اسلام کا نظام طہارت ونطافت (قسط:01)

اسلامِ کا نظام طہارت و نظافت(قسط:01)

اسلام جیسے باطِن اور ایمان و نظریات کے بارے میں انتہائی پاکیزہ تعلیمات رکھتا ہے ایسے ہی ظاہری ستھرائی و صَفائی کے بارے میں بھی واضح تعلیمات عطا فرماتا ہے، اسلام گندگی کو ناپسند اور صَفائی ستھرائی اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ  رضی  اللہ  عنہا  سے روایت ہے، نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا :بے شک! اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نَظافَت حاصل کیا کرو کیونکہ جنّت میں صاف رہنے والا ہی داخِل ہو گا۔ ([1])علّامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی  رحمۃُ  اللہ  علیہ  لکھتے ہیں: یہ مبارَک عادت (صفائی ستھرائی)بھی مردوں اور عورتوں کے لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سَر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صَفائی  ستھرائی انسان کے وقار و شَرَف کا آئینہ دار اور محبوب پروردگار ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کا یہ اسلامی نشان ہے کہ وہ اپنے بدن، اپنے مکان و سامان، اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہر ہر چیز کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا ہر وقت دھیان رکھے۔ گندگی اور پھوہڑ پَن انسان کی عزّت و عظمت کے بد ترین دشمن ہیں اس لیے ہر مرد و عورت کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔([2])اسلام نے ایک ایسا نِظامِ طَہارت مہیّا کیا ہے جس کے ذریعےمسلمان اپنی ذات، گھر، خاندان، معاشرے حتّٰی کہ دل اور روح کو بھی  صاف ستھرا رکھ سکتا ہے۔ طہارت کا مطلب پاکی اور صفائی ہے اور اسلامی عِبادات، معمولات اور زندگی کے دیگر اُمور میں اس کی بڑی اہمیّت ہے۔ طَہارت کے نِظام میں مختلف اُصول اور طریقے شامل ہیں،آج اسی حوالے سے کچھ مدنی پھول پڑھنے کی سَعادت حاصل کریں گے۔

جسم کی طَہارت:اسلام نے جسمانی صفائی ستھرائی کا حکم دیا اور اس کی طَہارت کے مختلف طریقے بھی بتائے جن کے ذریعے جسم پاک صاف ہوجاتاہے۔مکمّل جسم کی پاکی اور صفائی کے لیے غسل اور مختلف اعضاء کی صفائی کے لیے وُضو اور دیگر ذرائع بھی بیان کیے ہیں جن کے ذریعے جسمانی صفائی کا خیال رکھا جاسکتا ہے۔

(1)استنجاکے بعد طہارت:بول و بَراز کا اِخْراج طبعی حاجَت ہے۔ اسلام نے قضائے حاجت کا طریقہ بھی بیان فرمایا ہے کہ پہلے پانی سے نجاست کو اچھی طرح دور کیا جائے اگر پانی نہ ہو تو مٹی کے ڈھیلوں کے ذریعے پاکی حاصل کی جائے۔ مٹّی کے ڈھیلے سے طہارت کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ مٹی میں بھی پاک کرنے کی صلاحیّت رکھی گئی ہے۔اگر اسلام کے بتائے ہوئے طریقۂ کار کے مطابق نجاست کو صاف نہ کیا جائے تو جسم پاک نہ ہوگا جس سے نماز و دیگر عبادات کی ادائیگی درست نہیں ہو گی نیز صفائی کرنے سے بیماریوں سے بھی حفاظت رہتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابِق مِٹّی میں نَوشادَر (AMMONIUM CHLORIDE) نیز بدبُو دُور کرنے والے بہترین اَجزا موجود ہیں۔ پیشاب اور فُضلہ جَراثیم سے لبریز ہوتا ہے، اِس کا جسمِ انسانی پر لگنا نقصان دِہ ہے۔ اِس کے اَجزا بدن پرچپکے رہ جا نے کی صورت میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔’’ ڈاکٹر ہلوک ‘‘ لکھتا ہے: اِستنجا کے مِٹّی کے ڈَھیلے نے سائنسی دنیا کو وَرطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ مِٹّی کے تمام اَجزا جراثیم کے قاتل ہوتے ہیں لہٰذا مِٹّی کے ڈَھیلے کے استِعمال سے پردے کی جگہ پر موجود جراثیم کا خاتِمہ ہو جاتا ہے بلکہ اِس کا استِعمال ’’پردے کی جگہ کے کینسر‘‘سے بچاتا ہے۔([3])اس بارے میں مزید معلومات کے لیے مکتبۃُ المدینہ کا رسالہ ”استنجا کا طریقہ “کا مطالَعہ کرنا مفید  ہے۔

(2)وُضو جسمانی صفائی کا ایک ایسا عمل ہےجس کے ذریعے بندہ ٔ مومن عِبادت، تِلاوت اور ان کاموں کو کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جو بغیر وُضو کے جائز نہیں ہوتے۔ نَمازوں کی اَدائیگی کےلیے وُضو شرط رکھا گیا اورقراٰنِ پاک میں اس کا حکم دیا گیا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِؕ-

ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو جب نَماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنا منھ دھوؤ اورکہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤں دھوؤ۔([4])

وُضو کرنے سے جہاں ایک مسلمان حکمِ خداوندی کا عامل بنتا ہے وہیں اس کے اَعضائے وُضو کی صفائی بھی ہوتی ہے اور احادیثِ مبارَکہ کے مُطابِق جسم کےان حصّوں کے گُناہ بھی جھڑجاتے ہیں([5])نیز وُضو کرنے والے کو طبّی اور سائنسی کئی فوائد و ثمرات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ وُضو کےطبی وسائنسی فوائد جاننے کے لیے مکتبۃُ المدینہ کا رسالہ”وُضو اور سائنس“ کا مطالَعہ بے حد مُفید ہے۔

(3)مسواک کرنا:سنّت کے مطابق وُضو کیا جائے تو اس کا ایک جُز مسواک کرنا بھی ہے کہ نبیِ پاک  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  وضو سے پہلے مسواک کرنا پسند فرماتے ایک حدیثِ پاک میں یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے میری اُمّت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں وضو سے پہلے مسواک کو لازم قرار دیتا۔([6])مسواک کرنے سے منہ میں موجود غذاؤں کے اجزا سڑتے نہیں اور منہ کی صفائی ہوجاتی ہے اور بندہ صاف منہ لے کر بارگاہِ الٰہی میں سربسجود ہوتا ہے نیز مسواک سے اس کے علاوہ بھی کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مسواک کے بارے میں مزید معلومات کے لیے رسالہ  ” مسواک شریف کے فضائل“ کامطالعہ کیجیے۔

(4)ناخن تراشنا: جسمانی صفائی میں ناخُن تراشنا اور موئے زیرے ناف صاف کرنابھی شامل ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اس بارے میں یہ حکم ہے کہ 40 دن کے اندر اندر ناخن اور جسم کے غیر ضَروری بال صاف کرلیے جائیں اور بِلاعذرِ شرعی 40 دن سے زائد کردینا ناجائز وگناہ ہے۔رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےارشاد فرمایا: جو مُوئے زیر ِناف اور ناخن نہ تراشے اورمُونچھ نہ کاٹے،وہ ہم میں سے نہیں۔([7]) طبّی لحاظ سے بڑے ناخن مضرِ صحت ہیں،ناخن تراشنا جہاں ایک طرف صحت کا باعث ہے تو دوسری جانب سنّت ومستحب عمل ہے اور بندہ سُنّت کے مطابق انہیں تراش کر ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جمعہ کے دن ناخن ترشوانا مستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جمعہ کا انتظار نہ کریں کیونکہ ناخنوں کا بڑا ہونا تنگیِ رِزْق کا سبب ہے۔([8])

(5)تیمّم:اسلامی احکام انسانی طبیعت کے موافق ہیں، اسلام نرمی اور آسانی کا حکم دیتا ہے اسی وجہ سے اپنے ماننے والوں کو نَماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی کے لیے سفر و حضر میں پانی کی عدم موجودگی یا بیماری کی حالت میں پاکی حاصل کرنے کے لیے تیمّم کا حکم فرمایا ہےجو وضو وغسل کا قائم مقام ہے۔ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتاہے:

وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا(۴۳)

ترجمۂ کنزالایمان: اور اگر تم بیمار ہو یا سَفَر میں یا تم میں سے کوئی قَضائے حاجَت سے آیا یا تم نے عورتوں کو چھوا اور پانی نہ پایا تو پاک مٹّی سے تیمّم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرو بےشک  اللہ  معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے۔([9])

 آیتِ مبارکہ کے آخری جز کا شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ بنی مُصْطَلَق میں جب لشکرِ اسلام رات کے وقت ایک بیابان میں ٹھہرا جہاں پانی نہ تھا اور صبح وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ تھا، وہاں اُمّ المومنین حضرت عائشہ  رضی  اللہ  عنہا  کا ہار گم ہوگیا، اس کی تلاش کے لیے سیّد ِ دو عالم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے وہاں قیام فرمایا، صبح ہوئی تو پانی نہ تھا۔اس پر  اللہ  تعالیٰ نے تیمّم کی آیت نازل فرمائی۔([10])

تیمّم کا طریقہ: تیمم کرنے والا پاکی حاصل کرنے کی نیّت کرے اور جو چیز مٹّی کی جنس سے ہو جیسے گرد، ریت، پتّھر، مٹّی کا فرش وغیرہ، اس پر دو مرتبہ ہاتھ مارے، ایک مرتبہ ہاتھ مار کر چہرے پر پھیرلے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ پھیر کر کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر پھیرلے۔ تیمّم کے مزید احکام جاننے کے لیے بہارِ شریعت، جلد1، حصہ نمبر2 سے ’’ تیمّم کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں۔

(6)غسل کے ذریعے طہارت:غسل بھی جسمانی صفائی ستھرائی اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے،انسانی فطرت صفائی ستھرائی اور خوبصورتی کو پسند کرتی ہے اسی وجہ سے اسلام نے فطرتِ انسانی کا لحاظ کرتے ہوئےمسلمانوں کو پورے جسم کی صفائی کے لیے غسل کی ترغیب دلائی ہے نبیِ پاک  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: لازم ہے ہرمسلمان پر کہ ہر سات دن میں ایک دن غسل کرے جس میں سر وجسم دھوئے۔([11])

حکیمُ الاُمّت، حضرت مفتی احمد یارخان نعیمی  رحمۃُ  اللہ  علیہ  فرماتےہیں:یہاں ایک دن سےمراد جُمعہ کادن ہے۔مطلب یہ ہے کہ ہفتہ میں جمعہ کے دن غسل کرلینا چاہیے تاکہ بدن بھی صاف ہوجائے اورکپڑے بھی اور جمعہ کی بھیڑ میں مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو،چونکہ سَر میں میل جوئیں زیادہ ہوجاتی ہیں،اس لیے خصوصیت سے اس کا ذکر کیا ورنہ جسم میں یہ بھی داخل تھا۔ غسل میں کلّی اورناک میں پانی لینا اور تمام جسم کا دھونا ہمارے ہاں فرض ہے۔([12])

بعض صورتوں میں عِبادات اور مُعاملات کی ادائیگی کے لیے پورا جسم پاک کرنا ضَروری قرار دیا ہے اور اس صورت میں غسل نہ کرنا یا اسلام کے بتائے ہوئے طریقۂ کار کے مطابق نہ کرنا عِبادات کے ضائع ہونےاور بندے کے گنہگار ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔دینِ اسلام نے نہ صرف زندگی میں جسمانی صفائی کے لیےغسل کا حکم دیا بلکہ مرنے کے بعد بھی مردوں کو غسل دے کر دفنانے کو لازمی قرار دیا ہے۔ غسل کے متعلّق مسائل جاننے کے لیے مکتبۃُ المدینہ کا رسالہ ”غسل کا طریقہ“ کا مطالعہ کیجیے  اِن شآءَ  اللہ   بے حد مفید ثابِت ہوگا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])کنز العمال،جزء9،5/123، حدیث: 25996

([2])جنتی زیور،ص139

([3])استنجا کا طریقہ،ص10

([4])پ6، المائدۃ:6

([5])مسنداحمد،1/130،حدیث: 415

([6])ترمذی، 1/100، حدیث:23

([7])مسند احمد، 9/125، حدیث:23539

([8])بہار ِشریعت، 3/582

([9])پ5،النسآء:43

([10])بخاری،1 / 133، حدیث: 334

([11])بخاری، 1/310، حدیث: 897

([12])مراٰۃ المناجیح،1/345تا 346 ملتقطا


Share