شرائط نماز کی حکمتیں
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

شرائطِ نماز کی حکمتیں

نَماز کی چھ شرطیں ہیں:(1)طہارت(2)سِتر عورت (3) استقبالِ قبلہ (4)وقت (5)نیّت (6)تکبیرِ تَحریمہ۔

ان چھ باتوں پر غور کیا جائے کہ نماز سے پہلے ان چھ باتوں کا پایا جانا کیوں لازم اور ضَروری قرار دیا گیا ہے تو اس سے اسلام کی حقانیت پر ایمان مزید پختہ ہوتا ہے۔ ان چھ شرائط میں کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں، ذیل میں مختصراً ملاحظہ فرمائیے:

(1)طہارت:

نماز بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا نام ہے اور یہ عام دستور ہے کہ کسی بھی معزّز شخصیت سے ملنے سے پہلے اپنے ظاہری لباس پر خاص توجّہ دی جاتی ہے، پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ ملاقات کہاں ہو گی۔  اللہ  پاک نے اپنے محبوبِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت پر خاص کرم نوازی فرماتے ہوئے اگرچہ اپنی پوری زمین کو ہی ملاقات کی جگہ قرار دیدیا ہے کہ جہاں چاہے اس کی بارگاہ میں حاضِری دے لی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رب کو یاد کرنے کے لئے کوئی وقت خاص ہے نہ کوئی جگہ متعین ہے،اسی طرح یادِ الٰہی کے لئے کسی خاص حالت کا ہونا ضَروری ہے نہ کسی خاص کیفیت کا ہونا ضروری ہے۔البتہ! نماز چونکہ بارگاہِ الٰہی میں خُصوصی حاضری کا نام ہے، لہٰذا اس کے لئے خاص اہتِمام کی تاکید کی گئی اور اس کے اوقات کی تعیین کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی شرط ٹھہرایا گیا کہ بارگاہِ الٰہی میں حاضری سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیا جائے کہ حاضری کی جگہ یعنی جہاں نماز پڑھنی ہے وہ نَجاست و پلیدی وغیرہ سے پاک و صاف ہو اور لباس بھی اس ملاقات کے شایانِ شان ہو۔نیز ظاہری بدن بھی پاک و صاف ہو یعنی بدن کی پاکی کے حوالے سے وُضو، غُسل یا تیمّم وغیرہ میں سے جس چیز کی حاجَت ہو اس کا بھی اہتمام کرنا ضروری ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ  اللہ  علیہ   کی بيان كرده حكمت كا خلاصہ ہے کہ نماز چونکہ دل کو پاک کرتی ہے اس لیے ظاہری پاکی بھی ضروری ہے، اس  ظاہری پاکی کے دنیاوی فوائد بھی ہیں جیسا کہ دق کی بیماری والے کا کپڑا مَکان بدن صاف رکھواتے ہیں تا کہ تندرستی حاصل ہو۔ 

پھر وضو میں چار اعضا کو ہی دھونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسا دو وجہ سے ہے:

 ایک یہ کہ وضو کے پانی سے خطائیں اور گُناہ جھڑتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السّلام سے پہلی جو لغزش صادر ہوئی یعنی گندم کھانا اس میں ان ہی چار اعضا نے کام کیا تھا کہ دماغ میں کھانے کا خیال آیا، پاؤں اُدھر چلے، ہاتھ سے گندم کو پکڑا اور منہ شریف نے کھایا۔ لہٰذا حکم ہوا کہ نماز کے لئے ان ہی اعضا پر پانی پہنچاؤ۔ دوم یہ کہ اب بھی اکثر گُناہ میں ان ہی اعضا کا زیادہ حصّہ ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں، آنکھ،ناک کان اور دل ودماغ سے ہی گناہ کئے جاتے ہیں۔ دل اور دماغ کا تعلّق بادشاہ اور وزیر کا سا ہے کہ دل پر رنج آیا تو فوراً دماغ سے پانی آنسو کی شکل میں ٹپکا اور جہاں دماغ میں بُرا خیال پیدا ہوا دل مغموم ہو گیا۔ لہٰذا دماغ پر مسح کر دیا گیا۔ دل کی جگہ نہ دھوئی گئی کہ دماغ کے ذریعہ دل پاک ہو گا۔([1])

(2)سِتر عورت:

فقہا کے نزدیک اگرچہ اس سے مخصوص جسمانی اعضا کو چُھپانا مراد ہے، مگر صوفیائے کرام کے نزدیک اس بات کو شرط ٹھہرانے میں یہ حکمت کارفرما ہے کہ بندہ اپنے باطنی اَمراض اور گُناہوں کو چُھپا کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہو، اگرچہ ایسا کرنا اس کے لئے ممکن نہیں کہ  اللہ  پاک تو ہر شے کو بخوبی جاننے والا ہے، لہٰذا نَدامت وخوف سے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر جب بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہو گا تو اُمّید ہے ربِّ کریم بھی اس کے گُناہوں سے دَرگُزر فرمائے گا۔([2])

(3)استقبالِ قبلہ:

شاہ ولی  اللہ  محدّث دہلوی  رحمۃُ  اللہ  علیہ  اپنی کتاب حجۃ  اللہ  البالغہ میں فرماتے ہیں کہ نماز کے لئے استقبال قبلہ کو شرط ٹھہرانے میں حکمت یہ ہے کہ  اللہ  پاک کے شعائر اور اس کے ان گھروں کی تعظیم واجِب ہے جن کو اس نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے، نماز چونکہ تمام ارکانِ اسلام میں افضل ہے اور اسے شعائر دین کی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا اس حالت میں کسی ایسی جگہ کی طرف منہ پھیرنا اور اس کو مرکز توجّہ قرار دینا کہ خاص طور پر اس جگہ کو  اللہ  پاک سے نسبت حاصل ہے، اطمینان قلب کا زبردست ذریعہ ہے، اس سے ایک مقصود یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ بندے میں خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اس کی صورت ایسی ہے جیسے بادشاہ کے رُوبرو کھڑا ہوکر کوئی اپنی عرض معروض کر رہا ہو۔ اس لئے نَماز میں قبلہ رخ کھڑا ہونے کو شرط ٹھہرایا گیا۔([3])

(4)وقت:

ہر نماز کا ایک خاص وقت ہی کیوں متعیّن کیا گیا، اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ  اللہ  علیہ  فرماتے ہیں: مؤمن کی ہر حالت رب کے ذِکر سے شُروع ہونی چاہئے، جن کی ابتدا اچھی ہو، اُمید ہے کہ انتہا بھی اچھی ہوگی۔ اسی لئے بچّے کے پیدا ہوتے ہی کان میں اَذان کہتے ہیں کہ یہ زندگی کی ابتدا ہے۔ چونکہ 24 گھنٹے میں انسان کے پانچ حال ہوتے ہیں۔ صبح کے وقت دن کی ابتدا ہے گویانئی زندگی ملی ہے۔ پہلے نماز پڑھے، ظہر کے وقت کھانے اور آرام سے فراغت پائی۔ دن کے دوسرے حصّہ کی ابتدا ہوئی، نماز پڑھے، عَصر کے وقت ملازمین کاروبار سے فارغ ہو کر سیر و تفریح کو چلے۔ تجارت کے فروغ کا وقت آیا نماز پڑھ لے۔ سوتے وقت جاگنے کی انتہا ہے۔ نیند جو ایک طرح کی موت ہے شروع ہو رہی ہے نماز پڑھ کر سوئے، شاید یہ آخِری نیند ہو کہ اس کے بعد قِیامت ہی کو جاگے۔([4])

(5) نيت:

اعمال کا دار و مدار چونکہ نیّت پر ہوتا ہے، لہٰذا نماز میں نیّت کا خالِص ہونا شرط ہے تا کہ نماز  اللہ  پاک کی رضا کے لئے پڑھی جائے، اگر مقصود کچھ اور ہو گا تو بندے کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی۔ بہار شریعت میں ہے: عبادت کوئی بھی ہو اُس میں اِخلاص نہایت ضروری چیز ہے یعنی محض رِضائے الٰہی کے لیے عمل کرنا ضرور ہے، دِکھاوے کے طور پر عمل کرنا بِالاجماع حرام ہے۔ ریا کے ساتھ نماز پڑھی تو اگرچہ نماز صحیح ہو گی مگر چونکہ اخلاص نہیں ہے ثواب نہیں۔([5])

(6)تکبیرِ تَحریمہ:

جب بندہ  اللہ  پاک کی عظمت و بُلندی اور اس کی کِبریائی کا اعتراف کرتے ہوئے تکبیرِ تحریمہ کہتا ہے تو گویا وہ عالم دنیا سے نکل کر عالم ملکوت میں داخل ہو جاتا ہے اور اس پر  اللہ  پاک کے علاوہ کسی اور کی طرف متوجّہ ہونا حرام ہو جاتا ہے۔([6])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* (چیف ایڈیٹر ماہنامہ خواتین دعوتِ اسلامی (ویب ایڈیشن))



([1])رسائل نعیمیہ، اسرار الاحکام، ص 286

([2])جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص36 مفہوماً

([3])حجۃ اللہ البالغہ، الجزء الثانی،ص2مفہوماً

([4])رسائل نعیمیہ، اسرار الاحکام، ص 283

([5])بہار شریعت، 3/636

([6])اسرار ارکان اسلام، ص 35۔


Share