جنّت یا جہنّم؟


جنت یا جہنم؟

(? Heaven or hell)

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ وَحُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَكَارِه یعنی دوزخ کو خواہشات اور جنت کو تکلیف دہ باتوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔([1])

یہ فرمانِ مصطفٰے  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جَوامِعُ الکلم میں سے ہے جس میں خواہشات کی مذمت کرنے کے بعد ان سے روکا گیا ہے۔ ساتھ ہی اللہ کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، چاہے نفس اسے ناپسند ہی کیوں نہ کرے کیونکہ آخرت میں جنّت اور جہنم کے سوا کچھ نہیں ہے، اور انسان کو انہی میں سے کسی ایک کا رخ کرنا ہے۔ اس لیے ہر مومن پر ضروری ہے کہ وہ ایسے اعمال کرے جو اسے جنت میں داخل کریں اور جہنم سے بچائیں، چاہے یہ اعمال اس پر کتنے ہی مشکل ہوں۔ اس لیے کہ جہنم کی آگ پر صبر (یعنی برداشت) کرنا ان مشکلات سے کہیں زیادہ سخت ہے۔([2])

دونوں باتوں سے مراد؟

نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہاں دو باتیں ارشاد فرمائیں؛ ایک یہ کہ دوزخ کو خواہشات سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ لذیذ چیزیں ہیں جن سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ یہ دو قسم کی ہیں:

(1)حرام چیزیں: جیسے شراب، زنا وغیرہ

(2)واجبات چھوڑنے کا سبب بننے والی چیزیں: اس میں شبہ والی چیزیں بھی آجاتی ہیں۔ اسی طرح حلال چیزوں کی کثرت بھی شامل ہے، کیونکہ اس سے حرام میں پڑنے کا ڈر ہوتا ہے۔

مراد یہ ہے:ان خواشات کے کرنے سے بندہ جہنم تک پہنچ سکتا ہے، کیونکہ وہ انہی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ علامہ ابن عربی  رحمۃُ اللہ علیہ  نے اس کی ایک خوبصورت مثال دی ہے: خواہشات میں ڈوبا ہوا وہ شخص جو تقویٰ سے اندھا ہوچکا ہے، اور اس کی سننے اور دیکھنے کی قوتیں خواہشات کے قبضے میں ہیں۔ وہ صرف خواہشات کو دیکھتا ہے، اس کے پیچھے چھپی ہوئی جہنم کو نہیں دیکھ پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہالت اور غفلت اس کے دل پر چھائی رہتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک پرندہ جال کے اندر پڑے دانے کو دیکھتا ہے لیکن جال کو نہیں دیکھ پاتا۔ کیونکہ دانے کی خواہش اور لگاؤ اس کے دل پر غالب آجاتا ہے۔

رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی: جنت کو تکلیف دہ باتوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔

اس سے مراد وہ کام ہیں جن کے کرنے کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے، جیسے: نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ عبادتوں میں اپنے دل کو لگانا اور ان کی مشقتیں برداشت کرنا،عبادتوں کی حفاظت کرنا،غصہ پی جانا، درگزر کرنا اور برائی کرنے والے کے ساتھ بھی احسان کرنا،مصیبت پر صبر کرنا اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا۔ ممنوع چیزوں سے بچنا۔ان کاموں کو ”ناگوار“ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ کرنے والے پر شاق اور مشکل گزرتے ہیں۔([3])

دوزخ اور جنت کے راستوں کا فرق

حضرت الحاج مُفتی احمد یار خان  رحمۃُ اللہ علیہ  اس حدیث شریف کے تحت فرماتے ہیں: دوزخ خود خطرناک ہے مگر اس کے راستے میں بہت سے بناوٹی پھول و باغات ہیں۔دنیا کے گناہ،بدکاریاں جو بظاہر بڑی خوشنما ہیں یہ دوزخ کا راستہ ہی تو ہیں۔مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:جنت بڑا بار دار (پھلدار) باغ ہے مگر اس کا راستہ خاردار(یعنی کانٹوں والا) ہے جسے طے کرنا نفس پر گراں (بھاری) ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، شہادت جنت کاراستہ ہی تو ہیں۔ طاعات (یعنی عبادات) پر ہمیشگی، شہوت سے علیحدگی واقعی مشقت کی چیزیں ہیں۔([4])

جبرائیل  علیہ السّلام  کا جنت و دوزخ کا مشاہدہ

جب اللہ پاک نے جنّت اور دوزخ بنائی تو حضرت جبرائیل  علیہ السّلام  کو جنت کی طرف بھیجا اورفرمایا:اس میں موجود چیزوں کو دیکھو۔ وہ گئے اور واپس آکر عرض کی: یااللہ! تیری عزت کی قسم! جو بھی اس کے بارے سنے گا اس میں داخل ہوجائے گا۔ پھر اللہ پاک نے اسے تکلیفوں سے گھیرنے کا حکم دیا اور دوبارہ حضرت جبرائیل  علیہ السّلام  کو دیکھنے کے لیے بھیجا۔ اس بار وہ دیکھ کر واپس آئے تو عرض کی: اے اللہ! تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی بھی داخل نہ ہوسکے گا۔ پھر اللہ پاک نے انہیں دوزخ دیکھنے کے لیے بھیجا۔ وہ اسے بھی دیکھنے گئے اور واپس آکر عرض کی: اے اللہ! تیری عزت کی قسم!اس کا حال سننے کے بعد کوئی اس میں داخل نہیں ہوگا۔ پھر اللہ پاک نے اسے شہوات سے گھیرنے کا حکم دیا اور دوبارہ جبرائیل  علیہ السّلام  کو بھیجا۔ اس مرتبہ وہ واپس آئے توعرض کی: اے اللہ! تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے کوئی نجات نہ پا سکے گا۔([5])

انسان کو چاہیے کہ وہ عارضی مشکلات اٹھا کر جنت حاصل کرے، نہ کہ عارضی لذتوں میں مبتلا ہوکر جہنم میں جا گرے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])بخاری، 4/243، حدیث: 6487

([2])شرح بخاری لابن بطال، 10/198

([3])دیکھئے:ارشاد الساری، 13/566، تحت الحدیث:6487

([4])مرآۃ المناجیح، 7/5

([5])ابوداؤد، 4/312،حدیث:4744- فتح الباری، 12/273، تحت الحدیث: 6487۔


Share