عِزتِ نسواں اوراسلام
تاریخ کے اَوراق بتاتے ہیں کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب وآلام جھیلتی رہی ہے اور کتنی بے دردی کے ساتھ توہین و ظلم کی تاریک وادیوں میں دھکیلی گئی۔اسلام سے قبل معاشرےمیں عورت ذات کو حقیر اور اپنے لیے باعثِ عار تصور کیا جاتا، اس کےساتھ غلاموں اور جانورو ں سے بد تر سلوک کیا جاتا تھا۔جاہل، درندہ صفت لوگوں نےاسے محض خواہشات کا کھلونا سمجھا، اس کی بدترین توہین کی اور زندہ درگور کرکے اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی۔ مگر جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور آفاقِ عالم میں اس کی کرنیں پھوٹیں توعورت کی حیثیت یکدم بدل گئی۔محسنِ انسانیت،سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عظیم احسان فرمایا،جہالت کے تاریک اندھیروں میں ڈوبے لوگوں کو علم وہدایت کی صبح سے روشناس کروایا۔
بیٹیوں کے لیے اسلام کا انقلابی اقدام:
یہودی بیٹیوں کو نوکرانی کے مرتبے سے زیادہ نہیں رکھتے، بیٹوں کے ہوتے بیٹی کو وراثت کا حقدار نہ جانتے،نیزاپنی چھوٹی بچیوں کو بیچ دینے کا رواج عام تھا۔ بعض قبائلِ عرب میں بچی کوپیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا۔ الحمدللہ! اسلام نے بیٹی کو جان و عزت کا تحفظ فراہم کیا،اس کی عظمت اور وقار بلند کیا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیٹیوں کی اچھی پرورش کا بدلہ جنّت میں اپنی رفاقت کی صورت میں بتایا،([1])بیٹیوں کو خوش رکھنے والے کو اللہ پاک کی رضا و خوشی کی نوید سنائی۔([2])بلکہ بیٹیوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو بازار سے اپنے بچّوں کے لئے کوئی چیز لائے تو وہ ان (یعنی بچّوں)پر صَدَقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہیے کہ بیٹیوں سے ابتِدا کرے کیونکہ اللہ پاک بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے۔([3])
عورت کا حق چھیننے والوں کے لیے وعیدِ جہنم:
دینِ اسلام نے عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور تَرکے میں حصہ دار نہ بنانے والی غلط رسم کا رَد کیا اور اسے صریح ظلم بتایا،اور مَرد و عورت دونوں کومالِ وراثت کا حقدار ٹھہرایا۔([4])نیز وراثت کے حصے حدود اللہ ہیں، جنہیں توڑنے والے کو اللہ و رسول کا نافرمان بتایا گیا اور اسے جہنم کی بھڑکتی آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔([5])
جبراً حق جتانے کی ممانعت:
قبلِ اسلام عرب میں شوہر کے انتقال کے بعد رشتہ دار بیوی کے وارث بن جاتے یا تو بے مہر ہی اُس سے شادی کرلیتے یا کسی سے شادی کروا کرمہر خود رکھ لیتے الغرض وہ ان کے ہاتھوں مجبور ہوکر رہ گئی تھی۔ایسی عورت ذہنی اور جسمانی اذیتوں کا شکار رہتی، اپنے اختیار سے کچھ نہ کرسکتی تھی۔ اسلام نے عورتوں کی فریاد رسی کی: ترجَمۂ کنز الایمان : اے ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ عورتوں کے وارث بن جاؤ زبردستی اور عورتوں کو روکو نہیں اس نیت سے کہ جو مہر ان کو دیا تھا اس میں سے کچھ لے لو مگر اس صورت میں کہ صریح بے حیا ئی کا کام کریں اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔([6])
اسلام بیواؤں اور بے سہارا عورتوں کا محافظ:
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ”بیواؤ ں کے نگہبان اور بے سہاروں کے مددگار“ ہیں۔آپ علیہ السّلام نے گھر بیٹھی،بے شوہر والیوں سےاچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اور اس پر عظیم اجر کی بشارت سنائی۔ چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:السَّاعِي عَلَى الْاَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ الله اَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَار یعنی بے شوہر والی (خواہ کنواری ہو،بیوہ یا مطلقہ و معلقہ) اورمسکین کےلیے کوشش کرنے والا الله پاک کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن میں روزے رکھنے والے کی مانند ہے۔([7]) ایک حدیث میں ارشاد فرمايا: جو شخص کسی یتیم یا بیوہ کی کَفالت کرے تو اللہ پاک اسے سایۂ عرش میں جگہ عطا فرمائے گا اور اپنی جنت میں داخل فرمائے گا۔([8])
بیوی کے لیے زمانہ جاہلیت والی ذلت کا خاتمہ:
بیوی پاؤں کی جوتی نہیں بلکہ اپنے گھر کی مَلکہ ہے،([9]) بچوں کی والدہ اور پہلی مُرَبِیہ(تربیت کرنے والی) ہے۔ نیز قراٰن کریم انھیں مردوں کے سکون اور آرام کا ذریعہ بتاتا ہے۔([10])اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین بھی۔([11])زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں سے مال طلب کرتے، اگر وہ دینے سے انکار کرتیں تو کئی کئی سال ان کے پاس”نہ جانے“ کی قسم کھالیتے۔ بیوی نہ تو بیوہ ہوتی کہ کہیں اور جائے پناہ پائے اور نہ شوہر کی ہوتی کہ اس سے کچھ راحت پائے۔اسلام نے اس ظلم کا قلع قمع کیا اور سالہا سال کی مدّت ختم کرکے صرف چار (4)مہینے مُعَیَّن فرمائی۔([12]) اسلام اس جیسے تمام ظالمانہ، جابرانہ نظریوں اور رویوں کی حوصلہ شکنی کرکے مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیتا ہے۔([13])عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنے کی تلقین کی گئی اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے کو لوگوں میں بہتر شخص فرمایا گیاہے۔([14])
سوتیلی ماں بھی عزت و محبت کی حق دار:
عہدِ جاہلیت میں باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں سے نکاح کرلینے کا عام رواج تھا، قراٰن کریم میں آیت نازل کرکے اس قبیح عمل سے منع کیا گیا۔([15])آج بھی مغربی معاشرے سے ملنے والی غلط سوچ کے سبب سوتیلی ماں کو پہلی اولاد کے حق میں ظالمانہ، بےرحم کردار تصور کیا جاتا ہے۔ جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا بلکہ سب کو اپنے اپنے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے نہ سوتیلی ماں کے ساتھ بد سلوکی کی اجازت ہے اور نہ ہی کسی کی باتوں میں آکر عورت سوتیلی اولاد کے ساتھ ناانصافی یا ظلم کرسکتی ہے۔ دینِ اسلام سوتیلی ماں سےبھی محبت، عزت و احترام بھرا تعلق رکھنے کا درس دیتا ہے۔
بہرحال ان تعلیمات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دورِ حاضرپر نظریں دوڑانے سے معلوم ہوگا کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو جسمانی طور پر تو اس دور میں ہیں مگر ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے زمانۂ جاہلیت میں رہتے ہیں۔ایسے طبقے میں اسلامی تعلیمات، شعور و آگہی اور نیکی کی دعوت بڑھانے کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ نیز اسلام کی یہ روشن تعلیمات و احکام ان لوگوں کو بھی دعوتِ فکر دیتے ہیں جواس شیطانی وسوسے کا شکار ہیں کہ ”اسلام میں عورت پر سختی ہے!“ وہ غور کریں،کیا اسلام میں عورت پرسختی کی گئی ہے یا سختیوں سے نَجات دلا کر راحت و آرام کا اہتمام کیا گیا ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ اردو لغت، المدینۃ العلمیہ

Comments