کیاآپ  بچوں کی سنتے ہیں؟


کیا آپ بچوں کی سنتے ہیں؟


بچّے اللہ کی ایک عظیم نعمت ہیں۔ ان کی پَرورِش اور اچھی تربیت والدین کے ذمے ہے۔ بچّوں کی بات سننا اور سمجھداری کے ساتھ جواب دینا بھی تربیت کا حصّہ ہے۔ والدین کو  چاہیے کہ وہ بچّوں کی باتوں کو نظراَنداز نہ کریں بلکہ انہیں سُنیں اور اہمیت دیں۔

اکثر گھروں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچّے جب کوئی بات کرتے ہیں تو بڑے انہیں خاموش کروا دیتے ہیں یا ان کی بات کی طرف توجہ نہیں کرتے یا ان کی بات مکمل سُنے سمجھے بغیر  ان کی بات کے دوران ہی کوئی نتیجہ اَخذ کرکے اس پر کمنٹ کردیتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا جائے تو نہ صرف ان کی خود اعتمادی بڑھے گی بلکہ وہ خود کو گھر کا اہم فرد سمجھیں گے۔

اس مضمون میں بچّوں کی بات سننے اور نہ سننے کے تعلق سے چند اہم پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے ان کو پڑھیے اور عمل کرنے کی نیت کیجیے۔

بچّے کے سوالوں کا جواب دیجیے

جب بچّہ ماں باپ سے کوئی سوال کرتا ہے تو یہ دراصل اُس کی طرف سے سمجھنے اور سیکھنے کی فطری خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں والدین کو چاہیے کہ وہ جھنجھلاہٹ یا غصّے کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پیار اور نرمی سے اس کے سوال کا صحیح اور مناسب جواب دیں۔ اگر والدین بچّے کے سوال کو سنجیدگی سے لیں اور سمجھانے کے انداز میں جواب دیں ایک تو اس کی معلومات میں اضافہ ہوگا اور دوسرا اس میں خود اعتمادی پیدا ہوگی۔اس کے علاوہ والدین اور اولاد کے درمیان محبّت اور قربت بھی مضبوط ہوگی۔

بچّے کی تکلیف کو نظر انداز مت کیجیے

جب بچہ کسی تکلیف کا ذکر کرے تو والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے ہرگز نظر انداز نہ کریں۔ اگر بچہ جسمانی درد یا کسی بیماری کی شکایت کرے تو فوراً توجہ دیں، اس کی بات پوری سنیں اور مناسب علاج کا انتظام کریں۔ اسی طرح اگر وہ بتائے کہ کسی نے اسے باہر، مثلاً اسکول یا محلّے میں تنگ کیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے تو اس  بات کو بھی سنجیدہ لیں اور مناسب اقدام کریں۔ بچے کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس کے والدین  پریشان کُن وقت میں اس کے ساتھ ہیں بلکہ اس کے محافظ ہیں اور اس کی بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ جب والدین اس کی تکلیف کو سمجھ کر اس کا حل نکالتے ہیں تو بچے کے دل میں اعتماد پیدا ہوتا ہے، وہ خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے اور آئندہ بھی سچائی کے ساتھ اپنی بات کوبیان کرنے کا حوصلہ پاتا ہے۔

بچّے کی خواہش کو مکمل نظر انداز نہ کیجیے

جب بچہ کسی چیز کی خواہش کرے تو والدین کو چاہیے کہ وہ اس خواہش کو نظر انداز کرنے کے بجائے پہلے غور کریں کہ آیا وہ خواہش جائز ہے یا نہیں۔ اگر وہ خواہش  اس کے حق میں نقصان دہ نہ ہو یا کم از کم غلط یا فضول نہ ہو اور والدین کی استطاعت میں ہو تو اسے ضرور پورا کر دینا چاہیے۔ جائز خواہش پوری کرنے سے بچے کے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے والدین سے مَحبّت محسوس کرتا ہے اور دوسرے بچّوں کی وجہ سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے، چیزوں کے لیے کُڑھنے اور ترسنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بِلاوجہ ہر خواہش کو رد کر دیا جائے تو بچہ دل برداشتہ اور ضِدّی  و باغی ہو سکتا ہے۔ اس لیے سمجھداری یہ ہے کہ والدین بچے کی خواہشات کا جائزہ لے کر انہیں اپنی طاقت اور حالات کے مطابق پورا کریں۔

بچّے کی ہر خواہش پوری نہ کریں

بچے کی ہر بات سنیں ضرور! لیکن ہر بات پر عمل نہ کریں۔ اس کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری نہ کریں، کیونکہ ایسا کرنے سے بچے کی عادت بگڑ سکتی ہے۔ اگر بچہ یہ دیکھے کہ اسے ہر بات پر ہاں ملتی ہے تو وہ ضدی اور غیر ذمہ دار بن سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ والدین بچے کو سمجھائیں کہ ہر خواہش پوری نہیں ہوتی، وقت اور حالات بعض چیزوں کی اجازت نہیں دیتے۔ اس سے بچے کو صبر، شکر اور ضبطِ نفس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جب والدین اعتدال کے ساتھ جائز خواہشات پوری کریں اور غیر ضروری و بے جواز خواہشات سے نرمی سے منع کریں تو بچے کے اندر صحیح اور غلط کی  تمیز پیدا ہوتی ہے۔

بچّوں کی بات نہ سننے کے نقصانات

اعتماد کی کمی اور احساسِ کمتری:

والدین اگر بچّوں کو نظر انداز کریں گے یا بات کرتے وقت ان کو خاموش کروا دیں گے تو آئندہ وہ کُھل کر بات نہیں کر پائیں گے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کی صلاحیتیں اور ذہانت ضائع ہوسکتی ہے۔اسی طرح اگر بچے بار بار بات کریں اور بڑے انہیں سنجیدگی سے نہ لیں تو ان کے دل میں یہ احساس بیٹھ جاتا ہے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس سے ان کا اعتماد کمزور ہو جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بچے سوچنے لگتے ہیں کہ وہ غیر اَہم ہیں یا ان کی رائے کی کوئی وُقعت نہیں۔ یہ احساس آگے چل کر ان کی شخصیت کو دبا دیتا ہے۔

رشتہ کمزور ہونا:

جب بچّوں کو لگے کہ والدین یا بڑے ان کی بات نہیں سنتے تو وہ ان سے دل کی باتیں چھپانے لگتے ہیں یا گھر کے باہر دیگر لوگوں سے اپنے دل کی بات کہتے ہیں جس سے  والدین اور بچوں کے درمیان  تعلق میں کمزوری آجاتی ہے اور اس طرح کا ماحول اکثر ماں باپ اور بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

ذہنی دباؤ:

اگر والدین بچّوں کی بات سننے میں دلچسپی نہ لیں تو بچوں کے دل میں بہت سی باتیں دَب جاتی ہیں جس سے وہ بے سکونی  اور ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں جو کہ ان کی تعلیم و تربیت پر بُرا اثر ڈالتا ہے۔

صلاحیتوں کا زِیاں:

بعض اوقات بچوں کی باتوں میں نئے نئے آئیڈیاز ہوتے ہیں۔ اگر انہیں سنجیدگی سے نہ سنا جائے تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں اور نئے آئیڈیاز ضائع ہو جاتے ہیں۔

 خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کی بات نہ سننے یا سنجیدہ نہ لینے سے ان کی شخصیت، تعلیم اور مستقبل سب متاثر ہوتے ہیں۔ کامیاب والدین وہ ہیں جو بچوں کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں، اچھی باتوں پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور غلط باتوں پر انہیں پیار اور سمجھداری کے ساتھ درست راستہ دکھاتے ہیں۔یہی اصل تربیت ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share