خلیفہ اعلی حضرت شیخ عبداللہ دحلان کی تربت پر حاضری کی روداد(قسط:02)


شیخ عبداللہ دحلان کی تربت پر حاضری کی روداد (قسط:02)


خلیفۂ اعلیٰ حضرت، شیخ سیّد عبدُاللہ بن صدقہ دَحلان کے مزار پر حاضری کے لیے ہمارا قافلۂ محبت  رواں  دواں ہے، پاکستان سے گاروت شہر تک سفر کے احوال آپ پچھلی قسط میں پڑھ چکے،   آئیے اس سفر کو آگے بڑھاتے ہیں:

لباک جایا(Lebak Jaya)پہنچ گئے:

دو لوکل گاڑیاں تبدیل کرنے  کے بعد ہم لباک جایا (Lebak Jaya)کے ایک اسکول و مدرسہ کے قریب پہنچے، جس کا نام مدرسۃُ الخیریہ تھا۔ چونکہ رکنِ شوریٰ حاجی ابو ماجد نے اپنی تحریر میں ذکر کیا تھا کہ شیخ عبداللہ بن صدقہ دَحلان  رحمۃُ اللہ علیہ نے مدرسۃُ الخیریہ کی بنیاد رکھی تھی یا اس کی سَرپرستی فرمائی تھی،ہم نے سوچاکہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہی وہ مدرسہ ہو، اس لیے ہم وہیں اُتر گئے۔گاڑی والوں کو کرایہ اَدا کر کے مدرسۃُ الخیریہ سے متصل مسجدمیں نمازعصراداکی۔ بعدِ نماز ہمارے انڈونیشین ذمّہ دار مدرسے کے اندر گئے اور ہیڈ ماسٹر سے ملاقات کی پھران سے آنے کا مقصد بیان کیا کہ ہم جکارتہ سے خصوصی طور پر شیخ سیّد عبدُاللہ بن صدقہ دَحلان کی تُربت کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ہیڈ ماسٹر نے بتایا کہ قریب ہی ایک سیّد زادے رہتے ہیں اور شیخ سیّد عبدُاللہ دَحلان سے نسبت بھی رکھتے ہیں وہ آپ کی راہنمائی کریں گے۔ چنانچہ وہ ہمیں ان کے گھر تک لے گئے اور دروازے کے باہر چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا، ایک بار، دو بار، تین بار مگر کوئی جواب نہ آیا۔  کچھ دیر ہم سوچ میں پڑ گئے کہ شاید گھر پر کوئی موجود نہیں۔ اتنے میں اچانک دروازہ کھلا، اور ایک مسکراتی ہوئی شخصیت نظرآئی جس پر ایسی تازگی، نرمی اور نورانیّت تھی کہ گویا چہرے ہی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی پاک نسل سے ہیں۔

سیّد زادے سے ملاقات اور دُرُودِ رضویہ :

ان سیّدصاحب کا نام حبیب فہمی المنور (Habib Fahmi al-Munawwar) ہے۔ انہوں نے نہایت عاجزانہ انداز میں معذرت کی اور کہا: معاف فرمائیے، میں غسل کر رہا تھا اس لیے دیر ہو گئی،بعد میں معلوم ہوا کہ وہ چودہ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد ابھی ابھی واپس آئے تھے۔ ہمیں افسوس ہوا کہ ہم نے انہیں زحمت دی، مگر انہوں نے محبّت سے بٹھایا، عزّت دی، چائے، قہوہ اور کچھ کیک پیش کیے۔ہم نے اپنے آنے کا مقصدبیان کیا جسے سن کر وہ حیرت سے بولے:کیا واقعی آپ لوگ اتنے دور سے صرف شیخ سیّد عبدُاللہ بن صدقہ دَحلان کی تُربت کی زیارت کے لیے آئے ہیں یا کوئی اور مقصد بھی ہے؟ مَیں نے عرض کیا: مَیں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے لیے انڈونیشیا میں مقیم ہوں اور بقیہ اسلامی بھائی انڈونیشیا کے ہیں۔ہم کراچی، پاکستان میں مقیم رکنِ شوریٰ حاجی ابو ماجد کے حکم پر شیخ سیّد عبداللہ دَحلان کی تُربت مبارَکہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔مزید کچھ گفتگوہوتی رہی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری  رحمۃُ اللہ علیہ کا ذکر خیرہواتو انہوں نے کہا کہ میں ایک دُرودِ پاک پڑھتا ہوں جو ان سے منسوب ہے۔یہ سن کر مَیں حیران رہ گیا۔ میرا ذہن فوراً دُرودِ رضویہ کی طرف گیا۔ جب وہ دُرود پڑھنے لگے تو صلی اللہ علی کہتے ہوئے رک گئے۔ میں نے مکمل دُرود پڑھا:

صَلَّی اللہ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّی وَاٰلِہٖ، صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم، صَلٰوةً وَّ سَلَاماًعَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللہ۔

وہ فوراً بولے: جی بالکل! یہی دُرودِ پاک ہے! میری حیرت بڑھ گئی کہ اعلیٰ حضرت کا فیضان اور ان سے منسوب دُرود شریف انڈونیشیا کے جزیرۂ جاوا کے اس دوردرازدیہاتی علاقے میں پہنچ چکا ہے! مَیں نے حیرت سے پوچھا:یہ دُرودِ پاک یہاں تک کیسے پہنچا؟انہوں نے بتایا:یہ مجھے یہاں کے ایک اُستاذ، سیف اللہ صاحب نے بتایاہے، جو کتابوں کے عاشق اور محقِّق ہیں۔یہ سن کر میرا اشتیاق مزید بڑھ گیا اور میں نے کہا:میں ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے وعدہ کیا:ان شآء اللہ الکریم آپ سب کی ان سےضرور ملاقات کروائی جائے گی، مگر پہلے ہم علامہ سیّد عبدُاللہ دَحلان مکّی کی تُربت کی زیارت کے لیے چلتے ہیں۔

تُربتِ شیخ عبدُاللہ بن صدقہ دَحلان پر حاضری:

 ہم پیدل حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً دس منٹ پیدل سفر کے بعد ایک اونچی، پہاڑ نما جگہ پر پہنچے۔ وہاں ایک قدیم قبرستان تھا، جس میں کئی مزارات اور قبور تھیں۔ اس قبرستان میں کئی احاطے تھے، ایک احاطے میں دیگر قبور کے ساتھ شیخ سیّد عبدُاللہ بن صدقہ دَحلان  رحمۃُ اللہ علیہ کی تُربت بھی تھی۔ ماشاء اللہ! ان کی تُربت کے اطراف میں سرسبز و شاداب پودے تھے، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ دل کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے یہ پودے اللہ پاک کا ذکر کر رہے ہوں۔ اس روحانی فضا میں تُربت پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ علّامہ دَحلان مکّی کی تُربت سادہ تھی قبرکےسرہانے سنگ مرمرکے کالے اور سفید رنگ کے پتّھرکا کَتبہ تھا،جس میں سفیدرنگ غالب تھا۔ کتبہ تقریباً ایک بالشت چوڑا اورڈیڑھ فٹ لمباتھا۔ اس پر سنہری رنگ میں عبارت کندہ تھی، پہلی لائن واضح نہ تھی، عربی میں کچھ کلمات تھے۔ اس کے بعد انڈونیشین زبان میں آپ کا نام سیّدعبدُاللہ بن صدقہ بن زَینی دَحلان لکھا تھا،اس کے بعد دولائنوں میں آپ کی پیدائش کا سن 1291ھ اوروفات کاسن 1363ھ کندا تھا۔ اس سے متصل دوسری قبرکی جانب ایک باریک تنے والا درخت تھا جوکافی اونچاتھا۔قبرکے دائیں اور بائیں دونوں جانب اینٹیں لگائی گئی تھیں، قبردرمیان سے کچّی تھی جس میں گھاس اُگی ہوئی تھی، قبرکی پائنتی میں بھی کتبہ نُماپتّھرتھا مگراس پر کچھ لکھا نہ تھا۔ اس سے متصل ایک قدِآدم سے کچھ زیادہ اونچائی والادرخت تھا، جس کی چھوٹی چھوٹی سترہ اٹھارہ شاخیں تھیں۔ اس احاطے میں دیگرقبوربھی اسی انداز سے تھیں۔ ہم نہایت خوش تھے کہ سالہاسال کی خواہش پوری ہوئی تھی اوراسی سرشاری کی کیفیت میں واپس روانہ ہوئے۔

اُستاذ سیف اللہ سے ملاقات اور حیرتوں بھرے روحانی لمحات:

تربتِ علّامہ سیدعبداللہ دحلان پر فاتحہ کے بعد ہم نے مغرب کی نَماز اَدا کی۔ طے تھا کہ اب استاذ سیف اللہ سے ملاقات کے لیے جانا ہے، لیکن جسم تھکن سے چور تھا، دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔ مگر مسجد میں قیام بھی مناسب نہ لگا کیونکہ ہر ملک کی اپنی روایات، تہذیب اور معاشرتی آداب ہوتے ہیں اور انجانے لوگوں کا مسجد میں رکنا ممکنہ طور پر غیر موزوں سمجھا جاتا۔ اسی دوران حبیب فہمی المنور صاحب نے گاڑی کا انتظام کیا اور خودگاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ہمیں استاذ سیف اللہ کے پاس لے گئے۔استاذ سیف اللہ نہایت سادہ طبیعت اور پُر وقار شخصیت کے حامل تھے۔ گفتگو کا آغاز ہوا تو بات دُرود شریف پر آئی۔ جب میں نے دُرودِ رضویہ کا ذکر کیا تو استاذ سیف اللہ نے فرمایا:مجھے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا  رحمۃُ اللہ علیہ سے محبّت ہے، میں ان کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ یہ سن کر ہم حیران رہ گئے، کیونکہ ہم نے دیکھا کہ ان کے پاس صرف ایک ہی کتاب ” الوظیفۃ الکریمہ “ تھی۔ ہم نے پوچھا:کیا آپ نے کتابیں سوشل میڈیا یاPDF میں پڑھی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا:میرے پاس تو اینڈرائیڈ موبائل نہیں، کبھی کبھار سادہ موبائل استعمال کر لیتا ہوں، جس کا نمبربھی مجھے یادنہیں۔ یہ سن کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اعلیٰ حضرت کا ایساعاشق، جس کے پاس موبائل بھی نہیں، مگر علم و نسبت کا یہ حال! باتوں باتوں میں انہوں نے امیرِاہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّارقادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے بارے میں بتایاکہ مَیں انہیں بھی جانتاہوں اوران کی کتب بھی پڑھی ہیں۔ یہ ملاقات اتنی روحانی اور مؤثر تھی کہ جو تھکن جسم میں گھر کر چکی تھی، وہ گویا اُتر گئی، ایسالگ رہا تھا کہ تھکن نام کی کوئی چیز باقی نہیں، دل چاہنے لگا کہ بس ان کے پاس بیٹھے رہیں اور ان کی باتیں سنتے رہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اعلیٰ حضرت کا فیضان، استاذسیف اللہ کے ذریعے ہمیں منتقل ہو رہا ہے۔ بہرحال ہم نے وہاں نَمازِ عشا اَدا کی اور استاذ سیف اللہ صاحب کے ہاں رات کا کھانا کھایا۔ قافلے کے تمام اسلامی بھائی حیرت میں تھے کہ اس شخصیت کو اعلیٰ حضرت اور امیرِ اہلِ سنت کا تعارُف کس نے دیاہے؟بات یہیں ختم نہیں ہوئی! جو بات ہمیں مزید حیران کر گئی وہ یہ تھی کہ استاذ سیف اللہ صاحب نے نہ صرف ہمارے قیام کا انتظام کیا بلکہ آرام والے کمرے سے جاتے وقت ہمارے ایک اسلامی بھائی کو فرمایا: قافلے کے جدول کا خاص خیال رکھیے گا! جب اس اسلامی بھائی نے مجھے یہ بات بتائی تو مَیں دنگ رہ گیا۔ میں نے کہا: یا اللہ! یہ کون سی شخصیت ہے؟ جو جدول جیسا دعوتِ اسلامی کا مخصوص اصطلاحی لفظ بھی جانتی ہے ؟ یہ وہ جملہ ہے جو عام طور پر دعوتِ اسلامی کے بڑے ذمّہ داران یا رکنِ شوریٰ فرمایا کرتے ہیں۔ ایک مقامی اور غیر معروف عالمِ دین، جن سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی، وہ ہمیں نصیحت فرما رہے تھے کہ قافلے کے جدول کا خاص خیال رکھنا! سونے سے قبل پھر وہی گفتگو شروع ہو گئی جو استاد سیف اللہ سے ہوئی تھی۔ سب اسلامی بھائی ایک دوسرے کے چہرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے، گویا الفاظ کم پڑ گئے تھے۔پھر کچھ دیر بعد ہم نے سونے کی تیاری کی اور روحانی خوشی ومَسرّت میں جلدہی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران انڈونیشیا مشاورت


Share