حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی آرزوئیں


صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کی آرزوئیں


ہر انسان کی زندَگی میں کچھ نہ کچھ خواہشات اور آرزوئیں ہوتی ہیں جن میں سے بعض پوری ہوجاتی ہیں اور بعض دل میں رہ جاتی ہیں،کچھ خواہشات بڑی ہوتی ہیں اور کچھ چھوٹی،بعض کا تعلّق مذہب،دین اورمعاشرے سے ہوتا ہے اور بعض کا اپنی ذات اور اہلِ خانہ سے ہوتا ہے، حضرت سیّدنا ابو بکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  نے اپنی زندَگی میں ہی بہت ساری اور اَہم خواہشات کو پورا ہوتے ہوئے دیکھا جیسے خلافت کے نِظام کو مستحکم کرنا، اسلامی ریاست کی سرحدوں کی حِفاظت کرنا، مختلف سورتوں اور آیتوں کو ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کرنا، مرتدین کے خلاف علَمِ جہاد بلند کرنا، مسلمانوں کو متحد رکھنا اور انتشار سے بچانا۔ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ کی مزید آرزوئیں پڑھیے:

دیدارِ رسول کی چاہت:

ایک مرتبہ حضر تِ سیّدنا صدّیق اکبر  رضی اللہ عنہ  نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میری تین چاہتیں ہیں: (1)آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں بیٹھا رہوں (2)آپ پر دُرود پڑھتا رہوں اور (3)آپ پر اپنا مال خرچ کرتا رہوں۔ ([1])

جنّتی دروازہ دیکھنے کی آرزو:

ايك مرتبہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے پاس حضرت جبریل علیہ السَّلام آئے، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے جنّت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری اُمّت داخل ہو گی۔حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ! میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں (اس وقت) آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ اسے دیکھ لیتا۔ رسولِ كريم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اے ابوبکر غور سے سن لو! میری اُمّت میں سے جو سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوگا بےشک! وہ تم ہوگے۔([2])

ہردُکھ خود سہنے کی تمنا:

 جب صدّیق اکبر  رضی اللہ عنہ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ غار کی طرف جارہے تھے تو حضرتِ ابوبکر  رضی اللہ عنہ کچھ دیر پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے آگے چلتے اور کچھ دیر پیچھے چلتے، ارشاد ہوا : کچھ دیر آگے اور کچھ دیر پیچھے کیوں چل رہے ہو؟ عرض کی: جب یاد آتا ہے کہ کچھ لوگ آپ کو تلاش کررہے ہیں تو میں آپ کے پیچھے آجاتا  ہوں، پھر جب گھات لگا کر حملہ کرنے والوں کا اندیشہ ہوتا ہے تو آگے آگے چلنے لگ جاتاہوں (کہ کوئی آپ کو تکلیف نہ پہنچائے)۔ سیّد دو عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اگر کوئی مصیبت آئے تو کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ وہ میرے بجائے تم پر آئے ؟ عرض کی : جی ہاں ! ربِّ کریم کی قسم! میری یہی تمنّاہے کہ جو مصیبت آئے وہ مجھ پر آئے آپ تک نہ پہنچے۔([3])

دُعائے رسول پانے کی اُمنگ:

سن 9 ہجری غزوۂ تبوک میں ایک صحابی حضرت ذو البِجَادَین  رضی اللہ عنہ  شہید ہوئے رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کی قبر میں اُترے اور حضرت ابو بکر صدّیق اور حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہما سے فرمایا : تم دونوں اپنے بھائی (حضرت ذُو البجادین) کو(سہارا دے کر)نیچے میری طرف اتارو (دونوں حضرات نے حضرت ذُو البجادین کی نعش مبارکہ کو سہارا دے کر نیچے کی جانب اُتارا ) پھر رسولِ مکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے ہاتھوں سے ان کی نعش کو لحد میں رکھ دیا اور ربِّ کریم سے دعا کی: اے اللہ ! میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہوجا، یہ دعائیہ کلمات سن کر حضرت ابوبکرصدّیق رضیَ اللہ عنہ کے دل میں ایک اُمنگ جاگ اٹھی: کاش! میں صاحب ِ قبر کی جگہ ہوتا۔([4])

خلیفہ نہ بننے کی خواہش:

 جب حضرت ابو بکرصدّیق  رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوگئے تو آپ نے بہترین خُطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم نے (اُمورِ سلطنت کے معاملات میرے سپرد کرکے) مجھے پیارے آقا محمد عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے(اس خاص حکومتی) طریقے پر چلنے کا پابند کردیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نےاپنے نبی کو وحی کے ذریعے گُناہوں سے محفوظ رکھا (اور میں تو ایک عام انسان ہوں)۔ اللہ کی قسم! میری خواہش تھی کہ کاش! تم لوگ ہی یہ ذمّہ داری سنبھال لیتے (اور مجھے معاف رکھتے)۔ ([5])

تین باتوں کاارمان رَہ گیا:

ایک مرتبہ صدّیق اکبر  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے دل میں تین باتوں کا اَرمان رَہ گیا ہے: کاش! میں نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھ لیا ہوتا کہ یہ خلافت کا معاملہ کس کا حق ہے؟ تاکہ (ابتدامیں) اس پر کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ کاش میں نے یہ بھی معلوم کرلیا ہوتا کہ کیا انصار کا اس (خلافت والے) معاملے میں کوئی حصّہ ہے؟کاش میں نے بھتیجی اور پھوپھی کی میراث کے بارے میں سوال بھی کرلیا ہوتا، کیونکہ میرے دل میں ان کی میراث کے بارے میں کچھ خلش ہے۔([6])

خوفِ خدا سے بھر پور آرزو:

ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ  نے ایک چڑیا کو دیکھا تواپنی آرزو کا یوں اظہار فرمایا: اے چڑیا! تو کتنی خوش نصیب ہے! پھلوں سے کھاتی ہے اور درختوں کے درمیان اڑتی پھرتی ہے،تیرے اوپر نہ کوئی حساب ہے اور نہ کوئی عذاب۔ اللہ کی قسم! میری تمنّا ہے کہ کاش میں ایک مینڈھا ہوتا جسے میرے گھر والے خوب موٹا کرتے،پھر جب میں خوب موٹا اور فربہ ہو جاتا تو وہ مجھے ذَبح کردیتے، پھر میرے گوشت کا کچھ حصّہ بھونتے (اور کھا لیتے ) اور کچھ حصّے کو خشک کرکے گوشت کے ٹکڑے بناکر رکھ لیتے اور پھر مجھے کھاتے رہتے۔([7])

بیٹی کو مالدار دیکھنے کی تمنّا:

 بوقتِ وفات آپ  رضی اللہ عنہ  بیٹھ گئے پھر کلمۂ شہادت پڑھا اور حضرت بی بی عائشہ صدّیقہ  رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! میری تمنّاتھی کہ تم میرے بعد غنی (یعنی خوشحال) رہو اس لیے میں نے تمہیں اپنی جائیداد میں سے بیس وَسق (کھجور) کی پیداوار کا ایک باغ ہبہ کیا تھا۔ اللہ کی قسم! میری تمنّا تھی کہ تم اسے قبول کرلو، اگرتم اسے اپنے پاس رکھ لیتیں تو تمہارا ہوجاتا (مگر تم نے قبول نہ کیا ) لہٰذا اب وہ وارثوں کا مال ہے۔([8])

پیر کے بابرکت دن وفات پانے کی طلب:

22 جُمادَی الاُخریٰ سن 13 ھ کو حضرت صدّیق اکبر  رضی اللہ عنہ نے اس دنیا سے سفرِآخِرت اختیار فرمایا، ایک روایت کے مطابق وصال کا وقت قریب آیا تو گھر والوں سے پوچھا: آج کون سا دن ہے؟ گھر والوں نے کہا:آج پیر ہے۔ پوچھا: اللہ پاک کے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصال کس روز ہوا تھا؟ جواب دیا: پیرکے روز۔ فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ آج رات تک دنیا سے رُخصت ہوجاؤں  (تاکہ میرے یوم ِوصال کی پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے یومِ وصال کے ساتھ موافقت ہوجائے) چنانچہ اگلی رات گُزرنے بھی نہ پائی تھی کہ حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا اور صبح ہونے سے پہلے ہی آپ کو دفن کردیا گیا۔([9])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])کشف الخفاء،1/304

([2])ابو داود، 4/280، حدیث: 4652

([3])مستدرک، 3/539، حدیث:4327

([4])معجم الاوسط، 6/371، حدیث: 9111

([5])تاریخ ابن عساکر، 30/303

([6])العقد الفرید، 5/21-تاریخ طبری، 3/430

([7])کنز العمال، 6/237، جز:12، حدیث: 35698

([8])طبقات ابن سعد، 3/145-موطا امام مالک، 2/270، حدیث:1503 ملتقطاً

([9])بخاری، 1/468، حدیث:1387 ملتقطاً


Share