(1)سجدہ میں عورت بوجہِ عذر پیٹ رانوں سے نہ لگائے تو ؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک ایسی خاتون کہ جو اُمید سے ہے، اُسے سجدہ کرتے ہوئے اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ لگانے میں تکلیف اور آزمائش کا سامنا ہے۔ عام حالت میں تو ممکن تھا، مگر اب حمل کا ساتواں ماہ ہے، جس کے سبب معمول کے مطابق سجدہ کرنا مشکل ہے۔ کیاوہ پیٹ کو رانوں کے ساتھ مس کیے بغیر کچھ اونچی رہ کر، یعنی پیٹ کو کچھ اوپر رکھ کر سجدہ کر سکتی ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگرعورت کو اُمید سے ہونے یا کسی بھی دوسرے عذر کے سبب پیٹ کو رانوں کے ساتھ لگانا دشوار اور تکلیف دَہ ہو تو پیٹ کو رانوں سے جدا رکھ کر سجدہ کر سکتی ہے۔ اِس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، کیونکہ عورت کے حق میں سمٹ کر رانوں کو پیٹ سے لگاتے ہوئے سجدہ کرنا سجدے کی سنتوں میں سے ہے۔ فقہاءِ دین نے عورت کی کیفیتِ سجدہ بیان کرتے ہوئے ”ینبغی للمرأۃ“ اور ”السنۃ فی حقھا“ کے جملے استعمال کیے ہیں، جو اِس طریقے کے ”سنتِ سجدہ“ ہونے کی دلیل ہے، لہٰذا عذر کے سبب اِس انداز کو چھوڑنے کی بھی اجازت ہے، بلکہ جب اس کے بغیر ممکن نہیں تو ایسا کرنا ضروری ہوگا، نیز ہمارا دینِ اسلام مرد وعورت کو اُن کی طاقت وحالت کے مطابق ہی مکلف بناتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-
ترجمۂ کنزالعرفان: اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔
(سورۃ البقرۃ،پارہ3، آیت286)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2) کیا دورانِ نفاس ادا کئی گئی نماز و نفلی روزہ کی قضا ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک عورت کو پہلے بچہ کی ولادت کے بعدچند دن خون آکر رُک گیا ۔ چند دن انتظار کرنے کے بعد، یہ سمجھ کر کہ اب دوبارہ خون نہیں آئے گا، اُس عورت نے غسل کرکے نمازیں پڑھنا شروع کر دیں، چونکہ محرم کا مہینہ تھا اس لئے نفلی روزے بھی رکھنا شروع کر دیے، لیکن چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے ، مثلاً اکتیسویں دن دوبارہ خون آگیا اور چند دن آ کر چالیس دن کے اندر مکمل طور پر رُک گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ عورت نے اُس وقفہ کے دوران جو نمازیں پڑھیں اور نفلی روزے رکھے، تو کیا وہ شرعاً درست تھے یا اُن کی قضا لازم ہے؟ نیزروزے کی حالت میں جو دوبارہ خون آیا، تو کیا وہ روزہ ٹوٹ گیا؟اور اگر ٹوٹ گیا، تو کیا اُس کی قضا لازم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عورت کی نمازیں اور روزے نہیں ہوئے اور نہ ہی اُس پر ان کی قضا لازم ہے، یونہی ایامِ نفاس میں جس نفلی روزے کے دوران نفاس کا خون آیا، اُس کی بھی قضا لازم نہیں ہے کہ وہ روزہ شروع ہی نہیں ہوا ۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ بچہ کی ولادت کے بعد چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے خون رُک جائے اور کچھ دن کے وقفہ کے بعد چالیس دن کے اندر (مثلاً اکتیسویں دن) دوبارہ خون آ جائے، تو شرعی طور پر بچہ کی پیدائش سے لے کر آخری خون کے بند ہونے تک کا پورا عرصہ نفاس شمار ہوگا، خواہ درمیان کے کچھ دنوں میں خون نہ آیا ہو، اس دوران عورت نے جو نماز یں ادا کیں یا روزے رکھے،تو وہ نہ ہوئے کہ یہ عبادات حالتِ نفاس میں ادا کی گئیں ، جبکہ نفاس نماز و روزہ دونوں سے مانع ہے، لہٰذا پاک ہونے کے بعد بھی ان کی قضا لازم نہیں، البتہ اگر فرض، واجب روزے ہوتے، تو شرعاً لازم ہونے کی وجہ سے ان کی قضا لازم ہوتی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی
Comments