سفر اور بچے
سَفَر محض منزل تک پہنچنے کا نام نہیں بلکہ یہ بچّوں کی شخصیت سازی، مشاہداتی صلاحیتوں اور تربیَتی مواقِع سے بھرپور ایک حَسین تجربہ ہوتا ہے۔ والِدین اگر چاہیں تو سفر کے لمحات کو صرف تفریح نہیں بلکہ تربیَت کا ذَریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔ راستے میں آنے والی تبدیلیاں، نیا ماحول، مختلف لوگ، اجنبی منظر، سب کچھ بچّے کے ذہن پر گہرا اَثر ڈالتے ہیں، ایسے میں ان کی باتوں، سُوالات اور مشاہدات کو سنجیدگی سے لینا ضَروری ہوتا ہے۔
سَفَر سے پہلے کی تربیَت:
(1)بچّوں کی حفاظت کے پیشِ نظر بچے کو اپنا اور والدین کا نام اور رابطہ نمبر یاد ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے والِدین کو چاہیے کہ سفر سے پہلے بچوں کو یہ چیزیں لازمی اچّھے طریقے سے یاد کروا دیں، تاکہ کسی ہنگامی صورتِ حال میں فوراً رابطہ کیا جاسکے۔ (2) بچوں کو یہ بات بھی سمجھائی جائے کہ اگر خُدانخواستہ وہ ماں باپ سے بچھڑ جائیں تو گھبرانے کے بجائے فوراً کسی پولیس اہلکار یا سفر کے منتظم کے پاس جائیں اور مدد طلب کریں۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ پولیس یا منتظم کو پہچاننے کا طریقہ کیا ہے، تاکہ وہ کسی غلط شخص کے بجائے دُرُست فرد سے رابطہ کر سکیں۔ (3)اسی طرح سفر میں اجنبی لوگوں سے ملنے کا موقع بھی بچوں کی تربیَت کا حصّہ بن سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو سکھائیں کہ ہر اجنبی سے بے تکلفی مناسب نہیں، مگر ہر اجنبی دشمن بھی نہیں ہوتا۔ سلام کرنا، راستہ دینا، چھوٹے موٹے احسانات کرنا یہ سب حسنِ سُلوک کی علامتیں ہیں، مگر بچوں کو یہ بھی سکھانا ضَروری ہے کہ حدود کا خیال رکھنا، مُحتاط رہنا، اور ضرورت سے زیادہ بات چیت سے بچنا کیوں ضروری ہے۔ یوں وہ عزّت و شرافت، مگر احتیاط کے ساتھ برتاؤ کرنا سیکھتے ہیں۔
کھانے پینے کے حوالے سے تربیَت:
(1)بچے سفر کے دوران اکثر فُضول اور غیر صحّت مند چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں جو نہ صرف صحّت کے لیے نُقصان دہ ثابت ہوتی ہیں بلکہ والِدین کے لیے پریشانی کا باعث بھی بنتی ہیں اس لیے والدین کو چاہیے کہ سفر شروع کرنے سے پہلے ہی گھر سے ہلکی پھلکی اور صحّت بخش چیزیں ساتھ رکھیں، تاکہ بچوں کو مُناسب متبادل مل سکے (2) اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو یہ عادَت بھی ڈالنی چاہیے کہ وہ فُضول اور غیر ضروری چیزوں کا مطالبہ نہ کریں اور قَناعت اختیار کریں۔
دودھ پیتے بچوں کے حوالے سے احتِیاط:
سفر میں دودھ پینے والے بچّوں کی ضَروریات اور احتیاط بڑے بچوں سے الگ ہوتی ہیں۔ والدین کو ان کے لیے خاص تیّاری کرنی چاہیے تاکہ دورانِ سفر مشکلات پیش نہ آئیں۔ یہاں چند ضروری نِکات ہیں: (1)بچے کو اگر ڈبے کا دودھ دینا پڑے تو صاف بوتلیں، پانی اور دودھ کا پاؤڈر ساتھ رکھیں (2)صفائی کا خاص خیال رکھیں تاکہ جراثیم سے بچا جاسکے (3)وقت پر دودھ دینے کی عادت بَرقرار رکھی جائے تاکہ بچّہ ضِد نہ کرے (4)عمر کے اعتبارسے گرمی میں وقفے وقفے سے اُبلا ہوا ٹھنڈا پانی دینا مفید ہے(5)دودھ پلاتے وقت پُرسُکون جگہ کا انتخاب کریں (6) اِضافی کپڑے، ڈائپرز اور چھوٹے تولیے ضرور رکھیں (7)دودھ پلاتے وقت بسم اللہ کہنا اور بچے پر دُعائیں پڑھنا روحانی حِفاظت کا ذریعہ ہے۔
پیشاب پاخانہ یا قے (اُلٹی) کے حوالے سے احتیاطی تدابیر:
بعض بچے دورانِ سفر گاڑی میں پیشاب پاخانہ یا اُلٹی کر دیتے ہیں جس سے دیگر مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے اس حوالے سے بھی والدین کو چاہیے کہ بچّوں کو چند احتِیاطی تدابیر بتائیں:(1) بچوں کو بھاری یا چکنی اشیا کے بجائے ہلکی پھلکی غذا لینے پر آمادہ کریں تاکہ قَے یا بدہضمی کا خطرہ کم سے کم ہو۔ (2) بچوں کو سمجھائیں کہ سفر شُروع کرنے سے پہلے واش روم لازمی جایا کریں تاکہ راستے میں کسی قسم کی مشکل نہ ہو۔ یہاں والِدین کو بھی چاہیے کہ پہلے سے ہی پلاسٹک بیگز، ٹشو اور چھوٹے تولیے ساتھ رکھیں تاکہ اگر بچّہ گاڑی میں گندگی کرے تو فوراً صاف کیا جا سکے اور دوسروں کو تکلیف نہ ہو (3)اسی طرح بچوں کو یہ بھی سکھائیں کہ جیسے ہی دل گھبرائے یا متلی ہو فوراً بتائیں تاکہ والدین اس کا بَروقت تدارُک کرسکیں۔ (4) بچوں کو سکھائیں کہ آپ کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ اگر گاڑی میں اُلٹی یا پیشاب پاخانے والا معاملہ ہو بھی جائے تو فوراً صفائی کا اہتمام کریں اور دیگر مسافروں سے معذرت کرنا نہ بھولیں۔ یہ بچوں کی ایک بہترین تربیَت ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینا بُری بات ہے۔
صَبْر،حسنِ اخلاق اور شکر گُزاری کی تربیَت:
سَفَر کے دَوران والدین کا رویّہ، الفاظ، ردِّعمل اور برداشت کا معیار بچوں کے دل و دماغ پر گہرے نُقوش چھوڑتا ہے۔ اگر والدین صَبر، حسنِ اخلاق، شکر گُزاری، اور نَظم و ضَبط کا مظاہرہ کریں تو بچّے بھی وہی سیکھتے ہیں۔ مثلاً ٹریفک جام میں والد کا پُرسکون رویّہ، کسی پریشانی پر ماں کی شکر گُزاری، یا کسی فقیر کو صدقہ دینے کا عمل یہ سب عملی اسباق ہیں جنھیں الفاظ میں سمجھانا مشکل اور عمل میں دکھانا آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا والدین اپنے عمل کے ذریعے بچوں کو صَبر، حسنِ اخلاق اور شکر گُزاری کی تربیَت دیں۔
دورانِ سفر ناگہانی آفت آنے پر تسلّی دیجیے:
اگر دَورانِ سفر کوئی ناگہانی حادثہ یا تکلیف دہ واقِعہ پیش آجائے جیسے گاڑی بند ہو جانا، کسی کا زخمی ہو جانا، یا کسی غیر متوقّع رُکاوٹ کا آ جانا تو یہ لمحے والِدین کے لیے آزمائش اور تربیَت دونوں کا موقَع ہوتے ہیں ایسی صورت میں والدین کو چاہیے کہ وہ خود گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں، نہ ہی بچوں کے سامنے خوف و پریشانی کا اِظہار کریں ان کے چہرے پر اطمینان، اللہ پر بھروسا، اور مثبت کلمات بچوں کو حوصلہ دیتے ہیں۔ بچوں کو تسلّی دی جائے، ان سے نَرمی سے بات کی جائے اور اُنہیں سمجھایا جائے کہ زندَگی میں ایسے لمحات آتے رہتے ہیں مگر ہم صبر اور تدبیر سے اُن کا سامنا کرتے ہیں۔
قدرتی مناظر کی معلومات فراہم کیجیے:
سَفَر کے دَوران بچے والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، یہ وقت ان کے دل میں اپنے والدین کے قریب ہونے، ان سے باتیں کرنے، اور سیکھنے کے لیے قیمتی ہوتا ہے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اس وقت کو صرف موبائل یا خاموشی میں ضائع نہ کریں بلکہ بچوں سے گُفتگو کریں، ان کے سوالات کے جواب دیں، اُنہیں نئے شہروں، راستوں، پہاڑوں، دریاؤں یا دیگر قُدرتی مناظِر کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ اس طرح بچوں میں علم، شوق، اَدب اور سلیقہ پروان چڑھتا ہے۔
سفر کی سنّتیں اور آداب سکھائیے:
سَفَر میں بچوں کو دُعا سکھانا، آدابِ سفر یاد دلانا، سفر کی سنّتوں سے روشناس کرانا، اور دوسرے مسافِروں کے حُقوق کے بارے میں بتانا بھی اہم ہے۔ ہوٹل میں کھانے کے آداب، وُضو اور نَماز کی احتِیاط، سونے جاگنے کے اوقات کی ترتیب، اگر والدین یہ سب باتیں بچوں کو محبّت اور حکمت کے ساتھ سکھائیں تو بچے انہیں زندَگی بھر یاد رکھیں گے ان شآء اللہ ۔
دَورانِ سفر بچوں کے ساتھ نَرم رویّہ رکھیے:
سَفَر میں بچوں کے ساتھ نَرمی، صَبر اور برداشت کا رویّہ رکھنا بھی تربیَت کا ایک اَہَم پہلو ہے۔ اگر بچہ تھک جائے، ضد کرے یا پریشان ہو تو والدین کو چاہیے کہ وہ سختی کرنےکے بجائے شَفقت سے کام لیں۔ یہ لمحات بچے کو سکھاتے ہیں کہ مشکل میں گھر والے ساتھ ہوتے ہیں، اور صبر کا پھل اچّھا ہوتا ہے۔
صَفائی کے حوالے سے تربیَت:
بچے اکثر ریپر، جوس کے ڈبے یا گند کچرا وغیرہ گاڑی یا سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کو شُروع سے یہ عادت ڈالیں کہ کوڑا ہمیشہ ڈسٹ بِن میں ڈالیں۔
آخِر میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سفر میں کی گئی تربیَت دل پر لکھی جاتی ہے، جو کمرہ جماعت یا نصیحت کے ذریعے ممکن نہیں۔ والِدین اگر تربیَت کو ایک بوجھ نہیں بلکہ ایک موقع سمجھیں تو ہر سفر بچوں کی شخصیت سنوارنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس لیے اَگلی بار جب آپ سفر پر جائیں، تو سامان کے ساتھ ساتھ تربیَت کا عَزْم بھی باندھ لیجئے۔ یہی سفر کل کے بہتر انسانوں کی تیّاری کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments