آمدِ مصطفےٰ ﷺ کے قرآنی مقاصد (چوتھی اور آخری قسط)


آمدِ مصطفےٰ کے قراٰنی مقاصد(چوتھی اور آخری قسط)


دینِ حق کو تمام اَدیان پر غالب کرنا

اللہ تعالیٰ نے رسولِ مکرّم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو صرف عرب، قریش، یا مخصوص قبائل کے لیے نہیں بھیجا، بلکہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت ساری دنیا کے انسانوں کے لیے ایک ہمہ گیر، عالمی اور دائمی پیغامِ حق کے طور پر ہوئی۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نبوت صرف دعوتِ ایمان نہیں تھی، بلکہ نظامِ حق کے غلبے اور باطل کی بیخ کنی کے لیے ایک مکمل انقلابی تحریک تھی۔ قراٰن مجید اس مقصد کو بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے:

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)

ترجَمۂ کنزالایمان: وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے برا مانیں مشرِک۔ ([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ آیت مبارَکہ تین بار قراٰنِ مجید میں آئی([2])اور ہر بار نہایت زور دے کر اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مشن صرف تبلیغ نہیں، بلکہ دینِ حق کو ہر باطل نظریے، نِظام اور تہذیب پر غالب کرنا ہے۔

دینِ حق وہ مکمل نظامِ زندگی ہے جو وحی، توحید، عدل، تقویٰ، بندگی، اخلاق، حلال و حرام اور اللہ کی حاکمیّت پر مبنی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا میں پائے جانے والے دیگر اَدیان، خواہ وہ مشرکانہ ہوں یا تَحریف شُدہ، انسانی ساختہ فلسفے ہوں یا بے دین نظام، سب باطل کے دائرے میں آتے ہیں۔

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت اس لیے ہوئی کہ اس دینِ فطرت، دینِ توحید، دینِ اسلام کو ہر باطل عقیدے اور نظام پر بالا و غالب کیا جائے دلوں میں بھی، معاشروں میں بھی اور عالمی سطح پر بھی۔

دینِ حق کا غلبہ محض شمشیر و سیف کا نتیجہ نہیں، بلکہ علم، حجّت، دعوت، سیرت اور سچّائی کی قوّت سے بھی حاصل ہوا۔ قراٰن نے فرمایا:

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ

ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (رسول کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) آیا اور روشن کتاب اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اُسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے راستے۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اس مقصد ِبعثت کی عملی تعبیر ہی ہے کہ مکّہ میں عقیدے کی جنگ تھی اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے توحید کے پیغام کو غالب کیا۔ مدینہ میں معاشرتی نِظام قائم ہوا، جس میں دینِ حق نے سیاسی، اقتِصادی اور عدالتی میدان میں بَرتری حاصل کی۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد خلفائے راشدین نے دنیا کے مختلف خطّوں میں عدل و اَمن پر مبنی اسلامی معاشرے قائم کیے، جہاں رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی برابری کو نافذ کیا گیا۔ یہ سب اسی غلبے کی شکلیں تھیں جن کا وعدہ قراٰن میں کیا گیا تھا۔

آج اُمّتِ مسلمہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مشن کا ایک حصّہ باطل کے سامنے سر نہ جھکانا اور دینِ اسلام کے نظریاتی، اخلاقی اور نظامی غلبے کے لیے جِدّوجَہد کرنا ہے۔ اس کے لیے علم و دلیل کے میدان میں برتری حاصل کرنا ہوگی۔ اخلاق، کردار اور دعوت کی سطح پر اُمّت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اُمّت کو قراٰن و سنّت کے حقیقی فَہم سے جوڑ کر، باطل تہذیبوں کا علمی و فکری توڑ کرنا ہوگا۔

 عالمی سطح پر پیغامِ الٰہی کی ترسیل

اللہ ربّ العزّت نے خاتم النّبیّٖن حضرت محمدمصطفٰے  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو محض کسی خاص قوم، زبان یا علاقے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا، بلکہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رسالت کو تمام جہانوں کے لیے رَحمت اور ہدایت کا سرچشمہ بنا دیا۔ یہ بعثت انسانیت کے لیے وہ عظیم عطیہ ہے جس نے رسالت کو مقامی دائرے سے نکال کر عالمگیر سطح پر قائم کر دیا، تاکہ ہر نسل، ہر قوم، ہر زمانے اور ہر خطّے تک اللہ کا پیغام پوری وضاحت، عدل اور حکمت کے ساتھ پہنچ جائے۔

قراٰنِ کریم میں بارہا اس حقیقت کو بیان کیا گیا کہ نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت صرف عرب یا اہلِ مکّہ کے لیے نہ تھی بلکہ آپ کی نبوّت کا دائرہ ”الناس“ یعنی تمام انسانوں تک پھیلایا گیا۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا

ترجَمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ اعلان نہ صرف آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مشن کی وُسعت کا اظہار ہے بلکہ یہ نبوّت کے نئے دَور کا آغاز بھی ہے، جس میں پیغامِ وحی صرف کسی قوم کی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ تمام اقوامِ عالم کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے۔

اسی عالمگیریت کو مزید واضح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رَحمت سارے جہان کے لیے۔([5])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ جامع آیت رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شخصیت، پیغام اور بعثت کی آفاقیّت کا ایسا اعلان ہے جو صرف نظریہ نہیں بلکہ ایک عملی دعوت اور عالمی نظامِ ہدایت کا اظہار ہے۔ ”رَحمت“ کا لفظ یہاں کسی مخصوص قوم یا طبقے تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانیّت بلکہ ہر مخلوق کو محیط ہے۔

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عالمی بعثت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی نبوّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دینِ حق کو مکمل شکل میں بھیجا اور ساتھ یہ بھی اعلان فرما دیا کہ اب یہ دین باطل نِظاموں پر غالب آ کر رہے گا:

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)

ترجَمۂ کنزالایمان: وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے بُرا مانیں مشرک۔([6])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ اعلان اس بات کی دلیل ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت دینِ حق کو عملی طور پر نافذ کرنے اور دنیا کی قیادت و رہنمائی کرنے کا مشن رکھتی ہے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس مشن کو اپنے دور میں مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کر کے، وُفود کو مختلف اقوام کی طرف بھیج کر اور حجۃُ الوَداع کے موقع پر بین الاقوامی اُصولِ انسانیّت دے کر عملی شکل دی۔

قراٰنِ مجید نے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت کو اس انداز میں بھی بیان کیا کہ یہ پیغام قِیامت تک دنیا کے ہر انسان تک پہنچ جائے:

وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَؕ-

ترجَمۂ کنزالایمان: اور میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں اور جن جن کو پہنچے۔([7])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت میں ” وَ مَنْۢ بَلَغَ“ کے ذریعے قراٰن کا پیغام اور نبوی دعوت ہر دَور، ہر نسل اور ہر انسان کے لیے زندہ اور جاری رکھنے کا اعلان ہے۔

آج کے دَور میں جب تہذیبی تَصادُم، فکری اِلحاد اور روحانی خَلا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، بعثتِ محمدی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہ عالمی مقصد ہمیں دوبارہ یاد دلاتا ہے کہ ہمیں نہ صرف قراٰن و سنّت کے اس پیغام کو خود سمجھنا ہے بلکہ اسے بینُ الاقوامی سطح پر انسانیّت تک پہنچانے کا مشن دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ یہ اُمّتِ محمدیہ کا حقیقی فریضہ ہے اور نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت کا آفاقی تَقاضا بھی ہے۔

دعوتِ توحید (اللہ کی بندگی کی طرف بلانا)

تمام انبیاء علیہم السّلام کی بعثت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مقصد یہ رہا کہ انسان کو ہر باطل معبود اور ہر قسم کے شرک سے نَجات دے کر صرف اور صرف ایک اللہ ربّ العزّت کی خالص بندگی کی طرف بلایا جائے۔ اسی طرح رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بعثت کا مرکزی پیغام بھی یہی تھا، جسے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے نہ صرف خانۂ کعبہ کے سائے میں بلکہ ہر وادی، ہر قبیلے، ہر موقع اور ہر اجتماع میں اِعلان فرمایا: ”قُولُوا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ تُفْلِحُوا کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تم فَلاح پاؤ گے۔ یہ مختصر سا جملہ اپنے اندر وہ انقلابی پیغام رکھتا ہے جس نے دلوں کو جھنجھوڑ دیا، باطل تخت و تاج لرز گئے اور انسانیّت کو عبدیتِ خالص کی راہ دکھائی۔

نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس دعوت کو ہر محاذ پر قائم رکھا، خواہ وہ مکہ کا سنگلاخ ماحول ہو، طائف کی تلخ گلیاں یا مدینہ کی پُراُمن ریاست،آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ہر حال میں لوگوں کو ایک اللہ کے سامنے جھکانے کی جِدّو جَہْد کی۔ نتیجتاً عَرب کا وہ معاشرہ جو ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا، قبائلی عصبیت اور باہمی دشمنیوں میں گھرا ہوا تھا، وہ ایک اللہ کی بندگی کے تحت متّحد ہوگیا۔ ان کا سیاسی، معاشی اور مذہبی نظام یکسر بدل گیا اور انہیں دنیا کی عظیم قِیادت سونپی گئی۔

قراٰن کریم نے اس مقصدِ بعثت کو جگہ جگہ واضح فرمایا:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-

ترجَمۂ کنزالایمان: او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے۔([8])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﳔ

ترجَمۂ کنزالایمان: اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں نِرے اسی پر عقیدہ لاتے۔([9])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یوں نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی دعوتِ توحید صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ ایک مکمّل طَرزِ حَیات بن گئی، جو قیامت تک ہر مسلمان کے لیے ہدایت اور فَلاح کا ضامِن ہے۔

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی آمد کے قراٰنی مقاصد ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے اپنے عقائد کو مضبوط کریں اور قراٰن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے اخلاق و کردار کی تربیت کریں۔ ہمیں اپنے نفس کا تزکیہ کرنا چاہیے، علم و حکمت  کا نور  اپنے گھر، خاندان، دوستوں اور معاشرے میں پھیلانا چاہیے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکمت اور بہترین طریقے سے لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں، معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے کوشش کریں، اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیں۔ ہمیں جدید ذرائع ابلاغ اور  تعلیمی اداروں  کے ذریعے اسلام کا صحیح پیغام دنیا تک پہنچانا چاہیے، غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہیے، حق کو باطل کے سامنے واضح کرنا چاہیے اور آج کے پُرفتن دور میں ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے میں بہت حد تک معاون ہے ”دعوتِ اسلامی“ جی ہاں! دعوتِ اسلامی  کا بنیادی مقصد ہی ”اپنی اور دوسروں کی اصلاح“ ہے اور اَلحمدُ لِلّٰہ! دعوتِ اسلامی چار دہائیوں سے اس مقصد پر کاربند ہے۔ آپ بھی دعوتِ اسلامی کے ماحول میں آجائیے اور رسول ِ رحمت، سید عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی آمد کے قراٰنی مقاصد  کا فیضان پائیے اور دنیا بھر میں حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پیغام کو عام کرنے   میں حصہ ملائیے۔  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])پ10،التوبۃ:33

([2])التوبۃ:33، الصف: 9، الفتح: 28

([3])پ6المآئدۃ: 15، 16

([4])پ9،الاعراف:158

([5])پ17، الانبیآء: 107

([6])پ10،التوبۃ:33

([7])پ7، الانعام:19

([8])پ5، النسآء: 64

([9])پ30،البینۃ: 5


Share