پردہ
پوشی
اللہ پاک کے مبارَک ناموں میں سے ایک نام ”سَتّار“ بھی ہے،جس کا معنیٰ ہے عیبوں کو چُھپانے والا اور پَردہ پوشی فرمانے والا۔ اللہ کریم اپنے کرم سے اپنے بندوں کے عیبوں کو چُھپاتا اور پَردہ پوشی فرماتا ہے اور پَردہ پوشی کرنے کو پسند بھی فرماتا ہے جیسا کہ رَسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: اللہ پاک حَیا والا اور پَردہ پوش ہے، حیا اور پَردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے۔ ([1])
اللہ پاک کی ذات تمام عیبوں سے پاک ہے،اَنبیائے کِرام علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام اور فرشتے خامیوں سے پاک اور معصوم ہیں، باقی ہم جیسے گنہگار تو سراپا خطاکار اور عیب دار ہیں۔ ہر کسی میں کوئی نہ کوئی عیب پایا جاتا ہے،یہ اللہ پاک کی کرم نوازی ہے کہ وہ ہمارے عیبوں پر پَردہ ڈال دیتا ہے،ہمیں بھی چاہیے کہ اگر بتقاضائے بشریت ہم سے کوئی گُناہ سرزد ہو جائے تو ہم خود بھی اپنی پَردہ پوشی کریں۔ رَسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: میرے ہر اُمَّتی کو مُعاف کر دیا جائے گا سِوائے ان لوگوں کے جو گناہوں کو ظاہر کرتے ہیں اورگُناہ ظاہر کرنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی مَرد رات میں کوئی(گناہ کا) کام کرے، پھر جب صبح ہوتو اللہ پاک نے اس کا پَردہ رکھ لیا ہو،پھر وہ کہے: اے فُلاں! میں نے گُزشتہ رات اِس اِس طرح کیا ہے حالانکہ اُس نے اِس حال میں رات گزاری تھی کہ اس کے رَب نے اُس کا پَردہ رکھا ہوا تھا اورصبح کو وہ اللہ پاک کے رکھے ہوئے پَردے کو کھول دے۔([2])
یاد رَکھیے!جہاں ہمیں اپنی پَردہ پوشی کرنے کا حکم ہے وہاں بطورِ خاص اپنے مسلمان بھائیوں کی پَردہ پوشی کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔چنانچہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے اِرشاد فرمایا:
وَّ لَا تَجَسَّسُوْا
ترجَمۂ کنزالایمان : ”اور عیب نہ ڈھونڈو۔“([3])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
آیتِ کریمہ کے اِس حصّے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی سَتّاری سے چُھپایا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے مُعاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے عیب کی جستجو اور تلاش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی کا کوئی عیب معلوم ہو تو اس کا چرچا کریں، حالانکہ وہی عیب بلکہ اس کے علاوہ بیسیوں عیوب اپنی ذات میں بھی موجود ہوتے ہیں مگر وہ نظر نہیں آتے،سامنے والے کا ایک عیب بھی نظر آ جاتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے حدیثِ پاک میں اِرشاد فرمایا:یُبْصِرُ اَحَدُکُمُ الْقَذَاۃَ فِی عَیْنِ اَخِیْہِ وَیَنْسَی الْجِذْعَ فِیْ عَیْنِہٖ تم میں سے کسی کو اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا۔([4])
اَحادیثِ مبارکہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کی پَردہ پوشی کی بڑی فضیلت اور اَہمیت بیان کی گئی ہے چنانچہ رَسُولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:مَنْ رَا ٰی عَوْرَۃً فَسَتَرَھَا كَانَ كَمَنْ اَحْيَا مَوْ ءُوْدَةً مِّنْ قَبْرِهَا جو کسی کا پوشیدہ عیب دیکھے پھر اُسے چُھپالے تو وہ اُس شخص کی طرح ہے جس نے زندہ دَفنائی گئی بچّی کو قبر سے نکال کر اُس کی جان بچا لی۔ ([5])
نبیِ مکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے:جو اپنے بھائی کی پَردہ پوشی کرے گا اللہ پاک قیامت کے دِن اُس کی پَردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے بھائی کا راز کھو لے گا اللہ پاک اُس کا راز ظاہِر کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر ہی میں رُسوا ہو جائے گا۔([6])
ایک اور حدیثِ پاک میں اِرشاد فرمایا:مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے تو اللہ پاک قِیامت کے روز اُس کی عیب پوشی فرمائے گا۔([7])اِس حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی اگر کوئی حَیادار آدمی ناشائستہ حرکت خُفیہ کر بیٹھے پھر پچھتائے تو تم اسے خُفیہ(طور پر)سمجھا دو کہ اس کی اِصلاح ہو جائے، اُسے بدنام نہ کرو، اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ قِیامت میں تمہارے گُناہوں کا حساب خُفیہ ہی لے لے گا تمہیں رُسوا نہ کرے گا۔ہاں ! جو کسی کی اِیذا کی خفیہ تدبیریں کر رہا ہو یا خفیہ حرکتوں کا عادی ہو چکا ہو اُس کا اِظہار ضرورکر دو تاکہ وہ شخص اِیذا (یعنی تکلیف) سے بچ جائے یا یہ توبہ کرے، یہ قیدیں ضَرور خیال میں رہیں۔غرضکہ صرف بدنامی سے کسی کو بچانا اچّھا ہے مگر اس کے خُفیہ ظلم سے دوسرے کو بچانا یا اُس کی اِصلاح کرنا بھی اچّھا ہے،یہ فرق خیال میں رہے۔یہاں (صاحبِ) مِرقات نے فرمایا کہ جو مسلمان کی ایک عیب پوشی کرے رب تعالیٰ اس کی سات سو عیب پوشیاں کرےگا۔ ([8])
مسلمان کی پَردہ پوشی کی اتنی اَہمیت ہے کہ ایک بار حضرت جبریل امین علیہ الصّلوٰۃ ُوالسّلام نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !اگر ہم فرشتے زمین پر اللہ پاک کی عبادت کرتے تو تین اَعمال ضَرور بجا لاتے:مسلمانوں کو پانی پلانا، بال بچّے دار شخص کی مدد کرنا اور مسلمانوں سے ہونے والے گُناہوں کی پَردہ پوشی کرنا۔([9])پردہ پوشی سے مالا مال ایک نیک بندے کی حکایت ملاحظہ کیجئے: کسی آدمی کی اپنی بیوی سے جنگ رہتی تھی،اس کے ایک دوست نے پوچھا کہ تیری بیوی میں خرابی کیا ہے؟ وہ بولا کہ تم میرے اَندرونی مُعاملات پوچھنے والے کون ہو ؟ آخر اسے طلاق دے دی، اس سائل نے کہا کہ اب تو وہ تمہاری بیوی نہ رہی،اب بتاؤ اس میں کیا خرابی تھی؟ یہ بولا: وہ عور ت غیر ہو چکی مجھے کسی غیر کے عیوب بتانے کا کیا حق ہے؟ یہ ہے پردہ پوشی۔([10])
فی زمانہ پَردہ پوشی کرنے کے بجائے بات کو خوب بڑھا چڑھا کر اور مِرچ مَصالحہ لگا کر بیان کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے کی اچّھی طرح ذِلّت و رُسوائی ہو، یہ بہت بڑا گُناہ ہے ۔اِس بات کو اِس حکایت سے سمجھنے کی کوشش کیجیے چنانچہ حضرت سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السَّلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: اگر تم اپنے بھائی کو اِس حال میں سوتا پاؤ کہ ہوا نے اس سے کپڑا ہٹا دیا ہے تو تم کیا کرو گے؟ انہوں نے عرض کی:اُس کی سَتْرپوشی کریں گے اور اسے ڈھانپ دیں گے۔ توآپ علیہ الصّلوٰۃ ُوالسّلام نے فرمایا: بلکہ تم اُس کا سَتْر کھول دو گے۔حواریوں نے تعجّب کرتے ہوئے کہا:یہ کون کرے گا؟آپ علیہ الصّلوٰۃ ُوالسّلام نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے بارے میں کچھ سنتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور یہ اُسے بَرہنہ کرنے سے بڑا گُناہ ہے۔([11])
ہونا تو یہ چاہیے کہ جب دوسرے کے عیوب بیان کرنے کو جی چاہے،بندہ اُس وقت اپنے عُیُوب کی طرف مُتَوجّہ ہو جائے اور اُنہیں دُور کرنے میں لگ جائے،یہ بہت بڑی سعادت اور خوشخبری والی بات ہے چنانچہ ہادیٔ راہِ نَجات،سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:طُوْبٰى لِمَنْ شَغَلَهُ عَيْبُهُ عَنْ عُيُوْبِ النَّاسِ یعنی اُس شخص کے لیے خوشخبری ہے،جسے اُس کے اپنے عیب نے لوگوں کے عیوب بیان کرنے سے باز رکھا۔([12]) حضرت عبدُاللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے:اِذَا اَرَدْتَ اَنْ تَذْكُرَ عُيُوبَ صَاحِبِكَ فَاذْكُرْ عُيُوبَكَ جب تم اپنے ساتھی کی بُرائیاں بیان کرنا چاہو تو اپنی بُرائیاں یاد کر لیا کرو۔([13])
اللہ پاک ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی پردہ پوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، ذمہ دار شعبہ خلیفہ امیراہلسنت


Comments