لڑکیوں کو اُمورِ خانہ داری سکھانا

لڑکیوں کو اُمورِ خانہ داری سکھانا


عورت خدا کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسانی معاشرے کی تعمیر و ترقّی میں اہم کردار ادا کرتی  ہے۔ اگر عورت نہ ہوتی تو دنیا کی رونق، محبّت اور خوبصورتی ماند پڑ جاتی۔ وہ بچپن میں بھائی بہنوں سے محبّت کرتی ہے، شادی کے بعد شوہر کی وفادار ساتھی بنتی ہے اور ماں بن کر اولاد پر اپنی محبّت اور قربانی نچھاور کرتی ہے۔اسلام سے پہلے عورت کی کوئی عزّت نہ تھی، وہ وراثت، ملکیت اور معاشرتی حقوق سے محروم تھی، ظلم سہتی اور بے بسی کی زندَگی گُزارتی تھی۔ مگر جب نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  دینِ اسلام کا پیغام لائے تو عورت کے مقام میں انقلابی تبدیلی آئی، اسے عزّت، وراثت میں حصّہ، مالکانہ حقوق اور معاشرتی حیثیت دی جانے لگی، یوں وہ معاشرے میں ذلیل ہونے کے بجائے گھر کی ملکہ بن گئی۔ عورت کی زندَگی مختلف مراحل سے گُزرتی ہے۔جوان ہونے کے بعدعورت کی شخصیت نکھرتی ہےاور وہ معاشرتی ذمّے داریوں کے لیے تیار ہوتی ہے۔بیوی بننے کے بعد وہ گھر کی نگہبان، شوہر کی ساتھی، اور خاندان کی بنیاد بنتی ہے۔ماں بننے کے بعد وہ محبّت، قربانی، اور تربیَت کی عظیم مثال بن جاتی ہے۔

آج کے جدید دور میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم، ہنر اور شعور کو بہت اہمیّت حاصل ہے، وہیں گھریلو زندگی کی بنیادی تربیَت بھی نہایت ضَروری ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے میں جتنا خُلوص دکھاتی ہیں، امتحانات کے دوران ان کے آرام کا جتنا خیال رکھتی ہیں، اُتنا ہی ضَروری ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو نرمی اور محبّت سے گھریلو ذمّہ داریاں نبھانا بھی سکھائیں۔ اکثر مائیں بیٹیوں کو بچپن سے ہی گھر کے کاموں سے بریُّ الذِّمہ رکھتی ہیں اور اچانک شادی کے بعد اُن سے ہر گھریلو کام کی توقّع کی جاتی ہے،جس سے لڑکی کو شرمندگی، ناپختگی اور گھریلو تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لڑکی اگر سالن، آٹا، مصالحے یا چائے تک بنانا نہ جانے تو سسرال میں ناسمجھی، اُلجھن اور بعض اوقات تَضحیک کا سامنا کرتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ خود کو ناکام محسوس کرتی ہے اور ماں سے فون پر مدد مانگتی ہے، حالانکہ اگر اُسے وقت پر پیار سے کھانا پکانا، صفائی، سلیقہ شعاری اور کچن کےمعمولات سکھائے جائیں تو وہ شادی کےبعد اعتماد کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کر سکتی ہے۔ اس لیے ہر ماں پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو تعلیم کے ساتھ گھریلو ہنر بھی ضَرور سکھائے تاکہ وہ دنیا میں باعزّت، خوشحال زندگی گزارے اور آخِرت میں بھی کامیاب ہو۔

بیٹی کی تربیَت میں اعتِدال اور توازن بہت ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سارا زور صرف اُمورِ خانہ داری پر دیا جائے اور بیٹی کو تعلیم و شعور سے ہی مَحروم کر دیا جائے، اور نہ ہی ایسا ہو کہ صرف تعلیم پر ہی زرور دیا جائے اور بچی گھریلو معاملے سے فرار کا راستہ ڈھونڈتی رہے۔ بیٹی کو محبّت، نرمی اور حکمتِ عملی سے یوں سکھایا جائے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ گھریلو کاموں میں بھی دلچسپی لینے لگے اور فارغ وقت میں صرف آرام کرنے کے بجائے اپنی ماں کا ہاتھ بٹائے۔ وقت آنے پر اُسے یہ سمجھایا جائے کہ شادی کے بعد زندَگی کی نوعیت بدل جاتی ہے اور گھر کے نظام کو سنبھالنا، شوہر کے ساتھ نباہ کرنا اور سلیقے سے رہنا ایک عورت کے حُسنِ سُلوک کی علامت ہے۔ وہ اپنی ماں یا تجربہ کار خواتین سے سیکھے کہ ایک بیوی اور بہو کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، تاکہ نہ وہ شریعت کی نظر میں کوتاہ ٹھہرے، نہ سسرال میں شرمندگی اُٹھائے، اور نہ ہی معاشرے کے طعنے سہنے پڑیں، بلکہ وقار، سلیقے اور علم و ہنر کے ساتھ اپنی اَزدواجی زندَگی کا کامیاب آغاز کر سکے۔

عورت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر شوہر غریب ہو اور نوکرانی رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو عورت اپنے گھر کا کام خود کرے، اس میں نہ کوئی ذلّت ہے نہ شرم۔ بخاری شریف کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولُ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شہزادی، خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا بھی اپنے گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتیں، کنویں سے پانی بھرنا، چکّی پیسنا حتیٰ کہ ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے۔ اسی طرح حضرت اسماء رضی اللہُ عنہا بھی اپنے غریب شوہر حضرت زبیر  رضی اللہُ عنہ کے گھر کا سارا کام کرتیں، گٹھلیاں چن کر لاتیں، گھوڑے کا چارہ لاتیں اور اس کی مالش تک خود کرتیں۔(دیکھیے: جنتی زیور،ص60) گھریلو کام کے ساتھ ساتھ عبادت، علمِ حدیث و فقہ میں مہارت، اور شوہر کی خدمت یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بیبیاں نہایت باعمل، پاکیزہ اور باوقار زندگی گُزارتی تھیں، ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتیں۔ اے پیاری بہنو! کاش ہماری زندگیوں میں بھی ان مقدّس ہستیوں کی جھلک آجائے، تو ہماری زندگی بھی جنّت کا نمونہ بن جائے۔

لڑکیوں کو اُمورِ خانہ داری میں بنیادی ہنر اور سلیقے  محبّت سے سکھانے چاہئیں تاکہ وہ زندگی کے ہر مرحلے میں خودکفیل اور بااعتماد بن سکیں۔ ان میں آسان دستکاریاں جیسے سوئٹر بننا، موزے، ٹوپیاں، کپڑے سینا، ہاتھ سے ٹانکے لگانا شامل ہوں۔ کھانا پکانے میں روٹی، دال، سبزیاں، گوشت، مرغی، قیمہ، کلیجی، پکوڑے، پلاؤ وغیرہ روزمرّہ کے کھانے اور خاص مواقع کے لیے بریانی، قورمہ، کوفتے، کڑھائی اور ہر خاندان کے ذوق کے مطابق خاص پکوان بنانا آنا چاہیے، مثلاً پنجابی گھرانوں میں ساگ اور مکئی کی روٹی۔ اسی طرح اچار، چٹنیاں، مربّے اور موسمی مشروبات جیسے لسّی، ستّو، لیموں پانی، مِلک شیک، آم یا کیلا کا جوس وغیرہ بنانا بھی سکھایا جائے۔ بیماری یا حادثے کی صورت میں ابتدائی طبّی امداد جیسے جلنے، کٹنے، موچ، درد، بخار، بلڈ پریشر یا شوگر کی حالت میں فوری اقدامات آنا نہایت ضروری ہے۔ صفائی میں یہ اُصول واضح ہوں کہ جھوٹے یا دوا لگے برتن ہرگز استعمال نہ کیے جائیں، بلکہ دھو کر ترتیب سے رکھے جائیں۔ ہفتے میں ایک دن مکمّل صفائی کے لیے مقرّر ہو تاکہ گھر صاف ستھرا اور جراثیم سے پاک رہے۔ جو لڑکیاں یہ ہنر سلیقے سے سیکھ لیتی ہیں، وہ اِن شآءَ اللہ کبھی بھی کسی کی محتاج نہیں بنتیں، بلکہ ایک باوقار، بااعتماد اور باعمل خاتون کے طور پر زندگی گُزارتی ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن


Share

Articles

Comments


Security Code