حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فراست اور معاملہ فہمی (قسط:01)

صدیقِ اکبر  رضی اللہ عنہ  کی فراست اور معاملہ فہمی

 ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ(قسط 1)


تاریخِ اسلام کے اوراق میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جن کی زندَگی کا ہر پہلو آنے والی نسلوں کے لیے راہنمائی کا سَرچشمہ ہے۔ ان میں ایک  نُمایاں اور روشن نام امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کا ہے، جو رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پہلے خلیفہ، رفیقِ غار اور آپ کے سب سے قریبی اور وفادار ساتھی ہیں۔ آپ کی ذاتِ اَقدس دراصل ایمان، یقین، اِطاعت، محبّت اور حِکمت و دانش کا ایک ایسا حَسین اِمتِزاج تھی جس کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں آپ کا مقام اس قدر بُلند تھا کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک مرتبہ فرمایا: اگر میں اپنے رب کے عِلاوہ کسی کو خلیل (گہرا دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ ([1])یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کو اللہ اور اس کے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی محبّت اور ان کی ذات کی معرفت میں وہ کمال حاصل تھا جو کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوا۔

آپ کے اوصافِ جلیلہ میں سے ایک اَہَم وَصف آپ کی فہم و فراست، یعنی دور اندیشی اور معاملہ فہمی ہے۔ یہ ایسی خُصوصیّت ہے جو ایک قائد اور حکمران کے لیے  ہونا ناگُزیر ہے۔ فراست سے مراد وہ باطنی بَصیرت ہے جس کے ذریعے انسان حالات کی تہہ میں چُھپے حقائق اور مستقبل کے ممکنہ نتائج کو دیکھ لیتا ہے۔ جبکہ معاملہ فہمی سے مراد عملی زندگی میں پیش آنے والے پیچیدہ حالات کو سُلجھانے کی اہلیت اور صحیح وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ میں یہ دونوں صفات اپنے عروج پر تھیں، اور آپ کی پوری زندگی اس کی درخشاں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ذیل میں ہم انہی واقعات کا تفصیلی جائزہ لیں گے جو حضرت صدّیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کی بے مثال فراست اور معاملہ فہمی کو بیان کرتے ہیں۔

(1)صدّیقِ اکبر کی رائے اور حکمِ الٰہی کی تائید:

حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی فراست اور معاملہ فہمی اس قَدر کامل تھی کہ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اکثر اوقات اُمورِ مسلمین میں ان سے مشاورت فرمایا کرتے تھے۔ حتّٰی کہ ایک مرتبہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ان سے مشورہ کرنے کا حکم دیا۔

 ایک مرتبہ  نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہ فرمایا”حضرت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  سے مشورہ کرنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے۔([2])

ایک اور روایت میں حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اور حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  اکثر رات گئے تک مسلمانوں کے معاملات پر مشاورت اور گفتگو کرتے رہتے تھے۔([3])

ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی رائے اور مشورہ نہ صرف انسانی فہم و فراست کا نتیجہ تھا بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی تائید بھی حاصل ہوتی تھی۔

(2)اللہ تعالیٰ کو ابوبکر کا خاطی ہونا پسند نہیں:

حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی رائے کی ایک اور عظیم مثال اس وقت سامنے آئی جب نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت مُعاذ بن جَبَل  رضی اللہ عنہ  کو یَمن بھیجنے سے پہلے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ اس مشاورت میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور دیگر جلیلُ القدر صحابہ موجود تھے۔ جب ہر صحابی نے اپنی سمجھ کے مطابق مشورہ دیا تو نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت مُعاذ  رضی اللہ عنہ  سے پوچھا: اے معاذ! ان مشوروں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت مُعاذ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا: مجھے ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی رائے پسند آئی ہے۔ اس پر نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کو ابوبکر صدّیق کا خاطی ہونا (یعنی غلطی کرنا) پسند نہیں ہے۔([4])

 یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی رائے نہ صرف صحیح ہوتی تھی بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی خاص رضا اور تائید شامل ہوتی تھی۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ آپ کی فہم و فراست محض انسانی ذہانت کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک رُوحانی بَصیرت تھی جو اللہ کی طرف سے عطا کی گئی تھی۔

(3)جواں سال حضرت عثمان بن ابی العاص کی امارت:

جب ثَقیف قبیلے نے اسلام قبول کیا اور ان کے لیے ایک امیر مقرّر کرنے کی ضرورت پیش آئی تونبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام سے اس سلسلے میں مشورہ فرمایا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  نے ایک نوجوان صحابی حضرت عثمان بن اَبی العاص  رضی اللہ عنہ  کو امیر بنانے کا مشورہ دیا۔ اگرچہ وہ عمر میں چھوٹے تھے، لیکن حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھ لیا تھا۔ آپ نے نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے دیکھا ہے کہ یہ نوجوان اسلام کا گہرا فہم حاصل کرنے اور قرآنِ کریم سیکھنے کا سب سے بڑھ کر خواہش مند ہے۔

 حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی اس بصیرت اور مشورے کو نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قبول فرمایا اور حضرت عثمان بن ابی العاص  رضی اللہ عنہ  کو ہی بنی ثَقیف کا امیر مقرّر فرمایا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  صرف عمر اور تجربے کو اہمیّت نہیں دیتے تھے بلکہ ان کی فراست افراد کے اندر چُھپی ہوئی صلاحیتوں اور ان کی دین سے سچّی لگن کو بھی پرکھ لیتی تھی۔([5])

(4)جنگی اُمور میں معاملہ فہمی کا بہترین معیار:

جنگی اُمور میں بھی حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی معاملہ فہمی اور اِطاعتِ امیر کا معیار بے مثال تھا۔ ایک مرتبہ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک لشکر کا سپہ سالار حضرت عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  کو مقرر فرمایا۔جب لشکر مقامِ جنگ پر پہنچا تو حضرت عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  نے حکم دیا کہ رات کے وقت آگ روشن نہ کی جائے۔ یہ حکم اس لیے تھا کہ دشمن کو لشکر کی پوزیشن کا اندازہ نہ ہو سکے۔ حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کو یہ بات پسند نہیں آئی اور وہ حضرت عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  کے پاس جا کر اعتِراض کرنا چاہتے تھے۔لیکن اس موقع پر حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  نے معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کو روک دیا اور فرمایا:حضور نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے عمرو بن عاص کو جنگی اُمور میں مہارت کی وجہ سے ہم پر امیر  مقرّر فرمایا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  رُک گئے اس واقعہ میں حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے نہ صرف امیر کی اطاعت کا حکم دیا بلکہ یہ بھی ظاہر کیا کہ کسی بھی مقصد کے حُصول کے لیے ماہر کی رائے کو اہمیّت دینا کتنی ضَروری ہے۔([6])

(5)صلحِ حدیبیہ اور نبوی حکمت کی تائید:

صلحِ حدیبیہ کا واقعہ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی معاملہ فہمی اور نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ ان کی مکمّل فکری ہم آہنگی کا عکاس ہے۔ اس معاہدے کی شرائط بظاہر مسلمانوں کے لیے ناموافق اور کفّارِ قریش کے حق میں تھیں، جس کی وجہ سے کئی صحابہ، خاص طور پر حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  ذہنی طور پر اُلجھن کا شکار ہو گئے تھے۔حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا: کیا آپ سچّے نبی نہیں ہیں؟ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: ہاں، میں سچّا نبی ہوں۔ حضرت عمر نے پھر عرض کیا: کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:کیوں نہیں! اس پر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا: پھر ہمیں اپنے دینی معاملات میں دبنے کی کیا ضَرورت ہے؟ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اس کے حکم سے اِنحراف نہیں کرتا اور وہی میرا مددگار ہے۔ انہوں نے عرض کی کہ کیا آپ ہی نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ حاضر ہو کر طواف کریں گے؟ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: ہاں! لیکن کیا میں نے کہا تھا کہ اسی سال ہماری حاضری ہوگی؟ عرض کی: نہیں۔ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: یقیناً تمہاری حاضری ہوگی اور طواف بھی کرو گے۔

بعد ازاں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کے پاس گئے اور وہی سوالات دہرائے۔ اس پر حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے نہایت اطمینان اور حکمت کے ساتھ وہی جوابات دیے جو نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے خود دیے تھے اور  فرمایا: اے اللہ کے بندے! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے۔ وہ ان کا مددگار ہے۔ پس تم ان کی اطاعت پر مضبوطی سے قائم رہو۔ اللہ کی قسم! وہ حق پر ہیں۔ حضرت عمر نے پھر سُوال کیا کہ کیا حُضورِ اکرم  نے ہمیں نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیتُ اللہ شریف کا طواف کریں گے؟ حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: ہاں، مگر کیا انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ تم اسی سال طواف کرو گے؟ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا: نہیں! اس پر حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے یقین دہانی کرائی کہ ”تو پھر یقین رکھو، تم ضَرور خانۂ کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف بھی کرو گے۔“([7])

یہ واقِعہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی معاملہ فہمی اور فکری ہم آہنگی کا معیار اس قَدر بلند تھا کہ وہ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھ گئے تھے۔ آپ  رضی اللہ عنہ  نہ صرف حکمتِ نبوی کے امین تھے بلکہ اسے دوسروں تک اسی روح کے ساتھ منتقل بھی کر سکتے تھے۔

(6)مجلس میں حضرت علی کے لیے جگہ کشادہ کرنا:

حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی فراست کا ایک اور شاندار واقعہ مجلسِ نبوی میں پیش آیا، جو ان کی نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف سے اشاروں اور کنایوں کو سمجھنے کی صلاحیّت کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسجد میں صحابۂ کرام کے درمیان تشریف فرما تھے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  تشریف لائے۔ انہوں نے سلام کیا اور بیٹھنے کے لیے جگہ تلاش کرنے لگے۔ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے صحابہ کے چہروں کی طرف دیکھا کہ کون حضرت علی کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے۔ اس موقع پر کوئی بھی صحابی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دائیں جانب تشریف فرما تھے۔ انہوں نے فوراً اپنی جگہ سے تھوڑا ہٹ کر حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے کہا: ابوالحسن! آپ یہاں بیٹھیں۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  فوراً وہاں بیٹھ گئے، اور یوں وہ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اور حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے درمیان بیٹھ گئے۔ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ جب ایسا ہوا تو نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے۔آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  کی طرف متوجّہ ہو کر فرمایا: یَا اَبَا بَکْرٍ، اِنَّمَا یَعْرِفُ الْفَضْلَ لِاَھْلِ الْفَضْلِ ذَوُوا الْفَضْلِ (اے ابوبکر! اہلِ فضل کی قدر اہلِ فضل ہی جانتے ہیں۔) یہ ایک بہت بڑا اِعزاز اور تعریف تھی جو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی فراست اور ان کے مقام کی پہچان کے لیے فرمائی۔([8])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ہیڈ آف ڈیپارٹ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])مصنف لعبد الرزاق، 8/442، حدیث:16465

([2])تاریخ ابن عساکر، 30/129

([3])مسند احمد،1/65، حدیث:178

([4])معجم کبیر، 20/67،حدیث:124

([5])اسد الغابۃ، 3/600مفہوماً

([6])السنن الکبری للبیہقی،9/70،حدیث:17900

([7])بخاری،2/226،حدیث:2731ملخصاً

([8])البدایۃ والنھایۃ، 5/474


Share