ٹائم نہیں ملتا

ٹائم نہیں ملتا


سر بلال کلاس روم میں گھوم پھر کے بچّوں کے ہوم ورک چیک کر رہے تھےجبکہ کچھ بچّے جو ہوم ورک نہیں کر کے آئے تھےوہ خود ہی کھڑے ہو کر کلاس روم کےآخِر میں ایک لائن میں کھڑے ہو چکے تھے۔ سر بلال بچّوں کا ہوم ورک چیک کر چکے تو پیچھے کھڑے ہوئے بچّوں کی طرف متوجّہ ہوئے، ہر ایک کے پاس ہوم ورک نہ کرنے کا اپنا اپنا بہانہ تھا۔کسی کے گھر مہمان آ گئے تھے تو کسی کو مہمان بن کر جانا پڑ گیا تھا، ایک نے تو وہی مشہورِ زمانہ بہانہ دہرا دیا تھا کہ سر جی بھول گیا تھا۔ ایک بچّے نے تو ایسی بات کہی کہ ساری کلاس مسکرا اُٹھی جب کہ سر حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے، بچّہ بولا: سر جی ٹائم ہی نہیں ملا۔

ارے بیٹا جی، لگتا ہےابھی سے وزیرِاعظم بن جانے کی وجہ سے آپ کی مصروفیات اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ہوم ورک کا ٹائم نہیں مل پاتا، سر بلال کی بات پر وہ بچّہ بھی مسکرااُٹھا۔ سر بلال نے سَزا میں کھڑے سبھی بچّوں کو واپس اپنی جگہوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی ٹیبل کے پاس آ کر اس کے سہارے بچّوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے، بچّو! ہمارا مسئلہ وقت کی کمی نہیں ہے بلکہ وقت کا بہترین استعمال نہ کرنا ہے، مسلمانوں کے ایک بہت بڑے امام حضرت امام شافعی گُزرے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بُزرگوں کے ساتھ رہ کر یہ سیکھنے کو ملا ہے کہ وقت تلوار کی طرح ہوتا ہے، تم اس کو نہیں کاٹو گے تو یہ تمہیں کاٹ کر رکھ دے گا۔ (انمول ہیرے، ص17)

معاویہ: لیکن سر وقت کو کیسے کاٹا جا سکتا ہے؟

سر بلال: مطلب یہ ہے کہ بھئی اگر وقت کو نیک اور اچّھے کاموں میں مصروف رہ کر نہیں گُزارو گے تو فضولیات اور غلط کاموں میں مشغول کر کے وہ تمہیں کاٹ دے گا۔

دیکھیں بچّو! ایک دن میں چوبیس گھنٹے یعنی کہ ایک ہزار چار سو چالیس منٹس ہوتے ہیں جو اللہ پاک کی طرف سے ہر ایک کو ملتے ہیں، آپ میں سے کوئی بچّہ بھی کھڑا ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ سر جی کل یا پرسوں مجھے میرے منٹس میں سے دس، بیس یا پچاس کم ملے تھے۔ایساہی ہے ناں؟ سر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

جی جی سر، سبھی بچّوں نے کہا۔

سر بلال: تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے ایک بچّہ تو اپنے سارے کام اسی چوبیس گھنٹے میں پورے کر لے جب کہ دوسرا نہ کر پائے، دراصل فرق گھنٹوں کا نہیں ہے بلکہ مصروفیات کا ہے، یعنی ہم بھولے سے یا جان بوجھ کر اپنی مصروفیات میں ایسی فضول چیزیں شامل کر بیٹھتے ہیں کہ ہمارے ضَروری کاموں کے لیے یہ چوبیس گھنٹے بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ اچّھا مجھے ایک اور بات بتائیں جب سے یہ کائنات بنی ہے، دن چوبیس گھنٹے کا ہی ہے نا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انہی چوبیس گھنٹوں کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے بُزرگ اتنی زیادہ عبادات کرنے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے لیے عظیم کام کر جاتے تھے۔

آپ کو پتا ہے جُمادَی الاُولیٰ کے مہینے میں ہم ایک عظیم ہستی کو یاد کرتے ہیں جنہیں امام جلالُ الدّین سُیوطی کہا جاتا ہے۔ آپ اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ آپ کو جاگتی آنکھوں سے 75 مرتبہ ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔

75مرتبہ؟ اُسید رضا نے حیرانی سے کنفرم کرنا چاہا۔

سربلال: جی جی بیٹا 75 بار ہی کہہ رہا ہوں۔ اب ایسے عظیم بُزرگ کے شاگردکہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد محترم کو دیکھا کہ ایک دن میں تین تین کاپیاں لکھتے تھے۔

تین کاپیاں؟ سر انہیں بھی ہوم ورک ملتا تھا کیا؟ پچھلی قطار سے ایک بچّے نے پوچھا۔

نہیں بیٹا، پہلےپرنٹنگ پریس تو ہوتی نہیں تھی تو بُزرگ ہاتھ سے ہی اپنی کتابیں لکھا کرتے تھے اور دس دس ورقوں کی ایک کاپی بنتی تھی جسے عربی میں ”کُرّاسَۃ“ کہتے ہیں، تو مطلب یہ ہوا کہ امام سُیوطی علیہ الرَّحمہ روزانہ تیس اوراق کتابوں کے لکھا کرتے تھے، سربلال نے مسکراتے ہوئے تفصیل سے جواب دیا۔ اور آپ کو پتا ہے انہوں نے اپنی کتاب کس عمر میں لکھی تھی؟

صرف سترہ سال کی عمر میں، جس عمر میں ہمیں کھیل کود سے ہی فرصت نہیں ملتی اس عمر میں حضرت امام سُیوطی رحمۃُ اللہ علیہ نے علم حاصل کرکے اپنے مقاصدبھی حاصل کرنا شروع کر دیئے تھے، اسی لیے تو بُزرگ فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں 600 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔

تو بچّو بات وہی ہے کہ اگر آپ وقت کو ضائع کریں گے تو وقت آپ کو ضائع کر دے گا اور اگر آپ وقت کا خیال رکھیں گے تو وقت آپ کو ایسا بنا دے گا کہ ایک دنیا آپ کو سلام کیا کرے گی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی


Share