ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی خطرناک ہے!

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی خطرناک ہے!

 موٹر سائیکل سب سے خطرناک سواری مانی جاتی ہے، اس کے روزانہ کئی حادِثے ہوتے ہیں۔ بعض ملکوں میں تو اس کی پذیرائی ہی نہیں ہے، وہاں سڑکوں پر اسکوٹر بہت کم نظر آتے ہیں یا مخصوص استعمال کے لیے ہوتے ہیں، جیسے ہوٹل والے کھانا سپلائی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو یہ عام ہے، بچہ بچہ موٹر سائیکل لیے گھومتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک طرف تو سوار کی جان خطرے میں رہتی ہے اور دوسری طرف جب حادثہ ہوتا ہے تو دیگر لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ اسے چلانا ناجائز ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک خطرناک سواری ہے۔ اسے چلانے والا ماہر ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اس کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے، لہٰذا لائسنس اور مکمل کاغذات کے بغیر موٹر سائیکل نہیں چلانی چاہیے۔ چلانے والے کو ٹریفک کے قوانین کی معلومات بھی ہونی چاہیے کہ لال بتی، پیلی بتی اور ہری بتی کا کیا مطلب ہے، کہاں رفتار کم کرنی ہے اور کہاں بڑھانی ہے وغیرہ۔ جب چلانے والے کو یہ سب معلومات ہوں اور چلانے میں بھی ماہر ہو تب ہی لائسنس ملنا چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں بعضوں کو گھر بیٹھے ہی لائسنس مل جاتا ہے، ”پیسا پھینک تماشا دیکھ“۔ جب کوئی اس طرح سے لائسنس لے گا کہ اسے کچھ آتا ہی نہیں، تو وہ حادثے نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟

اکثر بائیک سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے، اگر پہنتے بھی ہیں تو محض پولیس اور چالان کے ڈر سے۔ ٹریفک پولیس اگر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہیلمٹ کے قانون پر سختی کرے تو اس کے حق میں میرا پہلا ووٹ ہوگا کہ کسی کو نہ چھوڑا جائے۔ میرے بیٹے کو بھی اگر بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے پکڑیں تو بے شک اسے بھی اندر کر دیں(یعنی گرفتار کرلیں)۔ ہیلمٹ سے بائیک سوار کی اپنی حفاظت رہتی ہے کیونکہ حادثے کی صورت میں عموماً چوٹ سر پر آتی ہے اور ہیلمٹ کے ذریعے بڑی حد تک بچت ہو جاتی ہے۔ لیکن ہیلمٹ ایسا نہ ہو کہ تیز ہوا میں اڑ جائے یا اتنا کمزور ہو کہ گرنے سے ٹوٹ جائے۔ بہتر ہے کہ مضبوط اور اچھی کمپنی کا ہیلمٹ خریدا جائے، اگر ناقص کوالٹی کا ہوگا تو ٹوٹ کر سر میں چبھ کر زخمی کرسکتا ہے۔حادثے میں جن بائیک سواروں کے سر میں چوٹ لگتی ہے وہ بیچارے بسااوقات کئی دن تک بے ہوش پڑے رہتے ہیں۔کوئی ہوش میں آتا ہے اور کوئی دنیا ہی سے چلا جاتا ہے۔ یاد رہے! ہیلمٹ صرف سر پر رکھ لینا کافی نہیں ہوتا اس کو صحیح طریقے سے باندھنا بھی ضَروری ہے۔ یاد رکھئے! ٹریفک کے تقریباً قوانین ہمارے ہی فائدے کے لیے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی ہیلمٹ پہننے کی مہم چلائی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عمامہ سنت ہے، تو پھر ہیلمٹ کیسے پہنیں؟ تو عرض یہ ہے کہ موٹر سائیکل کے علاوہ آپ سارا دن عمامہ پہن کر گھومتے رہیں، لیکن موٹر سائیکل سےس گرنے کی صورت میں عمامہ چوٹ سے نہیں بچا سکتا۔ ویسے بھی کئی مواقع پر آپ عمامہ اتارتے ہی ہیں۔ بہرحال موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ لازمی پہنیں۔

 ون وے کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے اب ٹریفک والوں نے مجبوراً بعض سڑکوں پر کیل نما کانٹے بھی لگا دئیے ہیں کہ جو مخالف سمت سے آئے گا اس کا ٹائر پھٹ جائے گا۔ قانون کو کیوں ایسے سخت اقدامات کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ قانون کے آگے خود ہی مجبور ہو جائیے، اس میں فائدہ بھی آپ ہی کا ہے۔بائیک میں چین کور بھی لازمی لگوائیے ورنہ اس سے بھی حادثات ہوتے ہیں۔ بعض اوقات بُرقَع یا چادر پھنس جاتی ہے اور گرنے سے چوٹ لگتی اور کبھی جان بھی چلی جاتی ہے۔ میں خودبہت عرصہ پہلے کسی کے ساتھ بائیک پر جا رہا تھا کہ چین میں چادر پھنس گئی اور پھٹ گئی، اس موقع پر میرے الٹے پاؤں میں فریکچر ہوگیا تھا۔اسی طرح موٹرسائیکل کی ہیڈ لائٹ اور بیک لائٹ بھی درست رکھئے، ورنہ اندھیرے میں پیچھے آنے والا ٹکرا سکتا ہے۔ کار میں بھی اگر ایک طرف کی لائٹ جل رہی ہو تو یہ بھی حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔گاڑی کے بریکس اگر درست نہ ہوں تو ظاہر ہے جہاں روکنی ہو وہاں نہ رُک سکنا خطرناک۔ بعض ڈرائیور نیند پوری نہیں کرتے اور غنودگی میں گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں اورکبھی کہیں ٹکرا دیتے ہیں اور اپنی اور دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ سیٹ بیلٹ باندھنا ڈرائیور اور پسینجر سبھی کے لئے مفید ہوتا ہے کہ اگر گاڑی کو جھٹکا لگا یا حادثہ ہوا تو سر آگے نہیں ٹکرائے گا اور بچت ہوجائے گی۔

 بعض لوگ بائیک چلاتے وقت موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ جب انہیں منع کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں:”یار! کچھ نہیں ہوتا“۔ لیکن جو اسپتال میں سر زخمی کروا کر پڑا ہو وہ بھی شاید یہی کہتا ہوگا کہ ”کچھ نہیں ہوتا“ مگر اب.....؟ ہمارے ہاں سڑکیں خراب ہیں، کوئی اسپیڈ بریکر یا گڑھا آجائے اور موبائل ہاتھ سے چھوٹ جائے تو اسے سنبھالنے کی کوشش میں سوار خود بھی گرسکتا ہے۔بعض موٹر سائیکل والے دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے رف ڈرائیونگ کرتے ہیں اور حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے دوسری گاڑیوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ بسوں والے بھی یہی حرکت کرتے ہیں اور بعض اوقات بسیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگ زخمی ہوتے ہیں اور بعض تو فوت بھی ہو جاتے ہیں۔جن ممالک میں قانون سخت ہے، وہاں بھی قانون توڑنے والے موقع ملتے ہی توڑ دیتے ہیں۔ گُجراتی کہاوت ہے جس کا اردو میں ترجمہ یہ ہے:”کوے ہر جگہ کالے ہوتے ہیں“۔ جس نے قانون توڑنا ہے وہ وہاں بھی توڑے گا۔بہرحال ٹریفک کے قوانین پر عمل کیجئے اور اپنی زندگی محفوظ بنائیے۔


Share

Articles

Comments


Security Code