فنِ کتابیات نویسی (تعارف،اہمیت،میدانات)

فنِّ کتابیات نویسی(تعارف، اہمیت، میدانات)

کتابیات جسے عربی میں فِھْرس الْکُتُب اور انگلش میں Bibliography سے تعبیر کرتے ہیں اس کا سادہ سا مطلب ہے ”کتابوں کا ذکرو تعارف“ جبکہ اصطلاحی اعتبار سے کتابیات کا اطلاق کتابوں کی دو طرح کی فہرستوں پر ہوتاہے :

(1)کوئی مقالہ یا کتاب لکھتے ہوئے جن کتب میں سے مواد لیا جاتاہے ان کتب کی فہرست کو اس کتاب یا مقالہ کی کتابیات کہا جاتاہے عام طور پر اسے مصادِر و مراجع یا ماخذو مراجع بھی کہتے ہیں۔

(2)کسی شخصیت، فن، موضوع، دورانیہ، اسلوب یا صنف کی کتابوں کے تفصیلی یا اجمالی تعارف پر مشتمل کتب کو بھی کتابیات کہا جاتاہے۔

یہاں کتابیات سے مراد یہی دوسری صورت بیان کی جائے گی۔

تحقیق کے میدان میں محققین کو درپیش مسائل میں سے سب سے اہم مسئلہ کتابیات کے فقدان کا ہوتاہے کیونکہ کتبِ کتابیات کسی بھی مصنف و محقق کیلئے ریڑھ کی ہڈی یا آکسیجن کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسے یوں سمجھیں کہ اگر کسی نے عقیدۂ ختمِ نبوت پر لکھنا ہو تو سب سے پہلے دو باتوں کو طے کرنا ضروری ہے، ایک یہ کہ اس موضوع پر پہلے کیا کیا لکھا جاچکا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ اب کیا لکھنا چاہئے؟ ان دونوں پوائنٹس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت پر لکھی گئی کتابوں سے آگاہی ہو جو کہ مختلف لائبریریز، ویب سائٹس اور مارکیٹس وزٹ کرنے سے ہوگی یا پھر ان كتب كے تعارف و تذکرہ پر مشتمل کتبِ کتابیات سے معلوم ہوگا۔ جب محققین اور مصنفین اپنے عنوان سے متعلق کتابیات کو پیشِ نظر نہیں رکھتے تو اکثر ایسے عنوانات پر لکھتے رہتے ہیں جو پہلے بھی کئی بار لکھے جاچکے ہوتے ہیں۔ کتابیات سے عدم واقفیت کی بنا پر ایک ہی طرز و اسلوب اور مواد پر مشتمل کتب کی بھرمار آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

آج کل علمی تحقیق کا پہلے ہی رجحان و ذوق ختم ہوتا جارہا ہے اور اگر کوئی اس میدان میں اترتا بھی ہے تو اسے سب سے پہلے کتابیات (Bibliography) کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف علوم و فنون پر لکھی گئی کتب کی معلومات پر مبنی کتبِ کتابیات تیار کی جائیں تاکہ اگر کوئی اسکالر کسی موضوع پر کالم، مضمون، مقالہ یا کتاب لکھنا چاہے تو اسے متعلقہ کتابوں کی فہرست ایک جگہ پر مرتب شکل میں مل جائے تاکہ وہ اپنے موضوع پر دستیاب کتب پڑھ کر پورا پورا علمی و تحقیقی  کام کر سکے۔

فن ِکتابیات کا آغاز کب ہوا؟

فنِ کتابیات کا آغاز کب ہوا اور سب سے پہلے فہرستِ کتب کب تیار ہوئی؟ اس حوالے سے ویکی پیڈیا کے مطابق تیسری صدی قبل مسیح میں اسکندریہ کی ایک لائبریری کا لائبریرین کالیماخوس(Callimachus) سرِفہرست نظر آتا ہے جس نے اپنی لائبریری کی ایک ضخیم فہرست مرتب کی تھی۔ جبکہ عربی میں كتابیات پر سب سے پہلی تصنیف محمد بن اسحاق بن ندیم المعروف ابنِ ندیم (وفات:438ھ) معتزلی کی ملتی ہے۔([1]) یہ کتاب 377ھ میں لکھی گئی۔ اسی طرح ولید الخوارزمی (وفات: 387ھ) کی مَفَاتِیحُ الْعُلُوم، امام فخرالدین الرازی (وفات: 606ھ) کی حَدَائِقُ الْاَنَوَار فِیْ حَقَائِقِ الْاَسْرَار، علّامہ قطبُ الدّین شیرازی (وفات:710ھ) کی دُرّۃُ التَّاجِ لِغَرّۃِ الدَّبّاج اور دیگر کئی کتب ِ کتابیات کے نام ملتے ہیں۔([2])

کتابیات کے اسلوب

کتابیات کے مختلف اسلوب ہیں:

(1)اپنے اساتذہ اور ان سے پڑھی ہوئی کتب کا تعارف

(2)کسی ایک مصنف کی تمام کتب کا تعارف

(3)کسی ایک موضوع (مثلاً تفسیر، فقہ، سیرت، حدیث، تاریخ وغیرہ) کی تمام کتب کا تعارف

(4)کسی ایک دورانیہ (مثلاً1900ءتا1950ء) کی کتب کا تعارف

(5)کسی ایک ادارے کی کتب کا تعارف

(6)کسی ایک لائبریری کی کتب کا تعارف

(7)صرف کتاب، مصنف اور طابع کا نام مع ملنے کا پتا ذکر کرنا

(8)کتاب پر مختصر تبصرہ اور چند سطری تعارف شامل کرنا

(9)کتاب کے مندرجات، ترتیب اور موضوع سے مطابقت وغیرہ پر سیر حاصل تبصرہ شامل کرنا۔

چند اہم کتابیات کا تعارف

کتابیات بولا جائے تو اوّلاً فہارس الکتب ہی ذہن میں آتی ہیں لیکن یاد رہے کہ تذکرۃ الاعلام کے تحت ضمناً کتابیات کے ذخیرہ میں بہت اضافہ ہوا ہے، کئی عُلما و محدثین نے ان کتب کا تعارف جمع فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے مشائخ سے پڑھیں یا ان کتب کی مشائخ سے اجازت حاصل کی، مثلاً :

*فِهرس لِابن عَطية“مولف: شیخ ابو محمد عبد الحق بن غالب المروف ابن عطیہ محاربی اَندُلُسی (وفات: 542ھ)

*فِهْرسة اِبنِ خَير الاِشبيلي “ مؤلف: ابو بكر محمد بن خير اشبيلی (وفات: 575ھ)

*فهرسْة اللَّبلِي “مؤلف: شہاب الدين احمد بن یوسف بن على المالكى (وفات: 691ھ)

*بَرْنامَج الْوَادي آشي“ مؤلف: محمد بن جابر بن محمد اَنْدُلُسِی (وفات: 749ھ)

*اَلْمُعْجَمُ الْمُفَهْرَس اَوْ تَجْرِيْدُ اَسَانِيْدِ الْكُتُب ِ الْمَشْهُورَةِ وَالْاَجْزاءِ الْمَنْثُورَة“ مؤلف: علّامہ ابنِ حجر عسقلانی (وفات: 852ھ)

*بَرْنامج المجاري“ مؤلف: ابو عبد الله محمد بن محمد مجاری اندلسی (وفات: 862ھ)

البتہ جو کتب باقاعدہ فَنِّ کتابیات پر مشتمل ہیں ان میں سے چند کا مختصر تعارف یہ ہے:

الفہرست لابنِ ندیم

 یہ عربی زبان میں مرتب کی گئی سب سے پہلی کتابیات ہے جو کہ 377ھ میں لکھی گئی، اس کتاب میں اس کے زمانۂ تالیف تک لکھے گئے تقریباً تمام عربی لٹریچر کا تعارف ہے۔

 مؤلف محمد بن اسحاق بن ندیم المعروف ابنِ ندیم نے کتاب کو 10 ابواب پر مرتب کیا ہے اور ہر باب کو مقالہ کا نام دیا ہے۔ وہ 10 ابواب یہ ہیں:

(1)اَللُّغَات وَالْكُتب الْمُقَدَّسَہ وَعُلُوْمُ الْقُراٰنِ (2)اَللُّغَۃ وَالنَّحْو (3)اَلاَخْبَار وَالْاَنْسَاب (4)اَلشّعْر (5)عِلْمُ الْكَلام (6)اَلْحَدِيْث وَالْفِقْہ (7)اَلْفَلْسَفَات (8)اَلْاَسْمَاء وَ الْخرَافَات (9)اَلْاِعْتِقَادَات (10)اَلْكِيْمِيَاء وَ الصّنْعہ۔([3])

ابنِ ندیم نے کتاب مؤلفین کے ناموں کے اعتبار سے مرتب کی ہے اور ہر مؤلف کے تعارف میں اس کی کتب کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب میں 2238 مؤلفین کی 8360 کتب کا ذکر کیا گیا ہے۔

کشف الظنون

عربی کتبِ کتابیات میں کَشْفُ الظُّنُونِ کو بہت شہرت حاصل ہے۔ یہ کتاب مصطفىٰ بن عبد الله اَلْقُسْطُنْطِیْنی (وفات: 1067ء) نے لکھی جو کہ حاجی خلیفہ اور ملا کاتب چلپی کے نام سے معروف تھے۔ کتاب کا پورا نام کَشْفُ الْظُنُّونِ عَنْ اسامی الْکُتُبِ وَالْفُنُون ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں 300 علوم کی تعریفات، 9500 مؤلفین اور 15ہزار کتب کا تعارف ذکر کیا ہے۔اس کتاب میں علو م وفنون اور کتب کی ترتیب کے سلسلہ میں حروف تہجی کا اعتبار کیا گیا ہے۔([4])

اس میں کئی بڑی تصانیف کے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں اور مختلف علوم و فنون کے متعلق تفصیلی معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔

ہدیۃ العارفین

اسماعیل بن محمد امین بغدادی(وفات:1339ھ)کی کتاب ”هَدِيَّةُ الْعَارِفِين اَسْمَاءُ الْمُؤَلِّفِين وَاٰثَارُ الْمُصَنِّفِيْن“ بھی فَنِّ کتابیات میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کتاب میں مؤلفین کے نام حروف تہجی کی ترتیب پر دئیے گئے ہیں اور ہر مؤلف کی کتب کا ذکر نام کے ساتھ کیا گیا ہے۔ کتاب دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔

الرسالۃ المستطرفۃ

اَلرِّسَالَۃُ الْمُسْتَطْرِفَۃ ‘‘ شیخ ابوعبداللہ محمد بن جعفر بن ادریس اَلْکَتَّانِی (وفات:1345ھ)کی ایک عظیم تالیف ہے جو کہ حدیث اور علوم حدیث کی 1400 کتب اور 600 کے قریب محدثین کے تعارف پر مشتمل ہے۔ علامہ کتّانی نے کتاب اور صاحبِ کتاب دونوں کا مختصر تعارف اور تبصرہ شامل کیا ہے۔ کتاب حروف تہجی یا سنِ وصال کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ علامہ کتانی نے طبقات، فنون، موضوعات اور دیگر کئی اعتبارات سے تقسیم کی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مفتی مہتاب احمد نعیمی صاحب نے ”تعارفِ محدثین و کتبِ محدثین“ کے نام سے کیا ہے۔

مراٰۃ التصانیف

عربی کی طرح اردو میں بھی کتابیات کے فن میں لکھا گیا ہے۔ اس کی ایک عظیم مثال شیخ الحدیث حضرت علّامہ مولانا حافظ عبدالستار سعیدی صاحب کی مِراٰۃ التّصانیف ہے۔ اس کتاب میں تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری کے 870 اہلِ قلم کی 5818 کتب کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔ پاک و ہند کے سنّی لٹریچر سے آگاہی کے لئے یہ ایک اہم کتاب ہے۔

کتابیات کی اہمیت و ضرورت ابتداء میں ذکر کی گئی، طلبۂ تحقیق کو چاہئے کہ اس فن میں بھی ضرور بالضرور پریکٹس کریں، پریکٹیکل کے لئے چند ایسے عنوان پیش کئے جاتے ہیں کہ جن پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت بھی ہے:

*تیرھویں صدی ہجری کی اردو تفاسیر

*چودھویں صدی ہجری کی اردو تفاسیر

*پندرھویں صدی ہجری کی اردو تفاسیر

*تیرھویں صدی ہجری کی اردو کتبِ سیرت

*چودھویں صدی ہجری کی اردو کتب سیرت

*پندرھویں صدی ہجری کی اردو کتبِ سیرت

*تیرھویں صدی ہجری کی درسی کتب اور شروحات وحواشی

*چودھویں صدی ہجری کی اردو درسی کتب اور شروحات وحواشی

*پندرھویں صدی ہجری کی اردو درسی کتب اور شروحات وحواشی

*پاک و ہند کی اردو مترجم کتبِ حدیث اور سیرت

*اردو فتاویٰ احناف

*پاک و ہند کے سنّی رسائل و جرائد

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])https://en.wikipedia.org/wiki/Callimachus#Bibliography

([2])تصدیر، کشف الظنون، جلد1، صفحہ8

([3])ابن ندیم، الفہرست، مقدمہ، جلد1، صفحہ7دار المعرفة بيروت - لبنان

([4])تصدیر، کشف الظنون، جلد1، صفحہ8


Share