اسلام ہی مکمل ضابطہ حیات ہے (قسط03)

اسلام ہی مکمل ضابطۂ حیات ہے(قسط:03)

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری


یہ ایک مسلّمہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ’’ اسلام ہی مکمل ضابطۂ حَیات ‘‘ہے۔اس پر پہلی دو اقساط میں انسانی زندگی اور بقائے حَیات کے لیے پائی جانے والی ضَروریات کے تناظر میں اسلامی تعلیمات کا اجمالی بیان آپ دلائل و بَراہین سے جان چکے۔یاد رہے کہ اسلامی تعلیمات کا تعلّق صرف انسان کی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جہاں اسلام زندگی کے ہر ہر شعبے میں رَہنمائی کرتا ہے وہیں سانسوں کی مالا ٹوٹ جانے کے بعد بھی اسلام کے ماننے والے بے یارو مددگار نہیں بلکہ اب اس جسمِ بے جان کے ساتھ کیا کرنا ہے ؟ اسلام اس بارے میں بھی تفصیلی رَہنمائی فرماتا ہے۔چونکہ یہ اسلام کا ماننے والا تھا اس لیے اسلام اس حال میں بھی اسے لاوارِث نہیں رہنے دیتا، اب بھی اس کی عزّت و حُرمت کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے اسے آتش پرستوں کی طرح گِدھوں کے حوالے نہیں کیا جاتا، نہ ہی بعض غیر مسلموں کی طرح جلایا جاتا ہے بلکہ عزّت و تکریم کے ساتھ کندھوں پر سوار کر کے سوئے قبرستان لے جایا جاتااور اسلامی تعلیمات کے مطابق سِپردِ خاک کیا جاتا ہے۔الغرض اسلام کسی بھی ایسے کام کی ہرگز اجازت نہیں دیتا جو کہ مسلمان میّت کی حُرمت و وقار کو تار تار کردے۔

فوت شُدہ مسلمان اور اسلام :

جب کسی مسلمان پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں تو اسلام کے احکامات فوراً اس کی جانب متوجّہ ہوتے ہیں،اس کیفیت میں اس کے اہلِ خانہ کے لیے کیا حکم ہے؟اسے لٹانا کس طرح ہے ؟اس کے سامنے اگر کچھ بولنا یا پڑھنا ہے تو وہ کون سے کلمات ہیں ؟اسلام ان سب کی رَہنمائی فرماتا ہے جیسا کہ حضرت ابوسعید خُدری  رضی  اللہ  عنہ  سے روایت ہے رسولُ   اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے فرمایا: اپنے مرنے والوں کو کلمہ طیبہ  لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ  کی تلقین کرو۔ ([1])اس کلمہ کو پڑھنے پڑھانے کی نہ صرف ترغیب ہے بلکہ جس کا آخِری کلام یہی کلمہ طیّبہ ہو اس کے لیے تو جنّت کی خوش خبری بھی دی گئی ہے جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے کہ جس کا آخِری کلام لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہو وہ جنّت میں داخِل ہوگا۔([2])انتقال ہوتے ہی ہاتھ پاؤں سیدھے کرنے کا حکم ہے، آنکھیں کھلی ہو ں تو بند کر دی جائیں، آنکھیں کھلی رہنے سے کچھ فائدہ تو نہیں البتہ شکل ڈراؤنی ہوجاتی ہے اس لیے آنکھیں فورًا بند کردیں بلکہ اگر منہ کُھلا رہ گیا ہوتو اسے بھی بند کردیا جائے اور جبڑے باندھ دیئے جائیں۔نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حضرت ابوسلمہ  رضی  اللہ  عنہ  کے انتقال کے بعد تشریف لائے ان کی آنکھیں بند کیں اور فرمایا: جب روح قبض کرلی جاتی ہے تو نظر اس کے پیچھے جاتی ہے۔ان کے گھر کے لوگوں نے آہ وبکاکی تو حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اپنے متعلّق خیر ہی کی دُعا کرنا کیونکہ فرشتے تمہارے کہے پر آمین کہتے ہیں۔([3])فوت ہوجانے والے مؤمن کو اس طور پر بھی اہمیّت دی جاتی ہے کہ اس کی تدفین میں دیر نہ کی جائے تاکہ بدن میں واقع ہونے والی تبدیلی سے لوگ اس کے بارے میں انگشت نمائی نہ کریں۔اس لیے رسول   اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے فرمایا:لَا يَنْبَغِي لِجِيفَةِ مُسْلِمٍ اَنْ تُحْبَسَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ اَهْلِهِ یعنی کسی مسلمان کی میّت کو اس کے اہل وعیال میں زیادہ دیر روک کر نہ رکھا جائے۔([4]) اسلام تو اپنے مسلمان بھائی کے لیے قبر کھودنے کا بھی اجرو ثواب بتاتا ہے تاکہ کوئی اسے بوجھ نہ سمجھے بلکہ قبر کھودنے کو سَعادت اور اپنے لیے جنّتی محل کی ضمانت جان کر یہ کام خوش دلی سے سَرانجام دے جیسا کہ رسولُ   اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے فرمایا:مَنْ حَفَرَ قَبْرًا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ یعنی جس نے( کسی مسلمان کے لیے) قبر کھودی   اللہ  کریم  اس کے لیے جنّت میں گھر بنائے گا۔([5])اسلام نہ صرف قبر کھودنے بلکہ غسل و کفن کا ثواب بتا کر ترغیب دِلا کر اس نیک کام میں شرکت کی رغبت دلاتا ہے جیسا کہ حضرت جابر  رضی  اللہ  عنہ  سے روایت ہے :جس نے کسی میّت کو غسل دیا وہ اپنے گُناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوجائے گا جیسااپنی پیدائش کے دن تھا۔([6])ایک اور حدیثِ پاک میں فرمایا: جس نے میت کو غسل دیا اور اس کی پردہ پوشی کی تو   اللہ  کریم  40 بار اس کے گُناہ بخشے گا۔([7]) ایک حدیث میں ہے:جس نے میّت کو کفن پہنایا  اللہ  پاک اسے جنّت کے سُندُس و اِستَبرق (باریک اور موٹے ریشم) کا لباس پہنائےگا۔([8])جس آدَمی نے کسی مسلمان میت کو غسل دیا اور ناپسندیدہ چیز کو دیکھا تو اسے لوگوں سے چُھپایا ایسے آدمی کے بارے میں حدیثِ پاک میں ہے: جس نے کسی میت کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپایا   اللہ  کریم  ایسے شخص کے چالیس کبیرہ گُناہ بخش دیتا ہے۔([9])یہ تو تدفین تک کے بارے میں اسلام کی اجمالی رہنمائی کا بیان ہے،اب اس فوت ہو جانے والے مسلمان کے پیچھے بچ جانے والے مال و متاع، گھر بار اور کاروبار کا کیا ہو گا ؟ کون کس چیز کا حقدار ہو گا؟کس کو کتنا اور کیا کیا ملے گا؟ فوت ہونے والے مسلمان کی بیوہ کا گزر بَسر کیسے ہو گا؟ عدّت کے دورانیہ کے اَخراجات کہاں سے دئیے جائیں گے؟ وراثت سے اس بیوہ کو کتنا ملے گا؟ اولاد ہونے اور نہ ہونے ہر دو صورت کے احکام کیا ہیں؟میّت کے بیٹوں کو کتنا ملے گا؟بیٹی کتنے حصّے کی حقدار بنے گی؟صرف ایک بیٹی ہو تو کیا صورت بنے گی ایک سے زائد ہوں تو وراثت کیسے تقسیم ہو گی؟ کون محروم ہو گا کون کس سے مل کر عصبہ بنے گا؟کون کس کے لیے حاجِب قرار پائے گا؟میت کے مال میں سے پہلے کون سے احکامات  کو پورا کیا جائے گا؟اس کے غسل و کفن اور تدفین کے احکام کیا ہوں گے؟ان کاموں کی تکمیل میں جو رقم خرچ ہو گی وہ کہاں سے اَدا کی جائے گی؟ فوت ہونے والا مقروض تھا تو اس کا قرض کہا ں سےاَدا کیا جائے گا؟الغرض کون سی ایسی صورت ہے کہ جس کے بارے میں اسلام رَہنمائی نہیں کرتا۔یہ اجمالی اور مختصر صورتِ حال یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ واقعی ’’اسلام ہی مکمل ضابطۂ حَیات ہے۔‘‘یہ تو کچھ ظاہری معاملات ہیں اس کے علاوہ خود فوت ہونے والے کی اُخروی زندگی کے بارے میں بھی اسلام بڑی تفصیل سے رَہنمائی فرماتا ہے،آئندہ اقساط میں اس پر مفصّل کلام کیا جائے گا۔



([1])مسلم، ص356،حدیث:2123

([2])ابوداؤد، 3/255، حدیث:3116

([3])مسلم،ص357،حدیث:2130

([4])ابوداؤد،3/268،حدیث: 3159

([5])معجم اوسط،6/429،حدیث:9292

([6])معجم اوسط،6/429،حدیث:9292

([7])مستدرک للحاکم،1/677، حدیث:1347

([8])مستدرك للحاکم،1/677، حدیث:1347

([9])معجم کبیر،1/315،حدیث:929


Share