جنّتی بالا خانے دلانے والی نیکیاں
اے عاشقانِ رسول! جنّت ایک عالیشان جگہ ہے جسے اﷲ پاک نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے، اس میں وہ نعمتیں رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سُنا، نہ کسی شخص کے دل پر ان کا خیال گزرا۔ جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے محض سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ چیز کو جنّت کی کسی چیز کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔ آئیے! جنّتی بالا خانے (یعنی جنّت کے بلند محلّات اور اونچے اونچے مکانات) حاصل کرنے والی نیکیوں کے بارے میں چند روایات سنئے اور عمل کی کوشش کیجیے۔
(1)رسولوں کی تصدیق کرنے والے
اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اہلِ جنّت بالاخانے(یعنی اونچے اونچے مکانات) والوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے مشرقی یا مغربی کنارےمیں دُور سے چمکتے ہوئے تارے کو دیکھتے ہو کیونکہ بعض کے دَرَجات بعض سے زائد ہیں۔ صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم ! کیا وہ اَنبیائے کرام کے دَرَجات ہوں گے جن تک کوئی اور نہیں پہنچ سکتا؟ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدرت میں میری جان ہے! یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ پاک پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی۔ ([1])
(2) اللہ کے لیےمحبّت کرنے، مُلاقات کرنے اورمل کر بیٹھنے والے
تاجدار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا :بِلاشُبہ جنّت میں یَاقوت کے سُتون ہیں جن پر زَبر جَد کے بالاخانے (یعنی بلند محلّات) ہیں ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں وہ ایسے چمکتے ہیں جیسے بہت روشن ستارہ چمکتا ہے، صحابۂ کِرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم ! ان بالاخانوں میں کون (خوش نصیب) رہیں گے؟ ارشاد فرمایا:جو اللہ پاک ہی کے واسطے آپس میں محبّت رکھتے ہیں اور جو اللہ پاک ہی کے واسطے آپس میں بیٹھتے ہیں اور جو اللہ پاک ہی کے واسطے آپس میں مُلاقات کرتے ہیں۔([2])
(3)اچّھی گفتگو کرنے،کھاناکھلانےاور ہمیشہ روزے رکھنے والے
اللہ پاک کے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان ہے: جنَّت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا باہَر اندرسے اور اندر باہَر سے دیکھا جاتاہے۔ ایک اَعرابی (یعنی دیہات کے رہنے والے صاحب) نے کھڑے ہو کر عرض کی:یانبیَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم! یہ کس کے لیے ہیں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: یہ اُس کے لیے ہیں جو نَرم گفتگو کرے، کھانا کھلائے، مُتواتِر (یعنی لگاتار) روزے رکھے اور رات کو اُٹھ کر اللہ پاک کے لیے نماز پڑھے جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔([3])
حضر تِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ’’مُتواتِر (یعنی لگاتار) روزے رکھنے‘‘ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یعنی ہمیشہ روزے رکھیں سوا ان پانچ دنوں کے جن میں روزہ حرام ہے یعنی شوّال کی یکم اور ذِی الحجّہ کی دسویں تا تیرھویں یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو ہمیشہ روزے رکھتے ہیں، بعض نے فرمایا کہ اس کے معنیٰ ہیں ہر مہینے میں مسلسل تین روزے رکھے۔([4])
(4)سلام کو عام کرنے اور ہمیشہ روزے رکھنے والے
ایک طویل روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: ایک دن پیارے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں جنّت کے بالا خانوں (یعنی اونچے اونچے محلّات) کے بارے میں نہ بتاؤں؟ہم نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم ! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان! ضَرور ارشاد فرمائیے! ارشاد فرمایا:جنّت میں جواہر کی مختلف اقسام کے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی منظر اندر سے اور اندرونی منظر باہر سے دکھائی دیتا ہے۔ ان میں ایسی نعمتیں، ثواب اور عزّت و کَرامت ہے جن کے متعلّق نہ تو کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی آنکھ نے انہیں دیکھا۔ ہم نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم ! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کس کے لیے ہیں؟ارشاد فرمایا:اس خوش بخت کے لیے جو سلام کو عام کرے، ہمیشہ روزے رکھے، لوگوں کو کھانا کھلائے اور نَماز پڑھے جبکہ لوگ سورہے ہوں۔ میں نے عرض کی:یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم ! میرے ماں باپ آپ پرقربان! کون ان کاموں کی طاقت رکھتا ہے؟ارشاد فرمایا: میری اُمّت میں سے جو اس کی طاقت رکھتا ہے عنقریب میں اس کے بارے میں تمہیں آگاہ کروں گا۔پھر ارشاد فرمایا: جو مسلمان بھائی سے ملے، اسے سلام کرے اور وہ جواب دے تو یقیناً اس نے سلام کو عام کیا، جو اپنے اَہل و عیال کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو یقیناً اس نے کھانا کھلایا، جس نے پورا ماہِ رَمَضانُ المبارک اور ہر مہینے تین روزے رکھے گویا اس نے ہمیشہ روزے رکھے اور جس نے عشا و فجر کی نماز باجماعت اَدا کی گویا اس نے اس وقت نَماز پڑھی جب لوگ یعنی یہود و نصاریٰ اور مجوسی سوئے ہوئے تھے۔([5])
(5) اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے
حضرتِ سیّدنا بُریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایاکہ بے شک جنّت میں بالا خانے ہیں جن کے باہر سے اند ر کا حصّہ نَظَر آتاہے اور اند ر سے باہر کامنظر نظر آتاہے، اللہ پاک نے اسے اپنے لیے محبّت کرنے والوں اور اپنے لیے ایک دوسرے سے ملنے والوں اور اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے۔ ([6])
(6)فَقْر(یعنی غُربت) اختیار کرنے والے
فرمانِ آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہے: جنّت میں ایسے بالاخانے(یعنی بلند محلّات) ہیں جن کی طرف اہلِ جنّت ایسے دیکھیں گے جیسے دنیا والے آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہیں، ان میں صرف فَقْر(یعنی غُربت) اختیار کرنے والے نبی، شہید فقیر اور فقیر مومِن داخِل ہوں گے۔([7])
اے عاشقانِ جنّت! جنّت میں بلند مقام اور اونچے اونچے محلّات پانے کے لیے ہمیں خوب نیکیاں کرنا ہونگیں اور بُرائی سے بچنے والا بننا ہوگا، اللہ پاک ہمیں اپنی رضا کے لیے جنّت میں بلند محلّات حاصل کرنے والی نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ اصلاحی کتب، المدینۃ العلمیہ، کراچی
Comments