آمدِ مصطفےٰ ﷺ کے قرآنی مقاصد (قسط : 03)

آمدِ مصطفےٰ کے قراٰنی مقاصد(قسط:03)


عدل پر مبنی نظامِ زندگی کا قِیام

  اللہ تعالیٰ  کی جانب سے اَنبیاء کی بعثت کا ایک عظیم اور دائمی مقصد یہ رہا ہے کہ وہ معاشرے میں عدل قائم کریں، ظلم و استِحْصال کا خاتمہ کریں اور زندَگی کے تمام شعبوں میں ایسا توازن لائیں جو انسان کی فطرت، ضَرورت اور حق کے تقاضوں کے مطابق ہو۔

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت بھی اسی تسلسل کی کڑی تھی، مگر اس میں کمال اور اِتمام کا پہلو نمایاں تھا۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اس لیے بھی بھیجا گیا کہ انسانیّت کو ایک ایسا جامع نظام دیا جائے جو عِبادات کے ساتھ ساتھ معیشت، معاشرت، عدلیہ، تجارت اور تعلیم الغرض ہر میدان میں عدل کو قائم کرے۔

قراٰنِ مجید نے اس عظیم مقصد کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِۚ-

ترجَمۂ کنزالایمان: بےشک ہم نے اپنے رسولوں کوروشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی تَرازو اُتاری کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ ([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ ایک جامِع اعلان ہے کہ نبیوں کی بعثت کا مقصود فرد کی اُخروی نَجات کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اجتماعی سطح پر عدل کا قِیام ہے۔ کتاب، جو وحی ہے اور میزان، جو اعتدال اور عدل کا پیمانہ ہے، دونوں رسولوں کے ساتھ اس لیے نازل کی گئیں تاکہ معاشرہ کسی بھی ظلم، ناانصافی یا طاقت کے ناجائز استِعمال سے مَحفوظ رہے۔

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مکّہ میں جب اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ظلم، غلامی، نسل پرستی اور سرمایہ داری نِظام نے جڑیں پکڑ رکھی تھیں۔ طاقتور کمزور کو دباتے، عورت کو وراثت سے مَحروم رکھا جاتا، یتیم کا مال کھایا جاتا اور فیصلے خاندانی تعصّب پر ہوتے۔ ایسے وقت میں رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے وحی کی روشنی میں عدل کے اُصول پیش کیے اور عملی طور پر ان کا نِفاذ کیا۔

آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عدالت میں کوئی غیر معروف شخص بھی حق دار ہوتا تو انصاف پاتا۔ مشہور واقعہ ہے کہ قریش کی ایک بااَثر خاتون (فاطِمہ) مخزومیہ نے چوری کی، تو بعض لوگوں نے سفارش کی۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سختی سے فرمایا:اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتی، تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔([2])

یہ اعلان تھا کہ عدل قبیلے، تعلق، حیثیت، یا طاقت کا محتاج نہیں وہ صرف حق کا پابند ہے۔

قراٰن نے عدل کو محض ایک اَخلاقی وَصْف کے طور پر بیان نہیں کیا، بلکہ ایک الٰہی فریضۂ الٰہیّہ:

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ

ترجَمۂ کنزالایمان: بےشک  اللہ  حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی (کا)۔ ([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

بعثتِ محمدی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہ پہلو یعنی عدل کا قیام دَرحقیقت  اللہ  کی صفتِ عدل کا عملی مظاہرہ ہے، جسے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک زندہ معاشرے کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔

آج بھی جب دنیا ظلم، عدمِ مساوات، طبقاتی نظام، نسلی امتِیاز اور سیاسی استبداد کا شکار ہے تو نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہی مشن اُمّت کے سامنے ایک تازہ تقاضا بن کر کھڑا ہے کہ وہ عدل کو اپنے عمل، اِداروں، قانون اور رویّوں میں غالب کرے۔ یہی بعثتِ محمدی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سچّائی کا اقرار ہے اور یہی اس کا فطری تَقاضا بھی ہے۔

غفلت زدہ قوموں کو بیدار کرنا

جب نبوّتِ محمدی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا سورج طلوع ہوا تو انسانیت ایک لمبی رات کی تاریکی میں سوئی ہوئی تھی۔ عَقل و فَہم سُست ہو چکے تھے، شعور پر تعصّب کی گَرد جم چکی تھی، دل دنیا کے دھندلکوں میں منجمد ہو چکے تھے۔ ایسے میں   اللہ  تعالیٰ  نے اپنے آخِری نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ ایک ایسی سوئی ہوئی دنیا کو جگائیں جو حق کی صَدا سے غافل اور مقصدِ زندگی سے لاعِلم ہو چکی تھی۔

قراٰن نے اس عالمگیر غفلت کو یوں بیان فرمایا:

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ(۶)

ترجَمۂ کنزالایمان: تاکہ تم اس قوم کو ڈر سناؤ جس کے باپ دادا نہ ڈرائے گئے تو وہ بے خبر ہیں۔([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ غفلت محض معلومات کی کمی کا نام نہیں تھی بلکہ یہ فکر اور رُوحانی بیداری کی موت تھی۔ صدیوں سے کوئی نبی نہ آیا تھا، آسمانی کتابیں بھلا دی گئی تھیں اور انسانی معاشرے رسم و رواج، جاہ و مال اور خود ساختہ خداؤں کی پرستش میں مگن ہو چکے تھے۔

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مکّہ کے نیند میں ڈوبے ہوئے قریش کو پُکارا اور کہا:”قُوْلُوْا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ تُفْلِحُوا“ کہو  اللہ  کے سوا کوئی معبود نہیں، تم کامیاب ہو جاؤ گے۔

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے نہ صرف توحید کا اعلان کیا، بلکہ لوگوں کو ان کے اصل مقام سے آگاہ کیا:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ

ترجَمۂ کنزالعرفان: اے لوگو! اپنے رب کی عِبادت کرو۔([5])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ دعوت، ایک جھنجھوڑنے والا پیغام تھا، جو انسان کو خودی سے نکال کر خُدا کی بندگی میں لاتا ہے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے نیند سے جگانے والے واعظ کی طرح دلوں کو جھنجھوڑا اور بار بار فرمایا:اَفَلَا تَعْقِلُوْن؟“، ”اَفَلَا تَذَكَّرُوْن؟“، ”اَفَلَا یَنْظُرُوْن؟“۔

آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت کا یہ پہلو اس قَدر اَہمّ تھا کہ   اللہ  تعالیٰ  نے فرمایا:

وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ

ترجَمۂ کنزالایمان: اور اُنہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے۔([6])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی ایسی غفلت جو آخِرت کو بھلا دے، وہ سب سے خطرناک نیند ہے۔ اور رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اس لیے بھیجا گیا کہ وہ اس قیامت سے پہلے دلوں کو بیدار کر دیں۔

یہی بعثت کا عظیم مقصد آج بھی تقاضا کرتا ہے کہ اُمّتِ مسلمہ غفلت میں ڈوبی دنیا کو عِلم، محبّت، فِکر، حکمت اور دَرْد سے بیدار کرے۔ آج کا انسان مال و لذت کی مستی میں غرق ہے، اسے وہی آواز درکار ہے جو حِرا کی غار سے گونجی تھی:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)

ترجَمۂ کنزالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔([7])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور آج بھی، یہی وحی، یہی پیغام اور یہی مقصد دنیا کی نَجات کا واحد راستہ ہے۔

 مومنوں کو خوشخبری دینا، منکرین کو تنبیہ کرنا

  اللہ  تعالیٰ  نے ہر رسول کو دو پہلوؤں کے ساتھ بھیجا: بشارت (خوشخبری) اور انذار (تنبیہ)۔ یہ دو پہلو نبوّت کی دعوت، رحمت اور عدل کے درمیان وہ عظیم توازن ہیں جو انسان کے دل کو اپنے رب کی طرف متوجّہ کرتے ہیں۔ رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت بھی اسی اَزلی سنّت کی روشنی میں ہوئی۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو   اللہ  تعالیٰ  نے جہاں مومنین کے لیے بشیر یعنی جنّت، مغفِرت اور رضا کی خوشخبری سنانے والا بنایا، وہیں کفّار، مشرکین اور منافقین کے لیے نذیر یعنی برائیوں، عذاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے خبردار کرنے والا بنایا۔

قراٰنِ مجید بار بار آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ان دونوں اوصاف کا ذکر کرتا ہے:

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸)

ترجَمۂ کنزالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔([8])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ تین اوصاف شاہد، مبشّر، نذیر درحقیقت بعثتِ محمدی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی دعوتی حکمت کو مکمل کرتے ہیں۔ رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زبان پر وہ کلام جاری ہوا جو اہلِ ایمان کے لیے دل کی ٹھنڈک اور ناقدری کرنے والوں کے لیے دلوں پر چوٹ تھا۔

آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زبان سے نکلا ہر وَعدہ، ہر آیت، ہر دُعا ایک خوشبو تھی جو مومنوں کے دلوں کو زندگی بخشتی تھی۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت مومنین کے لیے  اللہ  کے وعدوں کا ظہور تھی:

وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ

ترجَمۂ کنزالایمان: اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچّھے کام کیے کہ ان کے لیے باغ ہیں۔([9])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ خوشخبری صرف آخرت کی جنّت تک محدود نہیں تھی۔ دنیا میں بھی آپ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زبان سے اہلِ ایمان کو نصرت، اطمینان، معیتِ الٰہی اور رحمت کی بشارت ملتی رہی۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْراً یعنی جو مجھ پر ایک بار دُرُود پڑھے،  اللہ  اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔([10])

اسی طرح آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت ان لوگوں کے لیے تنبیہ بن گئی جنہوں نے حق سے اعراض کیا، وحی کا مذاق اُڑایا، یا دعوتِ توحید کو جھٹلایا۔ ان کے حق میں آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ”نذیر“ بن کر آئے ڈرانے والے، سمجھانے والے اور خبردار کرنے والے۔

اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۠(۷)

ترجَمۂ کنزالایمان: تم تو ڈر سنانے والے ہو اور ہر قوم کے ہادی۔([11])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

منکرینِ حق کے لیے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قیامت کی ہولناکیوں، جہنّم کی سزا اور  اللہ  کے عذاب کا ذکر کیا۔

آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شانِ نذیری کو سورۂ مدثّر میں یوں فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْﭪ(۲)

ترجَمۂ کنزالایمان: اے بالا پوش اوڑھنے والے کھڑے ہوجاؤ پھر ڈر سناؤ۔([12])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِنذار کا پہلو قیصر و کسریٰ، قریش، یہود و نصاریٰ اور تمام انسانوں کے لیے تھا تاکہ کوئی قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔

نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت اس حکمت کا کامل نمونہ تھی کہ خوشخبری اور تنبیہ دونوں ایک ساتھ پیش ہوں نہ ایسا ڈر کہ اُمّید ٹوٹ جائے، نہ ایسی اُمّید کہ گُناہ پر جری ہو جائیں۔ یہ توازن ہی آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نبوّت کی حقانیّت کی دلیل ہے۔

وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-

ترجَمۂ کنزالایمان: اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے۔([13])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اُمّتِ محمدیہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے نبی کی طرح مومنین کے لیے بشارت کا سَرچشمہ اور منکرین کے لیے دعوت و انذار کی آواز بنے۔ ہمیں تبلیغ کے اس اُسلوب کو زندہ کرنا ہے جس میں نہ غصہ ہو، نہ طنز صرف محبّت، حکمت اور خیرخواہی ہو، کیونکہ ہم ایک مبشّر و نذیر نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پیروکار ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])پ27، الحدید:25

([2])دیکھئے: بخاری، 2/468، حدیث:3475

([3])پ14، النحل: 90

([4])پ22، یٰسٓ: 6

([5])پ1،البقرۃ: 21

([6])پ24، مؤمن: 18

([7])پ30، العلق: 1

([8])پ26،الفتح:8

([9])پ1،البقرۃ:25

([10])مسلم، ص162، حدیث:849

([11])پ13، الرعد:7

([12])پ29،المدثر:1، 2

([13])پ7، الانعام:48


Share