اللہ پاک کی عبادت کی تعلیم
مسلمانوں کا سب سے پہلا اور بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پاک ایک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠(۱۶۳)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور تمہارا معبود ایک معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان۔([1])
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:
فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ
ترجَمۂ کنزالایمان : تو جان لو کہ اللہ کے سِوا کسی کی بندگی نہیں۔([2])
تمام اَنبیائے کِرام علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام نے اپنی اپنی اُمَّتوں کو ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تعلیم دی،ان کی دعوت کے اس بنیادی نکتے کو بیان کرتے ہوئے اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَۚ-
ترجَمۂ کنزالایمان :اور بےشک ہر اُمَّت میں سے ہم نے ایک رَسول بھیجا کہ اللہ کو پوجو اور شیطان سے بچو۔([3])
قراٰنِ کریم میں مختلف مقامات پر کئی اَنبیائے کِرام علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام کا یہ مقولہ موجود ہے جو انہوں نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا تھا:
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-
ترجَمۂ کنزالایمان :اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔([4])
اللہ پاک نے قراٰنِ کریم کی متعدد آیاتِ مبارکہ میں اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اِرشاد فرمایا:
وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ(۹۲)
ترجَمۂ کنزالایمان :اور میں تمہارا رب ہوں تو میری عبادت کرو۔([5])
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۲۱)
ترجَمۂ کنزالایمان :اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا یہ اُمید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔([6])
اپنے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠(۹۹)
ترجَمۂ کنزالایمان :اور مرتے دَم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو۔([7])
اِن آیاتِ بینات سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک ہی عبادت کے لائق ہے،صرف اسی کی عبادت کی جائے اور وہی عبادت کا اَجر و ثواب بھی عطا فرمائے گا۔کسی کو دِکھانے،سنانے اور اپنی واہ وا کروانے کے بجائے محض اللہ پاک کی رضا پانے اور ثوابِ کمانے کے لئے عبادت کرنی چاہئے کہ اِخلاص کے ساتھ کیا جانے والا عمل ہی بارگاہِ اِلٰہی میں مقبول ہوتا ہے۔ اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:
فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَؕ(۲)
ترجَمۂ کنزالایمان :تو اللہ کو پوجو نِرے اس کے بندے ہو کر۔([8])
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:
فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰)
ترجَمۂ کنزالایمان : تو جسے اپنے رب سے ملنے کی اُمّید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔([9])
اللہ پاک کا بندوں پر یہ حق ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ حضرت مُعاذ رضی اللہ عنہ رِوایت کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا: مُعاذ! کیا جانتے ہو اﷲ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اﷲ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کی: اﷲ پاک اور اس کا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا: اﷲ کا حق تو بندوں پر یہ ہے کہ اُس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا حق اﷲ پاک پر یہ ہے کہ جو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو اُسے عذاب نہ دے۔([10])
عبادت کرنے سے جہاں اللہ پاک کے حق کی اَدائیگی ہوتی ہے وہاں اِنسان کے دُنیا میں آنے کا اصل مقصد بھی پورا ہوتا ہے، اللہ پاک کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں۔([11])
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے دُنیا میں آنے کے مقصد میں کامیاب ہوجائیں تو ہمیں اپنی زندگی شریعت و سنَّت کے مُطابق گزارنی ہوگی۔ اگر ہمارا اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا اَلغرض ہر ہر کام شریعت و سنَّت کے مطابق ہو جائے تو ہمارا ایک ایک لمحہ عبادت میں شُمار ہو گا۔ اللہ پاک کی رَحْمت ہمارے شاملِ حال ہو گی اور ہمارے بگڑے ہوئے کام بھی بنتے چلے جائیں گے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:اے اِنسان! تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دَروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسانہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دَروازہ بند نہیں کروں گا۔([12])
اِس حدیثِ پاک میں بیان کردہ فرمانِ عالیشان کے نظارے فی زمانہ عام دیکھنے کو ملتے ہیں کہ مسلمان مال و دولت کمانے میں اِس قدر مگن ہو چکے ہیں کہ دِن رات،صبح شام اسی میں سرگرداں ہیں،ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو سکیں اور اس خالق و مالک کو یاد کر سکیں جوحقیقی روزی دینے والاہے۔ اتنی محنت و کوشش کرنے کے باوُجود آج جو ان کا معاشی حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، ہر کوئی رِزْق میں تنگی،بےبَرَکتی،مہنگائی،بیماری اور پریشانی کا رونا رو رہا ہے۔ اِس کے برعکس جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ پاک کی عبادت کے لئے فارغ کر دیا،اپنی زبان کو اللہ پاک کے ذِکر سے تَر رکھا اور اپنے دِل کو اللہ پاک کی یاد سے معمور کیا تو اللہ پاک انہیں اپنے فضل و کرم سے رِزْق عطا فرماتا،بَرَکتوں سے نوازتا اور ان کے تمام تر معاملات میں انہیں کافی ہو جاتا ہے۔
یاد رَکھئے! اللہ پاک نے اِنسان کو جو اتنی فضیلت و کرامت عطا فرمائی کہ اسے اشرفُ المخلوقات بنایا اور عزت و عظمت کا تاج اس کے سَر پر سجایا، یہ عزّت و عَظْمت اسی وقت ہے جب اِنسان اپنے رب کا فرمانبردار بن کر اس کی بندگی کرتا رہے ورنہ اللہ پاک کے ہاں اس کی کوئی قدر و منزلت نہیں۔ اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْۚ-
ترجَمۂ کنزالایمان :تم فرماؤ تمہاری کچھ قدر نہیں میرے رب کے یہاں اگر تم اسے نہ پوجو۔([13])
یعنی جو رب کی عبادت نہ کرے اس کی بارگاہِ الٰہی میں نہ قدر ہے نہ عزّت، اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ متّقی و عابد مومن کی وہاں قدر بھی ہے عزّت بھی۔ رب فرماتا ہے:
وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
ترجَمۂ کنز الایمان: اور عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے۔([14])
پھر جیسا تقویٰ و عبادت ایسی ہی قدر و عزت ہے۔ اِنسان مٹی یا پانی کا ڈھیر ہے۔ اس میں نورِ ایمان قابلِ قدر چیز ہے:
شکل بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو!
کیا قدر اُس خمیرۂ مَا و مَدَر کی ہے([15])
لہٰذا اِنسان کی قدر و عزّت ایمان و عبادت سے ہے۔([16]) زندگی عبادت کے لئے ملی ہے، بغیر بندگی کے بسر کی جانے والی زندگی باعثِ شرمندگی ہے۔
زِندگی آمَد برائے بَندَگی زِندگی بے بَندَگی شَرمِندگی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، ذمہ دار شعبہ خلیفہ امیراہلسنت
Comments