آخری نبی محمد عربی ﷺ کا دیہاتیوں کو تعلیم و تربیت دینے کا انداز

آخری نبی محمد عربی   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دیہاتیوں کو تعلیم و تربیت دینے کا انداز

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ  اللہ  کےآخِری نبی   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سچی بات سکھاتے ہیں، سیدھے راستے پر چلاتے ہیں اور تربیَت دے کر ہدایت کے ستارے بناتے ہیں، رحمتِ عالم   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تعلیم وتربیَت سے بھرپورلُطْف وکرم کی شان تویہ ہے کہ ہرخاص وعام اِس سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ رسولِ اکرم   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ وہ درس گاہ ہے جس سے دیگر صحابَۂ کِرام کے ساتھ دیہات سے تعلّق رکھنے والوں نے بھی خوب فیض پایا،اُن میں بھی علم حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی اور بارگاہِ رسالت سے مَن چاہے سوالات کے جوابات حاصل کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی۔یہ خوب صورت اندازِ نبوی جہاں اُس مبارَک دور کےمؤثر ایجوکیشن سسٹم کا عمدہ خاکہ پیش کرتا ہے وہیں اُس ڈائیرکٹ میتھڈ سے روشناس کرواتا ہے جو عمر، اہلیت، عمارت اور معیّنہ وقت کی قید سے آزاد ہے نیز اس کی تاثیر اتنی اعلیٰ اور اس قدر بابرکت ہے کہ اس سے قِیامت تک فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

آئیے! آخِری نبی   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے  دیہاتیوں کو تعلیم و تربیَت دینے کے انداز کی چند جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں:

سوالات کے جوابات دینے کا اندازِ نبوی: دیہات سے تعلّق رکھنے والے افراد میں اگرچہ کچھ طبیعت کی سختی تھی مگر اُن میں ایسے عقل مند بھی ہوتے جو سُوال کرنے کے آداب سے آگاہ ہوتے اور بیجا سوال سے بچتے، صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان ایسے دیہاتیوں کی آمد کے منتظر رہتے۔ ([1])

(1)قبیلہ بنی سعد کا تعلّق دیہات سے تھا،حضور   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قبیلہ بنی سعد کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو بھیجا تھا لہٰذا اِس قبیلے نے اسلام سے متعلّق چند باتوں کی تصدیق کے لیے ایک عقل مند دیہاتی کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تو وہ آئے، اونٹ کو مسجد سے باہر باندھا اور مسجد میں داخل ہوگئے۔([2])پھر پوچھنے لگے کہ تم میں محمد ( صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم )کون ہیں؟ حالانکہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان ٹیک لگائے تشریف فرما تھے۔ہم نےبتایا: وہ یہی نورانی چہرے والے بُز ُرگ ہیں جو ٹیک لگائے تشریف فرما ہیں۔ان صاحب نے کہا:اے عبد المطلب کےبیٹے!رسولِ کریم   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اُن سے فرمایا: بولو! میں سُن رہا ہوں۔ اُنہوں نے عرض کی: میں آپ سے سُوال کروں گا، پوچھنے میں آپ پر ذرا سخت انداز ہوجائے تو ناراض نہ ہونا۔ فرمایا: پوچھو! جو پوچھنا ہے۔ انہوں نے عرض کیا:میں آپ کے اور آپ سے پہلے والوں کے رَبّ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا  اللہ  نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں!ایسا ہی ہے۔ عرض کیا: میں آپ کو  اللہ  کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا  اللہ  ہی کی طرف سے آپ کو حکم ہے کہ دن رات میں پانچ نَمازیں ادا کریں؟ فرمایا: بالکل! ایسا ہی ہے۔ عرض کی:میں آپ کو  اللہ کی قسم دیتا ہوں،کیا سال کے اس مہینے (رمضانُ المبارک) کے روزے  رکھنے کا حکم بھی آپ کو  اللہ  ہی نے دیا ہے؟ فرمایا: ہاں! یہ بات دُرست ہے، عرض کی: میں آپ کو  اللہ  کی قسم دیتا ہوں، کیا  اللہ  نے ہی آپ کو حکم دیا ہے کہ ہمارے مالداروں سے صدقہ (یعنی زکوٰۃ)وصول کرکے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیں؟ رسولُ  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: بِالکل! ایسا ہی ہے۔تو ان صاحب نے کہا: آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں میں اس پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کا قاصد ہوں،میرا نام ضِمَام بن ثَعْلَبہ ہے میں بنی سعد بن بکر کا ایک فرد ہوں۔([3])حضرت ضِمام  رضی  اللہ  عنہ  واپس اپنے قبیلے گئے اور اتنامؤثّر بیان کیا کہ پورا قبیلہ ایمان لے آیا۔([4])

حضرت ضِمام  رضی  اللہ  عنہ کی عقل مندی کی بناپر حضرت عمر  رضی  اللہ  عنہ  نے فرمایا: میں نے اچّھے انداز میں مختصرا ًسوال کرنے والا حضرت ضِمام بن ثعلبہ  رضی  اللہ  عنہ  سے زیادہ بہتر کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ([5])

 (2)رسولُ  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایک سفر میں تھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیا اور آپ کی اونٹنی کی لگام پکڑ کر بولا: اے  اللہ  کے رسول! کچھ ایسا بتادیجئے جو مجھے جنّت کے قریب اور دوزخ سے دور کردے۔ فرمایا: یعنی  اللہ  پاک کی عِبادت کرو اور کسی کو بھی اُس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نَماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلۂ رِحمی کیا کرو۔([6])

(3)بارگاہ ِ رسالت میں ایک دیہاتی نے عرض کی: یارسول  اللہ ! مجھے وہ کام بتائیے جسے کرنے کے بعد میں جنّت میں داخل ہوجاؤں؟فرمایا:  اللہ  پاک کی اس طرح عبادت کرو کہ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ،فرض نَماز یں اَداکرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ عرض کی :مجھے اُس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں اس پر اضافہ نہ کروں گا۔جب وہ لوٹ گیا تو رسول  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا :جو کسی جنّتی کو دیکھنا چاہے وہ اس شخص کو دیکھ لے۔([7])

(4) رسول ِکریم   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں ایک دیہاتی نے عرض کی:مجھےجنّت سے قریب کرنے اورجہنّم سے دور کرنے والا کام بتادیجئے۔ارشاد فرمایا:کیاتمہیں ان دو (یعنی جنّت و جہنّم) نے عمل پر اُبھارا ہے؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ فرمایا: حق بات کرو اور جو ضَرورت سے زیادہ ہو اُسے صدقہ کر دو۔عرض کی : اللہ  کی قسم! میں ہر وقت حق بولنے اور ضَرورت سے زیادہ مال صدقہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو۔ عرض کی: یہ بھی ویسا ہی مشکل ہے۔ فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہے؟ وہ بولا: جی ہاں۔ فرمایا: اونٹ اور پانی کا مشکیزہ لو اور گھر گھر جا کر ایسے لوگوں کو پانی پلاؤ جوکبھی کبھی پانی پیتے ہیں، اُمید ہے کہ ابھی تمہارا اونٹ بھی نہیں مرے گا اور مشکیزہ بھی نہیں پھٹے گا کہ تم پر جنّت واجب ہو جائے گی۔ وہ دیہاتی ” اللہ  اکبر“ کہتا ہوا چلا گیا،ابھی اس کا مشکیزہ نہیں پھٹاتھا اور نہ ہی اونٹ مرا تھاکہ وہ شہید ہو گیا۔([8])

عمل کے ذریعے تربیَت دینے کا اندازِ نبوی:  اللہ  کےآخِری نبی   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں کوئی اَعْرابی آتا اور کسی ایسے عمل کے بارے میں پوچھتاجسے عملاًسکھانا ممکن ہوتا تو اُسے وہ عملاً کرکےدکھا تے اور زبان مبارَک سے اُس کی وضاحت بھی فرمادیتےجیساکہ ایک دیہاتی بارگاہِ رسالت میں وُضوکے بارے میں پوچھنے کے لئےحاضر ہوا تو آپ نے اعضائے وُضو کو تین تین مرتبہ دھو کر دکھایاپھر فرمایا: وُضو اِس طرح ہے،تو جس نے اِس میں اضافہ کیا اُس نے بُرا کیا،حد سے بڑھا اوراُس نے ظُلم کیا۔([9])

رسول  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے  سادہ طبع اور فطری مزاج رکھنے والے دیہاتیوں کی جس حکمت، نرمی اور بصیرت کے ساتھ تربیت فرمائی  ہے، اس کی جھلک مذکورہ واقعات میں نظر آتی ہے۔  ان واقعات پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ

(1)دیہاتی افراد، جو فطری سادگی اور علم کی کمی کے باعث براہِ راست سوال کرتے، ان کو سوالات کرنے سے منع کرنے کے بجائے آپ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

(2)رسولُ  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دیہاتیوں کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت سادہ، جامع اور عملی انداز میں جوابات دیے۔

(3)اگرچہ بعض دیہاتیوں کے انداز میں جفاکشی یا سخت کلامی ہوتی، لیکن آپ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نہ تو ناراض ہوتے، نہ سخت لہجے میں جواب دیتے، بلکہ نرمی اور تحمل سے ان کی اصلاح فرماتے، جو اَخلاقی تربیت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

(4)دیہاتیوں کی سادہ مزاجی اور اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھ کر، ان کے عمل کو سراہا گیا۔ جیساکہ یہاں حضرت ضِمام بن ثعلبہ  رضی  اللہ  عنہ  کے سوالات اور ایمان لانے پر آپ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کی عقل مندی کی تعریف فرمائی اور فرمایا: ”جو جنتی کو دیکھنا چاہے وہ اسے دیکھ لے“۔

(5)اسی طرح آپ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ تعلیم و تربیت صرف شہری، باادب یا تعلیم یافتہ لوگوں کا حق نہیں بلکہ دین ہر فرد کے لیے ہے، خواہ وہ دیہاتی ہو یا شہری، عالم ہو یا جاہل۔

(6)دیہاتی افراد، جیسے حضرت ضِمام  رضی  اللہ  عنہ  جب تعلیم یافتہ ہوئے تو واپس جا کر پورے قبیلے کی اصلاح کا ذریعہ بنے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسولُ  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تربیت انفرادی نہیں، بلکہ اجتماعی اثرات کی حامل ہوتی تھی۔

آخری نبی   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دیہاتیوں کو تعلیم و تربیَت دینے کا انداز آپ نے اس مضمون میں ملاحظہ کیا، اگلے شُمارے میں” رسولُ  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دیہاتیوں کے ساتھ اندازِ کرم نوازی“ بھی ضَرور پڑھیے گا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث، المدینۃ العلمیہ Islamic Research Center کراچی



([1])مسلم،ص35، حدیث:102،شرح مسلم للنووی،جز:1،1/169

([2])بخاری،1/39،حدیث:63،مسلم، ص35، حدیث:102،ابوداؤد،1/205،حدیث:487،شرح مسلم للنووی، جز:1، 1/169

([3])بخاری،1/39،حدیث:63

([4])مدارج النبوۃ،2/364

([5])الاصابۃ، 3/395

([6])مسلم،ص36، حدیث: 104

([7])بخاری، 1/472،حدیث:1397

([8])معجم کبیر، 19/187، حدیث:422

([9])نسائی،ص31،حدیث:140


Share