بچوں کو گفتگوکا سلیقہ کیسے سکھائیں؟

بچوں کو گفتگو کا سلیقہ کیسے سکھائیں؟


گفتگو انسان کے اخلاق، تعلیم و تربیَت اور شخصیّت کو واضح کرتی ہے۔ بچپن میں ڈالی گئی عادات زندَگی بھر ساتھ رہتی ہیں۔ اسی لیے والدین کی ذمّہ داری ہے کہ وہ بچّوں کو گفتگو کا سلیقہ سکھائیں تاکہ وہ معاشرے میں باوقار اور مہذّب انسان بن سکیں۔ ذیل میں چند اَہَم نِکات بیان کیے جا رہے ہیں:

سَلام سے گفتگو کا آغاز

محترم والدین! بچّوں کو سکھائیے کہ گفتگو کا آغاز سَلام سے کریں۔بچّوں کو اس کا عادی بنانے کے لیے یوں ذہن سازی کی جاسکتی ہے کہ”سلام دینِ اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں سے ہے۔سلام محبّت، بھائی چارے اور اَمن کا ذریعہ ہے۔ جب کوئی مسلمان دوسرے سے ملاقات کرتا ہے اور ”سلام“ کرتا ہے تو دراصل وہ یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ میری طرف سے تمہیں ہر قسم کے شَر سے امان ہے اور میں تمہارے لیے خیر و برکت کی دُعا کر رہا ہوں۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:تم جنّت میں نہ جاؤ گے جب تک ایمان نہ لاؤ، اور ایمان نہ لاؤ گے جب تک آپس میں محبّت نہ کرو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرو تو آپس میں محبّت کرنے لگو؟ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔(مسلم،ص51،حدیث: 194)

خود عملی نمونہ بنیں

بچّے کانوں سے کم، آنکھوں سے زیادہ سیکھتے ہیں۔بچّوں کے لیے ماں باپ سب سے پہلی اور مضبوط تربیَت گاہ ہیں۔ جو کچھ وہ گھر میں دیکھتے اور سنتے ہیں، وہی ان کے رویّوں اور عادات کا حصّہ بن جاتا ہے۔ اگر والدین خود نَرم لہجے میں بات کریں، سلام کا اہتمام کریں، سلیقے،اَدب و احترام،سچائی اور شائستگی سے گفتگو کریں تو بچّے بھی یہ عادات آسانی سے اپنا لیں گے۔ اس کے برعکس اگر گھر میں چیخ و پکار، سخت الفاظ یا جھوٹ کا ماحول ہوگا تو بچّے بھی وہی رویّہ اپنائیں گے۔

نرم لہجہ اپنانے کی ترغیب

بات کرتے وقت نرم اور پیار بھرا لہجہ اپنانا اور سخت الفاظ سے اجتِناب نبوی تعلیمات میں سے ہے۔نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ارشاد ہے:نرمی جس چیز میں ہو اُسے زینت دیتی ہے، اور جس سے نکل جائے اُسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ (مسلم، ص1073،حدیث: 6602) اس لیے بچّوں کو یہ سکھانا ضَروری ہے کہ وہ بات کرتے وقت آواز دھیمی رکھیں، سخت جملے استعمال نہ کریں، اور الفاظ میں نرمی رکھ کر دوسروں کے دل جیتیں۔

ٹھہر ٹھہر کر گفتگو

غیر معمولی تیزرفتاری سے گفتگو وَقار میں کمی کرتی ہے۔ والدین بچّوں کو سکھائیں کہ سُکون اور وقار سے ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کریں۔اس کے لیے بچّوں کو اُمُّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ روایت سنائیں جس میں آپ فرماتی ہیں کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ واضح اور صاف صاف گفتگو فرماتے، جو بھی آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے حضور بیٹھا ہوتا اس گفتگو کو یاد کر لیتا تھا۔(شمائل ترمذی،ص183،حدیث:224)

بات سننے کا سلیقہ

اچّھے انداز میں بات کرنا جتنا ضَروری ہے، مہذّب طریقے سے بات سننا بھی اتنا ہی ضَروری ہے۔ اکثر بچّے دوسروں کی بات کاٹ دیتے ہیں یا پوری بات سنے بغیر جواب دینا شروع کر دیتے ہیں، یا کسی کی بات سنتے وقت پوری طرح متوجّہ نہیں ہوتے جو کہ انتہائی ناپسندیدہ چیزیں ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچّوں کو سکھائیں کہ جب کوئی بات کر رہا ہو تو خاموشی سے سنیں، بیچ میں مداخلت نہ کریں اور پوری بات سمجھنے کے بعد ہی جواب دیں۔

بڑوں سے گفتگو میں احترام

گفتگو کا سب سے خوبصورت پہلو بڑوں کا احترام ہے۔ والدین بچّوں کو سکھائیں کہ وہ بڑوں سے بات کرتے وقت مؤَدّب الفاظ استعمال کریں، آواز نیچی رکھیں،اسی طرح یہ بھی سکھائیں کہ بڑوں سے گفتگو کرتے وقت ”جی“، ”براہِ کرم“، ”مہربانی“ یا اس جیسے الفاظ استعمال کریں جن میں اَدب و احترام کا لحاظ موجود ہو ۔

اختلاف کا مہذّب طریقہ

بچّوں میں چھوٹی موٹی باتوں پر اختلاف ہوجانا معمولی بات ہے لیکن اختلاف کے وقت بدتمیزی کرنا بُرا ہے۔ بچّے اکثر کھیل یا بات چیت میں اپنی بات منوانے کے لیے غصّہ کرتے ہیں، اُونچی آواز میں چیختے ہیں یا لڑائی شروع کر دیتے ہیں جو کہ انتہائی بُری عادت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں کو سمجھائیں کہ اگر کسی بات پر اختلاف ہو تو نرمی سے، اَدب کے ساتھ اپنی بات رکھنی چاہیے۔

الفاظ کے ساتھ چہرے کے تأثّرات

بات کرتے وقت چہرے کے تأثّرات خوشگوار رکھنا بھی گفتگو کا سلیقہ ہے۔ بچّوں کو سکھائیں کہ مسکرا کر بات کریں، اس سے دوسروں کے دل میں اپنائیت پیدا ہوتی ہے ۔بات کرتے وقت خوشگوار چہرہ اور مسکراہٹ رکھنا احادیث کی تعلیمات ہیں۔ حضور نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہمیشہ نرم لہجے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ بات فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبدُاللہ بن حارِث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے زیادہ مسکراتا ہوا کوئی نہیں دیکھا۔ (ترمذی،5/542، حدیث:226) لہٰذا والدین بچّوں کو سکھائیں کہ وہ بات کرتے وقت چہرے پر خوشگوار تأثّر اور مسکراہٹ رکھیں۔

 واقعات اور سبق آموزکہانیوں کے ذریعے تربیَت

بچّوں کی فطرت ہے کہ واقِعات اور کہانیوں کی زبان جلد سمجھتے ہیں۔ واقعات اور کہانیاں بچّے شوق سے سنتے ہیں جس کی وجہ سے بات دل میں اُتر جاتی ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ بچّوں کو نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، صحابۂ کرام اور اولیائے کرام کے واقِعات اور مختلف سبق آموز کہانیاں سنائیں جن میں اخلاق، سچّائی اور نرم گفتگو کے سبق ہوں۔

ملاقات کا اختتام دُعاؤں  اور نیک تمنّاؤں کے ساتھ

جیسے ملاقات کا آغاز سلام اور خیرخواہی سے کرنا دینی تعلیمات میں سے ہے، ویسے ہی ملاقات  کا اختِتام دُعا اور نیک تمنّاؤں کے ساتھ کرنا بھی بہت اَہَم ہے۔ملاقات کے آخِر میں”اللہ آپ کو خوش رکھے“ یا ”اللہ آپ کی مشکل آسان کرے“ یا اس جیسے دیگر کلمات کہنا سامنے والے کے لیے خوشی کا سبب بن سکتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں میں یہ عادت ڈالیں کہ وہ ملاقات کے اختِتام پر ہمیشہ نیک دُعا کے الفاظ ضَرور کہیں، تاکہ ان کی گفتگو دوسروں کے لیے خوشی کا ذریعہ بن  جائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share