الٰہی کی تلاوت سے خاص شَغف تھا، 20سال ایسے گزارے کہ دن رات میں ایک بار قراٰن ختم کر لیتے تھے، پانچوں نمازیں باجماعت ادا فرماتے اور نَوافِل کی بھی پابندی فرمایا کرتے تھے۔([3])
(4)حضرت شیخ امام سِراجُ الدّین ابوعبداللہ حسین بن مبارک رَبَعی زَبیدی بغدادی حَنبلی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 545ھ یا 546ھ کو بغداد میں ہوئی، آپ تیس سال تک طَلبِ حدیث میں بغداد، دِمشق اور حَلب کے مشائخ کی خدمات میں حاضر رہے، تحصیلِ علم کے بعد آپ حَنابِلہ کے مدرسۃُ الوزیر بغداد کے مُدرس مقرر ہوئے، آپ مسلمانوں کے عظیم امام، صاحبِ تصنیف، عظیم حنبلی مفتیِ اسلام، محدثِ شام، حلیم و فیاض تھے۔ آپ کی وفات 23صفر 631ھ کو ہوئی، لُغت و قِراءت میں کتاب مَنظومات اور فقہ میں کتاب البُلغۃ تحریر فرمائی۔([4])
(5)حضرت شیخ شہاب الدین ابو العباس احمد بن ابوطالب صَالِحِی الحِجار رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت تقریباً 624ھ کو دِمشق میں ہوئی اور 25صفر730ھ میں وفات پائی۔آپ نے کثیر مشائخ سے اِستفادہ کیا، 630ھ میں شیخ حسین بن مبارک زَبیدی سے صحیحُ البخاری سُن کر اجازت لی، آپ امامُ الوقت اور حافظُ الحدیث تھے۔([5])
(6)مولانا اِمداد حسین رامپوری رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1244ھ میں ہوئی، تمام اسلامی علوم اپنے چھوٹے بھائی تاجُ المحدثین علامہ ارشاد حسین رامپوری سے حاصل کیے، بیعت کا شرف علّامہ ولی النبی رامپوری سے حاصل کیا،اپنے بھائی سے خلافت پائی، بھائی کی وفات کے بعد ان کی جگہ وَعظ فرماتے تھے، 27صفر1312ھ کو وفات پائی،بھائی کے قُبہ میں جانبِ مشرق دفن کیے گئے۔([6])
اولیائے کرام رحمہمُ اللہ السَّلام:
(7)حضرت سیّد ابو عمر موسیٰ ثانی بن صالح عبداللہ رضا حسنی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش6محرم 221ھ کو مدینۂ منوّرہ میں ہوئی اور یہیں ماہِ صفر 288ھ کو وفات پائی، ایک قول کے مطابق عباسی خلیفہ مہتدی باللہ کے دورِ حکومت میں کوفہ یا سویق میں 256ھ میں شہید ہوئے۔ یہ راویِ حدیث، زہد و تقویٰ کے پیکر، صاحبِ استقامت اور اپنے والدِ گرامی کے خلیفہ تھے۔([7])
(8)قطبُ العارفین حضرت خواجہ ابو قاسم علی بن عبد اللہ گُرگانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت گُرگان، نزد طُوس، خُراسان رضوی، ایران میں تقریباً350ھ میں ہوئی اور یہیں 23صفر 450ھ کو وصال فرمایا۔ آپ ولیِ کامل، علومِ اسلامیہ و عصریہ کے ماہر اور صاحبِ کرامت تھے۔([8])
(9)حضرت مولانا میاں محمد امیر شاہ کابلی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت رامپورکے محلہ زیارت حلقہ والی میں ہوئی۔ فارسی و عربی علوم میں دَسترس حاصل کی۔ میاں غلام شاہ رامپوری سے بیعت ہوئے۔29شوال1247ھ میں چالیس دن کا چلہ کیا، محنت و مجاہدہ میں مشہور تھے۔ آپ نہایت بااثر، فقیر مَنِش درویش تھے۔ کثیر لوگوں نے بیعت کی اور خلافت سے نوازے گئے۔ کئی کُتب تحریر کیں، رسالہ کَشفیہ بزبانِ فارسی، دعوت دعائے سیفی بزبانِ فارسی اور تعلیمُ الخواص بزبانِ فارسی یادگار ہیں۔ 23صفر1290ھ کو وصال فرمایا۔صاحبِ تذکرہ کاملانِ رامپور کے والد نے مزار تعمیر کیا جہاں ہر سال عرس ہوتا ہے۔([9])
(10)عالم و عارف حضرت میاں تاج محمدقادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش درگاہ قادریہ کَٹبار شریف لِہڑی، بلوچستان میں 1247ھ میں ہوئی اور وصال 7صفر1310ھ کو ہوا۔ آپ عالمِ دین، مُدرسِ درسِ نظامی، صاحبِ کرامت، مستجابُ الدعوات اور سجادہ نشین درگاہ قادریہ تھے۔([10])
(11)حضرت مولانا شمسُ الدّین احمد میاں صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ علّامہ فضل رحمٰن گنج مُرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرزند، جید عالمِ دین، شیخِ طریقت، فضل و کمال کے جامع، علومِ باطنیہ میں ماہر، طبعاً فیاض، عالی ہمت اور والدِ گرامی کے مرید و خلیفہ و جانشین تھے، آپ کا وصال یکم صفر 1335ھ کو ہوا۔([11])
(12)بقیۃُ السلف، حضرت سیّد شاہ ابوالقاسم محمد اسماعیل حسن مارہروی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 3محرم 1272ھ کو آستانہ عالیہ مارہرہ یوپی ہند میں ہوئی اور یہیں یکم صفر1347ھ کو وصال فرمایا۔ آپ حافظِ قراٰن، عالمِ دین اور شیخِ طریقت تھے، سلسلہ عالیہ قادریہ کی خلافت اپنے نانا، والدِ محترم اور حضرت شاہ سیّد ابوالْحُسَین احمد نُوری سے حاصل ہوئی، آپ نے خاندانِ برکاتیہ کو دینی تعلیم کی طرف متوجہ کیا، خاندانی لائبریری اور تبرکات کی حفاظت کا اہتمام کیا۔([12])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ(دعوتِ اسلامی)
Comments