پھوپھی اور ہمارا سماج!
آج کے دور میں ہماری اَقْدار اور رشتوں کا احترام تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر خونی رشتوں کی اہمیّت کو نظر اَنداز کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مِیمز اور پوسٹوں کے ذریعے Trolling اور روز مرّہ زندَگی میں بے رَحمی کے ساتھ بدنام کئے جانے والے رشتوں میں سے ایک بہت اَہم رشتہ ”پھوپھی“ کا بھی ہے۔ گُزشتہ سالوں اور خاص کر نئی نسل(یعنی Gen-z) میں اِسے اس قَدر بُرائی کے روپ میں پیش کیا گیا کہ باپ کی طرف سے بننے والے اس محترم رشتے کو طنز وتحقیر کی علامت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
اسباب : پھوپھی کے خلاف بھڑکانے کے اسباب میں بہت مرتبہ ماں کی باتیں، رویّے اور تربیَت کا دخل رہتا ہے۔ ماؤں کی جانب سے ملنے والامجموعی تأَثّر اپنے گہرے نقوش چھوڑتا ہے، بچپنے میں کسی کے بارے میں بننے والی رائے یا سوچ دور تک ساتھ جاتی ہے، جو عمر اور واقعات کے ساتھ مزید واضح ا ور پختہ ہوتی جاتی ہے۔گھر میں نَند اور بھاوَج کا کسی معاملےمیں اختلاف ہوجائے تو دانش وَری اور اخلاق کا تقاضا تو یہی تھا کہ بچّوں کو اس کی بَھنک تک نہ پڑتی مگر ان ننّھی کِھلتی کلیوں کے سامنے ان کے بڑوں کی بُرائیاں کرنا، خود کو بے قصور اور سامنے والے کو قصور وار ثابت کرنے کے لیے ان کی کمزوریاں بچّوں کو بیان کرنا اور یوں ان کچّے ذہنوں میں نفرتوں کا زہر بھرنا،کہاں کی عقل مندی ہے ! گھر کی باتیں گھر اور متعلّقہ فرد تک محدود رکھنے میں ہی بھلائی ہے۔
گھر کی باتوں کو کوئی کیسے گلی تک لایا
ایسے زخموں کو بھلا کون کُھلا چھوڑ گیا!
بِالفرض! سامنے والا (رشتہ دار پھوپھی وغیرہ )اپنی ذمّے داری بخوبی سر انجام نہیں دیتا تو اس کو اپنے لیے سَر دَرْد بنالینے کے بجائے حقوق کو اچّھے انداز میں نبھانے پر توجّہ دی جائے جیسا کہ حدیث میں ارشاد فرمایا گیا: ”اَدُّوا اِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُمْ“ یعنی تم ان کا حق اَدا کرو اور اپنے حق کا سُوال اللہ پاک سے کرو۔([1]) موبائل کا بیک کیمرہ کھول کر دوسروں کی نگرانی کرنے کے بجائے عافیَت اس میں ہے کہ فرنٹ کیمرے میں اپنا محاسبہ کیا جائے! دوسروں میں کمیاں اور عیب تلاشنے پھران پر تبصرے کرنے کی جگہ اگر ہر بندہ اپنا محاسبہ کرنے لگ جائے تو گھربلکہ معاشرہ اَمن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
بہتر کون ؟دینِ اسلام، گھر کی خواتین کے ساتھ بھلائی کرنے اور اچّھائی سے پیش ا ٓنے کی ترغیب دیتا ہے۔رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ اِيمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِھِم یعنی مسلمانوں میں کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو سب سے اچّھے اخلاق والا ہو اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہو۔([2]) عورتوں سے مراد: جن عورتوں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنے کا فرمایا گیا ہے، اُن میں اُصول ( یعنی ماں، دادی، نانی )،فُروع ( یعنی بیٹی، پوتی، نواسی)، رشتہ دار (حقیقی و رضاعی بہن، پھوپھی، خالہ) اور بیوی داخل ہیں۔([3]) حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک پر ایمان لانے کے بعد سب سے افضل عمل صلۂ رِحمی (یعنی رشتے جوڑنا) ہے۔([4]) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمّت کو دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے سے قبل آخِری اَیّام میں بھی قرابت داروں کی عزّت و تکریم اور ان کے ساتھ اچّھا برتاؤ کرتے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”ارْحامَكُمْ! ارْحامَكُمْ!“ ([5]) یعنی قریبی رشتہ داروں سے صلۂ رِحمی کرو ! قریبی رشتہ داروں سے صلۂ رِحمی کرو! اُن کے حقوق میں کوتاہی کرنے سے بچو! ([6]) یاد رکھیے! صلۂ رِحمی واجِب ہے۔ دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ وغیرہ کے حقوق بھی ماں باپ ہی کی طرح ہیں۔([7])
جنّت سے محروم : رشتہ داروں سے زیادتی یا ان کے حقوق اَدا نہ کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا: ”قاطع ِ رِحْم جنّت میں داخل نہ ہوگا۔“([8]) علّامہ شمس الدّین ذَھبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی وہ شخص جو بہن، خالہ،پھوپھی، بھتیجی وغیرہ قریبی رشتہ داروں سے تعلّق توڑے۔([9]) صلۂ رِحمی کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ تعلّقات بنائے رکھے ناراضی نہ پالے،سلام و کلام جاری رکھے اور اچّھا سُلوک کرے۔ ([10])
آخِر کب تک اچّھائی کریں؟ ایک شخص نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، میں ان سے تعلّق جوڑتا ہوں، وہ مجھ سے توڑتے ہیں، میں ان سے بھلائی کرتا ہوں وہ مجھ سے بُرائی کرتے ہیں، میں بردباری کا مظاہرہ کرتا ہوں،وہ نامناسب سُلوک برتتے ہیں،تو نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر ایسا ہی ہے جیسا کہہ رہےہو، تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ بھر رہے ہو([11]) جب تک تم اسی رَوِش پر رہو گے، تو اللہ کی طرف سےان کے خلاف ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔([12]) رشتوں اور محبتوں میں دڑار پھوپھی (یا کسی رشتہ دار ) کی جانب سے ہی آئی ہو، جب بھی دینِ اسلام اس بات کی تاکید کرتاہے کہ آپ آگے بڑھ کر صلح کریں اور رشتہ داری بچائیں ورنہ محض اَدلے کا بدلہ کہلائے گا۔کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بدلے کے طور پر نیکی کرنے والا، جوڑنے والا نہیں بلکہ جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسےجوڑے۔([13])
ایک حدیثِ مبارَکہ میں ارشاد فرمایا : ”ہر شخص کے ساتھ نیکی کروچاہے وہ اس کا اہل ہویانہ ہوکیونکہ اگر تم نے اہل سے نیکی کی تو یقیناً وہ اسی کا حقدار تھا اور نااہل کے ساتھ کی تو تم تو اس(بھلائی کرنے ) کے اہل ہو! “([14])
لمحۂ فکریہ !بچّوں کو ان کی پھوپھی کے خلاف بھڑکانے والی خواتین یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ وہ بھی آخِر کسی کی پھوپھی ہیں! ایسے مرد یہ کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان کی ماں، بہن اور بیٹی بھی کسی کی” پھپُو“ ہے یا بنے گی!دنیا میں انسانی رویّوں کا معاملہ دائرہ وار ہے! سادہ لفظوں میں کہیے تو جیسا سُلوک کسی کے ساتھ کرتے ہیں گھوم پھر کر ہمارے ساتھ بھی قریباً ویسا ہی برتاؤ ہوسکتاہے۔اچّھا کیا تو اچّھا! بُرا کیا تو بُرا! ونَعُوذُ بالله ِ مِنْ تَبِعَاتِ الذُّنُوبِ (اور ہم اللہ پاک سے گناہوں کے بُرے نتائج سے پناہ مانگتے ہیں۔)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ اردو لغت، المدینۃ العلمیہ
Comments