حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ

حضرت عامر بن فُہَیْرَہ رضی اللہُ عنہ

ابتدائے اسلام میں نورِ ایمان کی چمک دمک سے جہاں مکہ کے مرد، عورتوں اور بچوں کے سینے روشن ہوئے وہیں کئی غلام اور باندیوں کی زبانوں پر بھی توحید و رسالت کے کلمات مچلنے لگےتھے، مقدس کلمات ادا کرنے کی پاداش میں کفارِ مکہ نے ان کمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، سفاکی اور بربریت کی مثالیں قائم کیں ان مظلوم مسلمانوں میں ایک سیاہ فام غلام حضرت سیِّدُنا عَامر بن فُہَیْرَہ رضی اللہُ عنہ بھی تھے۔

اوصاف مبارکہ:آپ رضی اللہُ عنہ شرعی اَحکام کو بجا لانے اور حسدکی نحوست سے خود کو بچانے والے تھے۔ ([1])آپ کا شمار ان معزز و معتبر صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم میں ہوتا ہے جنہوں نے کاتبِ وحی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ([2])

قبولِ اسلام اور تکالیف: حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دارِ ارقم میں داخل ہونے سے پہلے جونہی آپ رضی اللہُ عنہ کو دعوتِ اسلام پہنچی تو آپ نے اسے قبول کرلیا حالانکہ اس وقت آپ بیمار تھے۔([3])آپ نے راہِ خدا میں سخت تکالیف برداشت کیں آپ کو دینِ اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا لیکن آپ انکار کردیتے اور اسلام پر مضبوطی سے ثابت قدم رہے([4])آپ رضی اللہُ عنہ کو اس قدر مارا جاتا تھا کہ جسم کی بوٹی بوٹی درد مند ہو جاتی تھی([5])آپ کو اتنی تکالیف دی جاتیں کہ آپ خود بھی نہ سمجھ پاتے کہ آپ کی زبان سے کیا کلمات نکل رہے ہیں۔([6]) ایک مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا کہ (مکہ کی گلیوں میں ) حضرت بلال اور حضرت عامر دونوں حضرات کو ایک ہی لمبی رسی میں باندھ کر بچے کھینچ رہے تھے۔([7])

غلامی کی زنجیر ٹوٹ گئی: حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہُ عنہ نے کفارِ مکہ کی بڑھتی ہوئی  زیادتیوں کو ملاحظہ فرمایا تو آپ کو خرید لیا اور آزاد کردیا۔([8])آزادی کی نعمت ملنے کے بعد آپ رضی اللہُ عنہ اہلِ مکہ کی بکریاں چَرانے کا کام کرنے لگے۔([9])

واقعۂ ہجرت اور خدمات: ہجرت کے موقع پر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے ساتھ جب غارِ ثور میں قیام فرمایا تو حضرت عامر بن فہَیْرہ غار کے آس پاس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی بکریوں کو چَراتے رہتے یہ بکریاں صبح شام دودھ دیا کرتی تھیں، جب رات کا اندھیرا چھا جاتا تو آپ ( غار کے قریب آجاتےاور ) دونوں مقدس حضرات کو بکریوں کا دودھ پیش کرتے دونوں حضرات اسی دودھ پر رات گزارا کرتےپھر آپ رات کے آخری حصےمیں بکریوں کو ہانک کر واپس لےجاتے آپ تین راتوں تک مسلسل ایسا ہی کرتے رہے۔([10])تین دن بعد پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینے کی جانب سفر اختیار فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے آپ کو اپنے ساتھ لے لیا([11])آپ راستے بھر دونوں مقدس حضرات کی خدمت کرتے اور ان کے کاموں میں معاونت کرتے رہے اور ساتھ ساتھ دونوں اونٹوں کو ہنکاتے بھی رہتے تھے۔([12]) دورانِ سفر آپ رضی اللہُ عنہ کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے پیچھے اونٹنی پر بیٹھتے تو کبھی نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے بیٹھنے کی سعادت پاتےرہے۔([13])ایک قول کے مطابق اسی سفر میں آپ نے نبیِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم سے حضرت سراقہ (جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھےان) کو چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امن کی تحریر لکھ کر دی تھی۔([14]) ہجرت کے بعد آپ نے حضرت سعد بن خیثمہ رضی اللہُ عنہ کے گھر قیام فرمایا،([15])نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت حارث بن اوس رضی اللہُ عنہ کے ساتھ آپ کا بھائی چارہ قائم فرمایا۔([16])

موت کا ذائقہ: ہجرت ِ مدینہ کے بعد کچھ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم بیمار ہوئے تو حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہُ عنہ بھی ان میں شامل تھے، کسی نے آپ سے پوچھا: آپ خود کو کیسا پاتے ہیں؟ تو آپ نے جواب میں ایک شعر پڑھا: میں نے موت کی سختی کو موت سے پہلے ہی محسوس کر لیا، بےشک! بزدل کی موت (بزدلی کی وجہ سے ) اس کے اوپر رہتی ہے۔ ہر مرد مجاہد اپنے زورِ بازو میں اس بیل کی مانند ہے جو اپنے سینگ سے اپنی حفاظت کرلیتا ہے۔([17])

مجاہدانہ زندگی: آپ رضی اللہُ عنہ کو غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔([18])

 شہادت: غزوۂ اُحد کے چار مہینے بعد سن 4 ہجری ماہِ صفر میں حضورنبیِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تبلیغِ اسلام کے لیے قبیلہ ٔ بنی سلیم کی طرف 70صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کا ایک وفد روانہ فرمایا جس میں حضرت عامر بن فُہَیْرَہ رضی اللہُ عنہ بھی تھے۔ دشمن نے بِئْرِ مَعُوْنَہ کے مقام پرمسلمانوں کے اس وفد کے خلاف لشکر کشی کی اور یوں جنگ شروع ہوگئی،کفار نے حضرت عَمْر و بن اُمیہ رضی اللہُ عنہ کوچھوڑ کر باقی تمام صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کوشہید کر دیا،ان ہی شہدائے کرام میں حضرت عامر رضی اللہُ عنہ بھی تھے۔([19])

میں کامیاب ہوگیا:جس وقت آپ رضی اللہُ عنہ کو نیزہ لگا تو آپ کے منہ سے یہ کلمات ادا ہوئے : اللہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ بَوقتِ شہادت آپ کی عمر مبارک 40 سال تھی۔([20]) آپ کو شہید کرنے والے جبار بن سَلَمی(جو ابھی تک دولتِ ایمان سے سرفراز نہیں ہوئے تھے ان) کا بیان ہے: (جونہی نیزہ حضرت عامر کے جسم سے نکالا تو ) ان کی لاش بلند ہونے لگی یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ یہ کرامت دیکھ کربعد میں حضرت جبار بن سلمی نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ حضرت عامر رضی اللہُ عنہ کی لاش تلاش کرنے پربھی نہ ملی تو لوگ سمجھ گئے کہ فرشتوں نے انہیں دفن کر دیا ہے۔([21])ایک روایت میں ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک! فرشتوں نے ان کو چھپالیا اور عِلّیین میں ٹھہرادیا۔([22])

جسم سے نور نکلا: دیکھنے والوں کا یہ بھی بیان ہےکہ جب نیزے کے پہلے وار نے حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہُ عنہ کے جسم کو زخمی کیا توآپ کے جسم سے ایک نور نکلا تھا۔ ([23])

اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کےصدقے ہماری مغفرت ہو۔  اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])حلیۃ الاولیاء، 1/155

([2])مراٰۃ المناجیح، 3/284ماخوذاً

([3])جامع الاصول فی احادیث الرسول،13/261-سبل الہدی والرشاد،6/61

([4])تاریخ ابن عساکر، 4/343

([5])سیرت مصطفیٰ،ص120

([6])سبل الہدیٰ والرشاد،2/360

([7])الانساب الاشراف للبلاذری، 1/210

([8])جامع الاصول فی احادیث الرسول، 13/261

([9])سیرت ابن ہشام،ص194

([10])بخاری، 2/593، حدیث:3905-ارشاد الساری للقسطلانی، 8/431، تحت الحدیث:3905

([11])عمدۃ القاری، 12/133، تحت الحدیث:4093

([12])مجمع الزوائد، 6/65،حدیث: 9902

([13])عمدۃ القاری،12/133،تحت الحدیث:4093

([14])بخاری، 2/594، حدیث: 3906

([15])تاریخ ابن عساکر، 4/343

([16])انساب الاشراف للبلاذری، 1/220

([17])زرقانی علی الموطا، 4/310-زرقانی علی المواہب، 2/170

([18])طبقات ابن سعد، 3/174

([19])بخاری، 3/48،49، حدیث: 4091، 4093 ملتقطاً- سیرت ابن ہشام،ص375

([20])طبقات ابن سعد،3/174

([21])طبقات ابن سعد،3/174- انساب الاشراف للبلاذری، 1/481

([22])طبقات ابن سعد،3/174

([23])الاستیعاب،2/345


Share