حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام (قسط:01)

حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام (قسط:01)

پیارے اسلامی بھائیو!  خلیل  اللہ    حضرت ابراہیم  علیہ السَّلام  کی عمر مبارَک اس وقت 120 سال ہوچکی تھی جب سادہ رُو، نوجوانوں کی حَسین شکلوں میں فرشتوں نے بیٹے حضرت اسحاق اور ان کے بعد پوتے حضرت یعقوب علیہما السَّلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی۔ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے پچھلے شُماروں میں آپ معزّز نبی حضرت اسحاق  علیہ السَّلام کے تفصیلی حالات مبارَکہ پڑھ چکےہیں ، اب مکرّم نبی حضرت یعقوب  علیہ السَّلام  کی بابرکت سیرت  پڑھیے :

پیدائش:

حضرت سیِّدُنا یعقوب  علیہ السَّلام  کی پیدائش سَرزمین کَنْعان (فلسطین) میں ہوئی، اس وقت والد محترم حضرت اسحاق  علیہ السَّلام کی عمر مبارک 60 سال سے اوپر تھی  حضرت یعقوب  علیہ السَّلام  والد محترم حضرت اسحاق  علیہ السَّلام  کی محبتوں اور شفقتوں کے سائے میں پل بڑھ کر جوان ہوئے۔ ([1])

لقب  کا معنی:

 آپ  علیہ السَّلام  کا لقب ”اِسرائیل ہے اور یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے، عربی زبان میں اس کا معنی ’’صَفْوَۃُاللّٰہ‘‘ہے یعنی  اللہ پاک  کامنتخب وپسندیدہ بندہ، اوریہ بھی کہاگیا ہے  کہ ’’اِسراء“کا معنیٰ ”عبد“یعنی بندہ اور ”اِیل“ سے مراد” اللہ “تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا ’’عبد اللہ ‘‘یعنی  اللہ  کا بندہ۔([2])

اوصاف وحلیہ مبارکہ :

 اللہ  کریم کے پیارے کریم نبی حضرت یعقوب  علیہ السَّلام اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے، مضبوط اَعصاب  رکھنے  والے، پُروقار اور خاموش طبیعت رکھنے کے ساتھ ساتھ  ظاہری و باطنی حُسن و خوبیوں سے مالامال تھے،([3])گورا رنگ جس میں سُرخی جھلکتی، ناک اُونچی، رُخسارے ہلکے، چہرہ خوبصورت جبکہ لبِ زیریں پر ایک تل تھا، ([4])آپ  علیہ السَّلام کو  اونٹ کا گوشت اور اونٹنی کادودھ  بہت پسند تھا لیکن ایک مرتبہ بہت زیادہ بیمار ہوئے اور بیماری طول پکڑ گئی تو آپ نے یہ منّت مانی کہ اگر  اللہ    اس بیماری سے شفا عطا فرمادے تو میں اپنی سب سے  پسندیدہ چیز  نہ کھاؤں گا اور نہ پیئوں گا۔([5])

والدِ محترم کی دعا:

ایک مرتبہ والد ماجد حضرت اسحاق  علیہ السَّلام  نے آپ   علیہ السَّلام کو اپنے قریب بلایا اور یہ دعا دی کہ  اللہ  تمہاری اولاد میں انبیا اور بادشاہوں کو پیدا کرے۔([6])

نکاح و اولاد:

حضرت اسحاق  علیہ السَّلام کی طرف سے آپ  علیہ السَّلام  کو یہ وصیّت تھی کہ کسی کنعانی عورت سے نکاح  نہ کریں بلکہ اپنے ماموں کی بیٹی سےنکاح کریں، لہٰذا آپ  علیہ السَّلام  نے سفر اختیار کیا([7]) اور ماموں لَیَان   کی بڑی بیٹی” لِیّا“ سےپھر ان کے انتقال کے بعد چھوٹی بیٹی ”راحیل“ سے نکاح کیا،([8]) اللہ  کریم نے حضرت یعقوب  علیہ السَّلام  کے مال واولاد  میں بَرَکت عطا فرمائی   اللہ  کی رحمت سے آپ کے ہاں 12 بیٹے پیدا ہوئے([9])پہلی زوجہ محترمہ” لِیّا“ سے 6 بیٹے، مزید دو بیویوں سے 4 لڑکوں کی پیدائش ہوئی جبکہ  بی بی ” راحیل“ سے دو بیٹے حضرت یوسف علیہ  السَّلام اور بنیامین پیدا ہوئے۔([10])والد محترم حضرت اسحاق  علیہ السَّلام  کی حَیات مبارکہ میں ہی حضرت یعقوب  علیہ السَّلام  کے اكثر بیٹے پیدا ہوچکےتھے۔([11])

ذریعۂ معاش:

حضرت یعقوب  علیہ السَّلام  اور ان کی اولاد بکریاں چَراتے تھے اور بکریاں پال پال کر ان کو بیچا کرتے تھے۔([12]) جب آپ  علیہ السَّلام کنعان  سے تشریف لے گئے تھے تو خالی ہاتھ تھے اور جب واپس کنعان لوٹ رہے تھے تو آپ کے پاس کثیر بکریاں ، جانور اور غلام تھے۔([13])

بعثت مبارکہ اورمعجزات :

حضرت سیّدنا یعقوب  علیہ السَّلام  کو شام کے شہروں میں مقیم کَنْعانی قوم کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔([14]) کتابوں میں آپ  علیہ السَّلام  کے کئی معجزوں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے کچھ  یہ ہیں  (1) آپ  علیہ السَّلام  نےپانی پی کر  بچا ہوا پانی کنویں میں واپس ڈالا تو کنواں پانی سے لبالب بھر گیا۔([15]) (2)آپ  علیہ السَّلام  نے درخت کے پتّوں پرلعاب  والی پھونک ماری جن بکریوں نے وہ پتّے کھائے تو انہوں نے نَربچّے پیدا کئے، اگلے سال اسی طرح دوسری بکریوں نے پتّے کھائے تو انہوں نے مادَہ بچّے جَنے۔([16]) (3)آپ  علیہ السَّلام  نے دُعا کی تو دشمنِ دین کا قلعہ زمین بوس ہوگیا۔([17]) (4)ایک بدزبان کے لیےآپ  علیہ السَّلام  نے دُعا کی تو اس کی زبان بند ہوگئی  پھر کسی کی سفارش پر اس کے لیے دوبارہ دُعا کی تو اس کی زبان صحیح ہوگئی۔([18]) (5) کتابوں میں یہ معجزہ بھی ملتا ہے کہ آپ  علیہ السَّلام  نے ایک بھیڑیے سے کلام کیا۔([19])

وفات:

آپ  علیہ السَّلام  کو اپنے بیٹے حضرت یوسف  علیہ السَّلام  سے بڑی محبّت تھی دوسرے بیٹوں کی وجہ سےحضرت یوسف  علیہ السَّلام  آپ سے جُدا ہوگئےتھے  یہاں تک کہ  حضرت یوسف کی جدائی میں روتے روتے آپ  علیہ السَّلام  کی آنکھ کی سیاہی کا رنگ جاتا رہا اور بینائی کمزور ہوگئی۔([20])ایک طویل عرصے بعد  اللہ  کریم نے حضرت یعقوب  علیہ السَّلام  کو ان کے بیٹے حضرت یوسف  علیہ السَّلام  سے ملادیا، پھر آپ  علیہ السَّلام  نے اپنے دوسروں بیٹوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف  اور ان کی  غلطیوں کو مُعاف کردیا۔([21])حضرت یعقوب  علیہ السَّلام  نے 147 سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔([22])

تفصیلی سیرت مبارکہ

آئیے! حضرت یعقوب علیہ السَّلام کی کچھ  تفصیلی  سیرتِ مبارَکہ پڑھئے : جب حضرت یعقوب عراق کے شہر بابل کے قریب سَرزمین” فدان آرام“ میں اپنے   ماموں کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں رات ہوگئی([23])آپ نے ایک جگہ آرام فرمانے کی غرض سے ایک پتّھر لیا اور اپنے سر کے نیچے رکھ کر سو گئے۔ خواب میں دیکھا کہ آسمان سے زمین تک ایک سیڑھی لٹکی ہوئی ہے  اور فرشتے اس  سیڑھی سے اوپر نیچے آجارہے ہیں،([24]) پھر  اللہ  کریم نے آپ کی طرف وحی فرمائی: میں  اللہ  ہوں، میرے سِوا کوئی معبود نہیں، میں ہی تمہارا ا ور تمہارے باپ دادا کا معبود ہوں ، میں نےتمہیں مقدّس سَرزمین کا وارِث بنادیا ہے، پھر تمہارے بعد تمہاری اولاد کو وارث کیا، اور میں تمہیں اور تمہاری اولادکو  بابَرکت بناؤں گااور کتاب، حکمت اور نبوّت رکھوں گا، میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہاری حِفاظت کروں گا۔([25]) حضرت یعقوب  علیہ السَّلام جب نیند سے بیدار ہوئےتو اس بابَرکت خواب کی وجہ سے بہت خوش ہوئے آپ نے منّت مانی کہ اسی جگہ پر  اللہ  کریم کی ایک عِبادت گاہ تعمیر کروں گا، پھر آپ نے وہاں ایک (مضبوط )پتھر کو تیل سے رنگ دیا  تاکہ بعد میں یاد رہے کہ اسی بابَرکت جگہ پر عبادت گاہ تعمیر کرنی ہے۔ پیارے اسلامی بھائیو! آج اسی جگہ پر قبلۂ اوّل بیتُ المقدس واقع ہے۔([26])                                                                                                                                                                                                                                                                                                    (جاری ہے)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])النبوۃ والانبیاء للصابونی ، ص:258- الانس الجلیل  بتاریخ القدس و الخلیل، 1/151

([2])اصلاح اعمال، 1/402- صراط الجنان، 1/110ملخصاً

([3])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 102

([4])تاریخ ابن عساکر، 74/15ماخوذاً

([5])الاحادیث المختارہ، 11/22، رقم :11

([6])عرائس المجالس للثعلبی،ص140

([7])الانس الجلیل بتاریخ القدس و الخلیل ، 1/152

([8])خازن ،یوسف، تحت الایۃ: 7 ، 3/5

([9])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 103

([10])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 103 تا  105ملتقطاً-خازن، یوسف، تحت الایۃ: 7 ، 3/5

([11])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 104

([12])جنتی زیور، ص547

([13])قصص الانبیاء لابن کثیر ص287 ماخوذاً

([14])قصص الانبیاء لابن کثیر، ص287

([15])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 102 ملخصاً

([16])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 103 ملخصاً

([17])قصص الانبیاءللکسائی، ص155ملخصاً

([18])قصص الانبیاء للکسائی، ص: 176،   177 ملخصاً

([19])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی، ص 111ملخصاً

([20])صراط الجنان ،5/49بتغیر

([21])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص139

([22])روح البیان، 4/324،   یوسف:100

([23])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 102۔ النبوۃ و الانبیاء  للصابونی ، ص:258

([24])قصص الانبیاء، لابن کثیر،ص:285

([25])تاریخ الانبیاء للخطیب البغدادی،ص 102

([26])النبوۃ والانبیاء للصابونی ، ص:259


Share