حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ

حضرت مقداد بن اَسْوَد  رضی  اللہ  عنہ

صحابی رسول حضرت مِقداد  رضی  اللہ  عنہ   اسلام کے عظیم سپوت اور بہادر شہ سواروں میں سے ایک تھے، سخت جان، مضبوط اعضاء اور مصیبتوں میں نہ گھبرانے والے حوصلہ مند دل کے مالک تھےبہادروں کی صَف میں ان کا نام روشن اور ان کی صفات عام وخاص کی زبان پر جاری ہیں۔ ([1])حضرت مقداد  رضی  اللہ  عنہ   کا پورا نام مقداد بن عَمْرو ہے لیکن زمانۂ جاہلیت میں اَسْود نامی شخص نے آپ کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا اس لئے آپ مقداد بن اسود کے نام سے مشہور تھے۔([2])

حلیہ مبارکہ:

حضرت مقداد  رضیَ  اللہ  عنہ لمبے قد، گندمی رنگ، گھنے بال اور سُتواں ناک کے مالک تھے جبکہ ملی ہوئی دونوں بھنووں نے آپ کی شخصیت کو پرکشش بنادیا تھا، داڑھی مبارک نہ گھنی تھی نہ چھدری بلکہ نہایت خوبصورت تھی جس میں زَرْد خضاب لگایا کرتے۔([3])

فضائل وہجرت:

 آپ  رضی  اللہ  عنہ   کا شمار عالم فاضِل صَحابہ میں ہوتا ہے([4])آپ قدیمُ الاسلام اور سابِقونَ الاَوَّلون میں سے ہیں، پہلےآپ نے جانب ِ حبشہ ہجرت کی پھر مکے لوٹ آئے، جب نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ ہجرت نہ کرسکے آخِر کار ایک انوکھا راستہ ڈھونڈا  اور مکّہ سے جانے والے مشرکین کے ایک قافلے میں شامل ہوگئے کہ کسی طرح (یہاں سے نکل کر ) مسلمانوں سے جاملیں گے، دوسری جانب رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عبیدہ بن حارِث  رضیَ  اللہ  عنہ کو 60 يا 80 صحابہ کے ساتھ ایک فوجی مہم پر روانہ فرمایا۔ جس کا سامنا مشرکین کے اسی گروہ سے ہوگیا مگر لڑائی کی نوبت نہ آئی یوں حضرت مقداد ایک اور صحابی حضرت عتبہ  رضی  اللہ  عنہ  ما کے ساتھ مسلمانوں سے آن ملے۔([5])بعد ِ ہجرت آپ حضرت کلثوم بن ہِدْم کے گھر ٹھہرے  آپ کو حضرت جبار بن صخر  رضی  اللہ  عنہ   کا دینی بھائی بنایا گیا۔([6])

بارگاہِ رسالت:

رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک مرتبہ فرمایا: تم میں سے کون حضرت خبیب (کی لاش) کو (کافروں کے چنگل سے) تختہ دار سے اُتارلائے گا؟ اس کےلیے جنّت ہے، حضرت زُبیر بن عوام اور حضرت مقداد  رضی  اللہ  عنہ  ما نے ذمّہ داری قبول کرلی،دونوں حضرات ذمّہ داری کو پورا کرکے جب واپس آئے تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی: یارسول  اللہ ! ملائکہ آپ کے صحابہ میں سے ان دونوں پر فخر کر رہے ہیں۔([7])ایک مرتبہ نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دو شخصوں کو بُلند آواز سے قراٰن پڑھتے ہوئے سنا، پہلے کے بارے میں فرمایا: یہ بہت زیادہ فرمانبردار ہیں، دوسرے کے بارے میں فرمایا: یہ ریا کار ہے، راوی نے دیکھا تو پہلے شخص حضرت مِقداد بن اَسودتھے۔([8])

شانِ غزوات:

اسلام میں سب سے پہلے گھوڑے پرسوار ہوکر جہاد کےلیے نکلنے والے حضرت مقداد  رضی  اللہ  عنہ   ہی تھے([9]) آپ بہترین تیر انداز تھے، آپ نے تمام غَزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔([10])ہجرت کے پہلے سال ماہِ ذیقعدہ میں رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی  اللہ  عنہ   کو سفید جھنڈا عطا کرکے ایک مہم پر روانہ کیا جسے حضرت مقداد نے اُٹھایا ہوا تھا۔([11])15 شوّال3 ھ جنگِ اُحد میں آپ لشکر کےساقہ (یعنی پچھلے حصہ) پر افسر تھے،([12])8ھ رمضان فتح ِمکہ کے موقع پر اسلامی فوج کی شان نرالی تھی فوج کا بایاں حصّہ حضرت زبیر بن عوام جیسے بےمثال بہادر کی قیادت میں تھا تو دائیں حصّے کی کمان عظیم شہ سوار حضرت مقداد نے سنبھال رکھی تھی،([13])5 رجب 15 ھ جنگِ یرموک میں آپ فوجی دستوں میں چکر لگاتے اور آیاتِ جہاد تلاوت (کر کرکے مجاہدوں کا حوصلہ بلند) کرتے نظر آئے۔([14]) 27ھ حضرت عَمْرو بن عاص  رضیَ  اللہ  عنہ  کے زیرِ قیادت فتح ِمصر کے مجاہدوں میں شامل رہے نیز اسی سال حضرت عبدُ اللہ  بن سعد  رضی  اللہ  عنہ   کے ساتھ غزواتِ افریقہ میں شریک ہوئے اور کامیاب ہوکر لوٹے،([15])آپ نے حضرت معاویہ اور اکابر صحابہ  رضی  اللہ  عنہ  م کے ساتھ غزوہ قُبْرُس میں بھی شرکت کی اور فتح پائی۔ ([16])شام کی فتوحات میں ایک موقع پر دشمن کو یوں للکارا : اے دشمنِ خدا! اگر تو اور تجھ جیسے لوگ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ بھی آجائیں تو ہم ان سے مقابلے کرنے میں پریشان نہ ہوں گے۔ ہمارا ایک شخص تمہارے ہزار سپاہیوں میں گھر جائے تو وہ اکیلا ان سب کا سامنا کرلےگا کیونکہ ہم نے تو خود کو موت کے لیے تیّار کر رکھا ہے اور مدد   اللہ  تعالیٰ  کی طرف سے ہے۔([17])

شوقِ جہاد:

 ایک مرتبہ حضرت مقداد  رضی  اللہ  عنہ   شہرِ حمص میں سناروں کے ایک صندوق پر بیٹھےہوئے تھے جسم اتنا بھاری بھرکم ہوچکا تھاکہ صندوق سے باہر نکل رہا تھا اس حالت میں بھی آپ جہاد کےلیے جانا چاہتے تھے، (حالانکہ اس عذر کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہ کرنے کی اجازت تھی ) کسی نے کہا: غزوہ میں شرکت کرنے سے  اللہ  پاک نے آپ کو معذور رکھا ہے، یہ سن کر آپ نے آیت مبارکہ تلاوت کی:

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا

ترجَمۂ کنز الایمان : کوچ کرو ہلکی جان سے چاہے بھاری دل سے۔([18])

حکایت :

ایک مرتبہ کسی فوجی افسر نے آپ کو اپنا نیا گھر دکھاکر پوچھا: کیسا بنایا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اگر یہ گھر  اللہ  پاک کے مال (یعنی بیت المال) سے( خُرد بُردکرکے ) بنایا ہے تو بُرا عمل کیا اگر اپنے مال سے بنایا ہے تو اِسراف (یعنی فضول میں پیسہ ضائع) کیا۔([19])

اولاد و اَزواج:

آپ کی زوجہ رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی چچا زاد بہن ضُباعَہ بنتِ زُبیر  رضی  اللہ  عنہ  ا تھیں ان سے آپ کاایک بیٹا عبد  اللہ  اور ایک بیٹی کریمہ پیدا ہوئی۔([20])

وِصال اور وصیّت:

حضرت مقداد بن اسود  رضی  اللہ  عنہ   کا وصال 33 ھ میں مدینے سے تین میل دُور مقامِ ’’جرف‘‘ میں ہوا جسد ِاقدس کو مدینے لایا گیا امیرُالمؤمنین حضرت عثمان غنی  رضی  اللہ  عنہ  نے نَمازِ جَنازہ اَدا فرمائی پھر جنّتُ البقیع میں تدفین ہوئی، بوقتِ وصال آپ  رضی  اللہ  عنہ   کی عمر70 سال کے قریب قریب تھی۔([21])حضرت مقداد  رضی  اللہ  عنہ  نے امام حسن اور امام حسین  رضی  اللہ  عنہ  ما دونوں کو 18، 18 ہزار درہم جبکہ اُمّہاتُ المؤمنین  رضی  اللہ  عنہ  نَّ میں سے ہر ایک کے لیے سات سات ہزار درہم کی وصیّت کی۔([22])7ھ فتحِ خیبر کے بعد نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کو زمین کا ایک ٹکڑا عطا کیا تھا جس کی پیداوا ر 15 وسق جَو تھی، آپ کے وصال کے بعد اسے حضرت معاویہ  رضی  اللہ  عنہ  نے ایک لاکھ درہم میں خرید لیا تھا۔([23])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])المستطرف،1/379

([2])الوافی بالوفیات، 15/18

([3])طبقات ابن سعد،3/121

([4])الاستیعاب، 4/43

([5])اسد الغابہ، 5/265

([6])طبقات ابن سعد، 3/119

([7])تفسیر مظہری، البقرۃ، تحت الآیۃ:205، 1/277

([8])الاستیعاب، 4/44

([9])طبقات ابن سعد، 3/120

([10])طبقات ابن سعد، 3/120

([11])البدایۃ والنہایہ، 2/632

([12])سیرت مصطفیٰ، ص256 ملخصاً

([13])تاریخ ابن عساکر، 60/168

([14])تاریخ ابن عساکر، 60/145 مفہوماً-عمدۃ القاری، 11/457، تحت الحدیث:3721

([15])تاریخ ابن عساکر، 60/152

([16])الاموال للقاسم، ص161، رقم:406

([17])فتوح الشام، 2/220

([18])پ10،توبہ:41-معجم کبیر، 20/236- غریب الحدیث للخطابی،2/358

([19])تاریخ ابن عساکر، 29/41

([20])سیر اعلام النبلاء، 3/518

([21])طبقات ابن سعد، 3/121

([22])تاریخ ابن عساکر، 60/181

([23])طبقات ابن سعد، 3/120


Share